Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

سات سے نو ہزار سال پرانی انسانی تہذیب(3

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • سات سے نو ہزار سال پرانی انسانی تہذیب(3

    (3)
    سات سے نو ہزار سال پرانی انسانی تہذیب
    قصور کے متعلق کہا جاتا ہے کہ کمال چشتی کے جو ٹیلے ہیں یہی پرانا قصور ہے۔ کمال چستی کے حوالہ سے ایک رویت عام ہے کہ راجہ راءے سنگھ سترویں صدی عیسوی میں یہاں کا حاکم تھا۔ وہ ہر دلہن کے ساتھ پہلی رات گزارتا۔ کمال چشتی کی ایک مریدنی جو دلہن تھی ان کے پاس بھاگ آئ اور سارا ماجرا سنایا۔ کمال چشتی نے اپنا پیالہ الٹا کر دیا۔ اس طرح یہ شہر غرق ہو گیا۔ انسانی تاریخ کے حوالہ سے یہ گزرے کل پرسوں کی بات ہے۔ امیر خسرو جو سات سو پہلے سے تعلق رکھتے ہیں ان کے مطابق کھنڈرات اس وقت بھی موجود تھے۔ کمال چشتی کا مزار کھنڈر کے اوپر ہے۔ گویا سترویں صدی عیسوی میں شکرپور تباہ ہوا۔کھنڈر پر موجود شہر برباد ہوا۔

    کمال چشتی کی تاریخ موجود نہیں۔ احمد علی لاہوری جو کشف القبور کا علم رکھتے تھے انھوں نے حضرت بلھے شاہ کے متعلق راءے دی کہ یہاں نیک ہستی دفن ہے جبکہ کمال چشتی کے بارے کہا کہ انھیں اس قبر کے بارے کچھ سمجھ میں نہیں آ سکا۔ گویا انھوں نے بات کو گول مول رکھا اور یہ کہنے سے گریز کیا کہ یہاں کچھ بھی نہیں ہے۔

    مردہ دفن کرنے کے علاوہ قبر سے چار اور کام بھی لیے جاتے رہے ہیں۔ یہاں کے حالات کبھی اندرونی اور کبھی بیرونی حملوں کی وجہ سے ناسازگار رہے ہیں۔ محلاتی سازشیں لوگوں کا سکون برباد کرتی رہی ہیں۔ ناساز گار حالات کے سبب انھیں مہاجرت اختیار کرنا پڑتی۔ ایسے میں صاحب جاہ اور اہل ثروت اپنی دولت قبر میں دفن کر دیتے اور معاملے کو قسمت کی یاوری پر چھوڑ دیتے۔ 1947 کی مہاجرت میں بھی ایسا ہوا۔ کئ ایک کو موقع مل گیا لیکن جنھیں موقع نہیں ملا ان کا خزانہ ابھی زیر زمین ہے یا کسی اور کا مقدر ٹھہرا۔

    قبریں دفاع کے کام بھی آئ ہیں۔ اوپر سے دیکھنے میں قبریں ہیں لیکن ان کے اندر سرنگوں کا جال بچھا ہوا ہوتا تھا۔ عہد سلاطین کی اس قسم کی چیزیں ملتی ہیں ممکن ہے یہ سلسلہ پہلے سے رواج رکھتا ہو۔

    مرشد کے کپڑوں وغیرہ کو دفن کر دیا اور اسے قبر کی شکل دے دی گءی۔ یہ ایک طرح سے مرشد کا احترام رہا ہے۔ اسے روزگار ذریعہ قرار دینا بھی غلط نہ ہو گا۔ اسے اس جگہ پر قبضہ کرنے کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔
    چلہ گاہوں میں کسی بابے کی چھوڑی ہوئ چیز کو دفن کر دیا گیا ہے۔ بعد ازاں وہ ڈھیری قبر ٹھہری ہے۔

    کمال چشتی کے حوالہ سے مختلف قسم کے قیافے اور مفروضے قاءم کیے جا سکتے ہیں تاہم انھیں حتمی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مثلا قاضی شعیب الدین صاحب کوئ چیز چھوڑ گیے ہوں اور اسے دفن کر دیا گیا ہو۔ اسے قاضی شعیب الدین صاحب کی چلہ گاہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ کمال عرفی نام ہو سکتا ہے یعنی چشتی کا کمال۔ قاضی شعیب الدین صاحب کوئ معمولی شخصیت نہیں تھے۔ ان کا دور راجہ راءے سنگھ سے تعلق نہیں رکھتا۔ یہ تو عہد سلاطین کی بات ہے۔ راجہ راءے سنگھ کے حوالہ سے غرق ہونے والے قصہ کو سچ مانتے ہیں تو یہ کوئ یہاں کہیں اور صاحب کرامت بزرگ موجود ہیں جن کے مقام دفن کی کوئ صاحب کشف ہی خبر دے سکتا ہے۔

    یہ مقبرہ سڑک سے قریبا پچاس فٹ کی بلندی پر ہے۔ مقبرے تک ایک سو دوسیڑھیاں ہیں۔ شیر شاہ سوری نےٹیلے کاٹ کر یہ سڑک بنوائ تھی۔ اس کے بعد یہ سڑک کئ بار بنی۔ یہ سڑک اصل سڑک سے تقریبا تیس فٹ سے زیادہ بلندی پر ہے۔ اس طرح یہ ٹیلہ دو حصوں میں بٹ گیا۔ دوسری بار یہ تاریخی ٹیلہ انگریز عہد میں تباہی کا شکار ہوا۔ اسی ٹیلے کو کاٹ کر وکیل خان کا مقبرہ تعمیر ہوا۔ بعد ازاں اس مقبرے سے دفاتر کا کام بھی لیا گیا اور اب یہ میوزیم ہے۔ ڈسٹرکٹ جیل اور پولیس لاءن بھی ٹیلہ کاٹ کر بنائ گئ ہیں۔ اس کے بعد سڑک کے ساتھ موجود ٹیلوں کی مسماری کا کام شروع ہو گیا۔

    مزار کمال چشتی سے دوسری طرف والے ٹیلے بلڈوذ کرکے سڑک کے برابر کر دیے گیے ہیں اور یہاں اب دوکانیں ہیں۔ ٹیلے شیر شاہ سوری سے پہلے بھی مسمار ہوءے ہیں لیکن اگلی شفٹ میں دوبارہ ٹیلے بنے ہیں۔ اس حوالہ سے متعلق گفتگو آگے آءے گی۔ انگریز راج میں ٹیلے کاٹ کر ریلوے لاءن بنائ گئ اس سے بھی پرانی تہذیب کے نشانتات غارت ہوءے۔
Working...
X