Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

سات سے نو ہزار سال پرانی انسانی تہذیب(2

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • سات سے نو ہزار سال پرانی انسانی تہذیب(2


    (2)
    سات سے نو ہزار سال پرانی انسانی تہذیب

    بابا جی بلھے شاہ کے مطابق قصور قصر سے ترکیب پایا ہے۔ قصر کی جمع قصور ہے۔ سترویں صدی میں یہ شہر آباد و شاداب تھا اور سکھوں کا تسلط تھا راجہ راءے سنگھ کا سکہ چلتا تھا اور اس شہر کا نام شکر پور تھا۔ عین ممکن ہے کہ یہ نام گنج شکر کے حوالہ سے ترکیب پایا ہو۔ بابا فرید شکر گنج کے مرید اور ان کے متعلق اوروں کا بھی یہ شہر بسیرا رہا ہے۔ یہ بھی خبر ہے کہ وہ یہاں خود بھی تشریف لاءے۔ بابا صاحب کے دادا جان قاضی شعیب الدین بھی یہاں تشریف لاءے۔ گویا بابا فرید سے پہلے قصور سے ان کے خاندان کا تعلق واسطہ تھا۔
    اس ذیل میں یہ روایت بھی موجود ہے
    (حضرت) رام چندر (جی) کے دو بیٹے‘ لاو اور کش تھے۔۔۔۔۔۔چوتھی صدی قبل مسیح میں لاو (یا لاہ) اور کش نے لاہور اور قصور شہر قاءم کءے۔ دوسرے بیٹے کا نام کس بھی بتایا جاتا ہے۔ لو اور کش سیتا کے بطن سے تھے اور راجپوتوں کے دو خاندان خود کو ان کی اولاد بتاتے ہیں۔ اس روایت کے مطابق اس علاقے کو قاءم ہوءے چوبیس سو سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے۔ کسی رویت کو اس وجہ سے تسلیم نہ کرنا کہ وہ مخالف نظریہ کے شخص کی ہے‘ کسی بھی حوالہ سے درست نہیں۔ قصور اگرچہ اس سے پہلے بھی موجود تھا تاہم یہ نام ( کسور) اس دور میں ملا۔ اس سے پہلے اس کا نام کوئ اور رہا ہو گا۔

    یہ کہنا کسی طرح درست نہیں لگتا کہ قصور کش نے آباد کیا اصل معاملہ یہ تھا کہ حضرت رام چندر جی نے لاہ کو لاہور والی ولایت اور کش کو قصور والی ولایت بطور جاگیر عطا کی۔ سکندر اعظم ویرانے میں ٣٢٦ یا ٣٢٩ میں نہیں آیا ہو گا علاقہ بیاس خوب آباد رہا ہوگا۔ یہی نہیں قصور پورے ہندوستان کی ذرخیز ترین ولایت تھی۔ گندم مکئ گنا سبزیات بشمول میتھی خصوصا جانوروں کا چارہ وغیرہ کی پیداوار کے حوالہ سے معروف رہا ہو گا۔ سکندری فوج نے خوب تباہی مچائ ہو گی۔ جوابا وہ بھی مرے ہوں گے۔ ان کی قبریں وغیرہ یہاں ہی ہوں گی۔ ہو سکتا ہے قبرستان جٹو میں ان کو دفنایا گیا ہو گا۔ چینی سیاح ہیون سانگ جو بدھ مت کا پرچارک بھی تھا‘ کے ہاں قصور کا ذکر موجود ہے۔ کپڑے کی صنعت کل پرسوں سے تعلق نہیں رکھتی۔ اسی طرح اسلحہ سازی میں کمال رکھتا تھا۔ اس ذیل میں کمال کے ہنرمند موجود تھے۔ پورس کی فوج کو آخر رسد کہاں سے دستیاب ہوتی ہو گی۔ یہ مانا نہیں جا سکتا رسد پوٹھوہار سے آتی ہو گی۔ علاقہ بیاس کے حوالہ سے رسد اور سپاہ اسی ولایت سے دستیاب ہوتی ہو گی۔

    لاہور نام کے شہر افغانستان اور پشاور میں بھی بتاءے جاتے ہیں۔ راجپوتانہ میں شہر لوہار موجود ہے۔ لہارو بھی ایک جگہ کا نام ہے۔ اس طرح کے اور نام بھی ملتے ہیں۔ گویا لاہ کی دسترس دور دراز علاقوں پر رہی ہوگی۔ اسی طرح بقول سید محمد لطیف اور کنہیا لال تحریروں میں لاہور؛ لوہار‘ لوہر‘ لوہ آور‘ لھانور‘ راہ رو‘ لہا‘ لہانو‘ لوپور‘ لوہارپور بھی آتا ہے۔
    ایک روایت کے مطابق لاہور کی بنیاد راجہ پریچھت نے رکھی اور اس کا نام پریچھت پور رکھا۔ اس راجے کا عہد شری شری رام چندر جی کے بعد کا ہے۔ یہ رایت درست نہیں کیونکہ لاہور علاقے کا وجود اس سے پہلے تھا۔ راجہ پریچھت نے اس ایریا میں کوئ الگ سے علاقہ آباد کیا ہو گا۔
    راجے مہاراجے اپنی اولاد اور دیگر خدمت گاروں کو گزارے کے لیے جاگیریں دے دیا کرتے تھے۔ یہ سلسلہ فوج کے حوالہ سے اور انگریز کی عطا کی گئ جاگیروں والے لوگ ہمارے ہاں موجود ہیں۔ غالبا لوہے سے متعلق پیشہ کے کام کرنے والے کے لیے لوہار مستعمل ہو گیا ہو گا۔ لوہ بہت بڑے یودھا رہے ہوں گے اور لوہا میں اس حوالہ سے ڈوبے رہتے ہوں گے۔ ویسے ہمارے ہاں بلکہ پوری دنیا میں نام بگاڑنے کا عام رواج ہے۔ یہاں ایک صاحب کا نام مولوی چھوٹیرا تھا وقت گزرنے کے بعد نام بگڑ گیا مولوی بٹیرا نام معروف ہو گیا۔ فضل دین سے فجا جنت بی بی سے جنتے ایسے نام سننے کو ملیں گے۔

    حضرت رام چندر جی کے خاندان کے لوگ دونوں ولاءتوں میں حکومت کرتے رہے۔ اس خاندان کے
    ایک راجے نے لاہور پر حملہ کرکے اس پر اپنا تسلط حاصل کر لیا۔ لاہور اور قصور ایک ولایت ٹھہرے۔ گویا اس حوالہ سے سیاسی سماجی معاشی اور معاشرتی اختلاط وجود میں آیا۔ قصور اس حوالہ سے بہت بڑی مضبوط اور توانا ولایت ٹھہرتی ہے۔ اس امر کے ثبوت اس کے کھنڈرات سے‘ جو ابھی کسی حد تک باقی ہیں سے تھوڑی سی کوشش کے بعد دستیاب ہو سکتے ہیں۔ کچھ چیزیں ایسی بھی موجود ہیں جس سے اس عظیم الشان ولایت کے دفاعی نظام کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

    ش آواز کا س یا س کا ش میں تبدیل ہونا کوئ نئ بات نہیں۔ کس پر ور کی بڑھوتی ہوئ ہے۔ ور پور کا تبادل ہے۔ جیسے جبل پور‘ نور پور‘ وزیر پور‘ بجید پور وغیرہ۔ پور سے پورہ ترکیب پایا ہے۔ تاہم ور بھی مستمل ہے جیسے بجنور بجن ور‘ اخنور اخن ور‘ پشاور پشا ور‘ سنور سن ور‘ کلانور کلان ور وغیرہ ۔ ور پور اور پورہ لاحقے جگہوں کے لیے استعمال میں آتے ہیں۔


    کش سے کس ہوا اور کس پر ور کا لاحقہ بڑھایا گیا اور اس سے کسور ترکیب پایا۔ اس رویت سے متعلق قصور کش والا قصور ہے۔ پٹھانوں کو جو علاقہ ملا اس پر انھوں نے عمارتیں تعمیر کیں اور یہ پٹھانوں کے دور سے نام مستعمل نہیں ہے۔ کثو بھی تحریروں میں آتا ہے اور اسی سے کثور ترکیب پایا ہو۔ ث کے لیے بھی رومن لکھتے ایس استعمال ہوتا ہے۔

    حضرت امیر خسرو یہاں تشریف لاءے اوران کے مطابق یہ عمارتوں کا شہر تھا اب عمارتیں ختم ہو گئ ہیں۔ یہ سات سو سال پہلے کی بات ہے۔ گویا سات سو سال پہلے بھی کھنڈرات پر ہی شہر آباد تھا اور اس کا نام قصور (کسور) تھا۔

    انگریز کے آنے سے رومن رسم الخط نے رواج پایا۔ ترقی پانے کے لیے رومن خط کا جاننا ضروری تھا۔ سپاہی سے آنریری کیپٹن تک ترقی پانے کے لیے فوج میں کلاسیں ہوتی تھیں اور یہ صورت پاکستان بننے کے بعد بھی موجود رہی حالانکہ اب اردو رسم الخط جاننے والے افسر آ گءے تھے۔ رومن خط میں
    استعمال میں لاتے ہیں۔
    K جبکہ ک کے لیے کےQ ق کیو
    سے شروع ہوتا ہے K قصور کے
    کا تلفظ لاہ ہی بنتا ہے۔
    lah اورکسکا تلفظ kas

    کس اور لاہ پر ور کی بڑھوتی ہوئ ہے۔ یعنی کس کا شہر لاہ کا شہر۔
    قصور اگر قصر سے ہوتا تو کیو سے اس کا آغاز ہوتا ناکہ کے سے یہ لفظ تر کیب پاتا۔ زبانوں میں یہ کوئ نئ بات نہیں۔ لفظ غریب کو مفلس کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے حالانکہ اس کے معنی پردیسی کے ہیں۔ گویا غریب لکھ کر مفلس معنی لیے جاتے ہیں۔ اپنی اصل میں یہ گریب ہے۔ گریب کو غلط سمجھا جاءے گا۔ قفلی کو غلط جبکہ قلفی کو درست سمجھا جاتا ہے جبکہ قلفی کوئ لفظ ہی نہیں ہے۔
    کسو (کیشو) بامعنی خوبصورت بالوں والا۔ روشن۔ درخشاں وشنو دیو کا ایک نام ہے۔ شری رام چندر جی کو وشنو دیو کا اوتار سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح سیتتا میا کو لکشمی کا اوتار خیال کیا جاتا ہے۔ کسر بامعنی دودھ‘ کسر ساگر کنیا لکشمی دیوی جو وشنو دیو کی پتنی ہیں کا ایک نام ہے۔ اس لیے کش کس کسو وغیرہ نام فرضی قرار نہیں دیے جا سکتے۔ یہ سب مسلمانوں کا عقیدہ نہ سہی انہیں میتھ کا درجہ تو حاصل ہے۔ کسی میتھ کو بے معنی اور بےکار قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ ہر میتھ غیر جانبدارانہ تحقیق کا تقاضا کرتی ہے۔ اس حوالہ سے انہوں نے اپنی سنتان کا نام کش بمعنی خوش شکل رکھا ہو گا۔
    قصر مقامی لفظ نہیں ہے۔ جو پٹھانوں نے شہر آباد کیا وہ موجود قصور ہے۔ ق اور ص دیسی حروف نہیں ہیں۔ س دیسی ہے گو یہ آواز عربی اور فارسی میں بھی موجودہ ہے۔ تان سین کو کھنڈروں کی جاگیر نہیں ملی تھی کھنڈروں پر آباد علاقہ تھا۔ اسی طرح حضرت امیر خسرو بھی آباد علاقے میں آءے ہوں گے۔

  • #2
    Re: سات سے نو ہزار سال پرانی انسانی تہذیب(2

    بہت عمدہ جناب

    اتنے دن کہاں غائب رہے بھائی

    اپنے شہر کے بارے میں اتنا عمیق مطالعہ تاریخ میں آپ کی دلچسپی کا آئینہ دار ہے

    اُمید ہے آتے رہیں گے اور بہتر سے بہتر معلومات شئیر کرتے رہیں گے

    ایکسلنٹ ووٹ اور ریپو پاور قبول فرمائے۔
    :star1:

    Comment


    • #3
      Re: سات سے نو ہزار سال پرانی انسانی تہذیب(2

      tovajo ke liay ehsan'mand. Allah aap ko khush rakhe.
      hazar hota rahoun ga.

      Comment


      • #4
        Re: سات سے نو ہزار سال پرانی انسانی تہذیب(2

        واہ جناب شہر قصور پہ تو پی ایچ ڈی کررکھی ہے میں نے سنا تھا میڈم نورجہاں بھی قصور سے تھیں؟
        ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
        سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

        Comment


        • #5
          Re: سات سے نو ہزار سال پرانی انسانی تہذیب(2

          shukarriya janab
          ji haan woh kasur hi ki thein.

          Comment

          Working...
          X