سات سے نو ہزار سال پرانی انسانی تہذیب
(1)
انسان ہمیشہ سے اپنے سے پہلوں کی بڑی دلچسپی اور توجہ سے کھوج کرتا آ رہا ہے۔ وہ جاننا چاہتا ہے کہ اس کے بڑے فکری معاشی اور معاشرتی حوالہ سے کہاں کھڑے تھے۔ ان کی نفسیات کیا تھی۔ اس ذیل میں وہ اپنا اور ان کا موازنہ بھی کرتا آ رہا ہے۔ انسان اپنے پرکھوں کی عزت کرتا ہے۔ ان کی اخلاقیات کی تحسین کرتا ہے۔ ان کی بہت سی باتوں پر فخر کرتا ہے۔ اس ضمن میں ان کو خود سے بہترسمجھتا آ رہا ہے۔ ان کی بعض کوتاہیوں کو صرف نظر کرتا ہے۔ ان کوتاہیوں کی نشاندہی کرنے والے کو برداشت نہیں کرتا۔ یہ اس کی نفساتی کمزوری ہی نہیں اپنے ماضی سے پیار اور اس سے اٹوٹ رشتہ ہونے کی دلیل بھی ہے۔ گویا انسان کی مثل زنجیر کی سی ہے۔ اگر وہ ماضی کے کسی شخص کو برا سمجھتا ہے تو بھی یہ اس سے متعلق ہونے کا ثبوت ہے۔
مورکھ (مورخ) ہو کہ واقعہ نگار‘ اس کو زندہ ہو کہ صدیوں پہلے کا مردہ بادشاہ عزیز رہتا ہے۔ کچھ ہی دن ہوے اخبار میں مع تصور خبر چھپی کہ جہانگیر بادشاہ کے مقبرے کی حالت بڑی بری ہے۔ خبر یوں لگی جیسے اس بر توجہ نہ دی گئ تو سماجی معاشی اور سیاسی دنیا برباد ہو جاءے گی۔ ککھ نہیں رہے گا۔ مجھے دکھ اور افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ قصور میں موجود سات سے نو ہزار سال پرانی انسانی تہذیب کا ستیاناس مار کر رکھ دیا گیا ہے۔ باقی ماندہ آثار کی گردن مارنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور کسی کو پرواہ تک نہیں۔ میں نے کسی بادشاہ کی قبر مبارک کا سراغ لگانے کی پوری پوری کوشش کی ہے۔ چاہے دین الہی کا سا مذہب ایجاد کرنے والا مسلمان تاریخ میں شامل بادشاہ ہی کیوں نہ ہوتا۔ میں نے تلاش کا عمل ابھی ختم نہیں کیا۔ ایک نہ ایک دن کوئ بادشاہ ضرور تلاش لوں گا کیونکہ مغلیہ عہد کی کچھ چیزوں کا سراغ مل گیا ہے۔
جس سات سے نو ہزار سال پرانی تہذیب کے فتل عام سے متعلق اپنی معروضات پیش کرنے جا رہا ہوں اس کا ہلکا پھلکا تعارف پیش کر رہا ہوں تاکہ اس علاقہ کے تاریخی ہونے کے حوالہ چند ابتدائ معلومات درج کر رہا ہوں تاکہ قاری کسی حد تک قصور* کو جان اور پہچان سکے۔
قصور حضرت بابا بلھے شاہ کی سرزمین ہے۔ حضرت فریدالدین گنج شکر نے یہاں چلہ کاٹا۔ ان کی چلہ گاہ آج بھی موجود ہے اور اس کی زیارت کے لیے لوگ یہاں آتے رہتے ہیں شہرہ عالم کی حامل پنجابی مثنوی “ہیر“ جو ہیر وارث کے نام سے جانی جاتی ہے‘ کے شاعر پیر وارث شاہ نے کسب علم اسی شہر سے حاصل کیا۔ حضرت پیرمہر علی شاہ صاحب اکثر یہاں تشریف لاتے رہتے تھے۔ میرا سوہنا شہر کی گاءک ملکہ ترنم نور جہان اسی شہر سے تعلق رکھتی تھیں۔ حضرت شاہ حسین کے پیر بھائ‘ صدر دیوان
یہاں اقامت رکھتے تھے اس لیے حضرت شاہ حسین لاہوری یہاں آتے جاتے رہتے تھے۔ حضرت غلام محی الدین داءم حضوری اور خواجہ غلام مرتضی کا تعلق قصور سے تھا۔
حضرت بابا گرو نانک دیو کے مسیر یعنی خالہ زاد رام تھمن قصور میں رہایش رکھتے تھے اس حوالہ سے وہ یہاں تشریف لاءے۔
راجہ ٹوڈر مل ماہر مالیات اور اکبر کا نورتن قصور سے تعلق رکھتا تھا۔ اکبر کے سرکاری گویے تان سین کو یہاں ( روہے وال) جاگیر عطا ہوئ۔ اپنی جاگیر پر آیا تو حضرت پیر اخوند سعید ان کا موزک سننے گءے۔گویا تان سین گویا ہی نہیں قصور کا جاگیردار بھی تھا۔ کہتے ہیں بادشاہ ہند رضیہ سلطان کی بادشاہی کو زوال آیا تو وہ قصور آگئ ۔ بڑے قبرستان میں آج بھی اس کی آخری آرام گاہ موجود ہے۔
سنگیت کی دنیا کے بادشاہ استاد بڑے غلام علی اور استاد چھوٹے غلام علی شہر قصور کے رہایشی تھے۔ راگ جنگلہ قصور کی ایجاد ہے۔ معروف سنگر منظور جھلا قصور کا رہنے والا تھا۔ جہان فن کے مصنف ڈاکٹر ظہور احمد چوہدری کا تعلق کوٹ رادھا کشن‘ قصور ہے۔
مولانااحمد علی جنہیں کشف القبور میں مہارت حاصل تھی کی قصور بلھے اور کمال چشتی کے دربار پر حاضری ثابت ہوتی ہے۔
عبدالله عبدی خویشگی مصنف اخبارالااولیا‘ مفتی غلام سرور چونیاں جو آج قصور کی تحصیل ہے میں ملازمت کرتے رہے' مولانا غلام الله قصوری‘ مولانا غلام دستگیر‘ علامہ شبیر احمد ہاشمی‘ علامہ مہر محمد خاں ہمدم (شاہنامہ اسلام ہمدم کے شاعر)‘ بانگ درا کا دیباچہ لکھنے والے سر عبدالقادر‘ تحریک مجاہدین کے سر گرم کارکن مولانا عبدالقادر وغیرہ قصور کے رہنے والے تھے۔
عبدالستار نیازی تحریک ختم نبوت کی پکڑ دھکڑ سے بچنے کے لیے قصور کے مہمان بنے۔ صاحب خانہ کے صاحب زادے کی مخبری پر گرفتار ہوءے
سید نادر سمشی جنہیں ١٩١٩ کی مارشل کی خلاف ورزی اور تھانے کی توڑ پھوڑ کے الزام میں کالے پانی بھیجا گیا قصور کے بہادر سپوت تھے۔
ناموس رسالت کی پاسداری میں ١٩٣٥ میں پھانسی کی سزا پانے والے غازی
محمد صدیق کا تعلق قصور سے تھا۔
صوفی شاعر غلام حضور شاہ قصوری‘ سوہن سنگھ سیتل‘ احمد یار خاں مجبور(میرا ایم فل کا مقالہ ان کی شاعری پر تھا)' آزر روبی معروف مصور‘ منیر احمد ساءنسدان‘ بھارت کی کسی ہاہیکورٹ کے چیف جسٹس ملہوترا‘ خواجہ محمد اسلام مصنف موت کا منظر‘ پروفیسر صحافی وزیر ارشاد احمد حقانی‘
ڈاکٹر مولوی محمد شفیع‘ علیم نصری مصنف شاہ نامہ بالا کوٹ‘ سی ایل نارنگ‘ چنن سنگھ ورک محقق اقبال قیصر‘محقق اقبال مجدی‘محقق ڈاکٹر ریاض انجم‘ معروف صحافی اسدالله غالب‘ تنویر بخاری‘ عبدالجبار شاکر‘ صادق قصوری وغیرہ قصور کے رہایشی رہے ہیں۔ اسی طرح عالمی شہرت یافتہ کینسر مرض کے ماہر ڈاکٹر محمود‘ ڈاکٹر ہمایوں نیرو سرجن‘ ڈاکٹر نعیم قصوری‘ ۔ ڈاکٹر سید کنور عباس ماہر اقتصادیات قصور کے رہنے والے ہیں۔
آءین 1973 کے خالق میاں محمود علی قصوری کا تعلق قصور سے ہے۔ زیڈ اے بھٹو کو تختہ دار تک پہچانے والا بھی قصور سے تعلق رکھتا ہے۔ پنجاب کے پہلے وزیراعظم نواب افتخار احمد ممدوٹ قصور سے ہیں انکے والد نواب شاہ نواز ممدوٹ قاءداعظم کے دست راست تھے۔ معین قریشی سابقہ وزیراعظم پاکستان قصور سے تعلق رکھتے تھے۔ سردار آصف احمد علی‘ سردار عارف نکئ سباقہ وزیر اعلی پنجاب قصور کے ہیں ملک شوکت عزیز سابقہ وزیراعظم کا تعلق قصور سے ہے۔ پنجاب کا پہلا چیف سیکریڑی عبدالمجید شیخ کا تعلق قصور سے ہے۔
یوسف خاں اور ضیاء محی الدین قصور کے ہیں۔ بھگت سنگھ آزاد کے ننھیال قصور کے ہیں۔ ان کے ڈیتھ ورانٹ پر دستخط بھی ایک قصوری مجسڑیٹ نے کیے۔ کرانتی کار نظام لوہار اور ملنگی قصور کے ہیں۔ معوف ڈاکو جگت سنگھ المعروف جگا کا تعلق بھی قصور سے ہے۔
علامہ علاؤالین صدیقی، صوفی تبسم‘ سید عابد علی عابد‘ ڈاکٹر سید عبدالله‘ اشفاق احمد‘ اختر شمار وغیرہ قصور تشریف لا چکے ہیں۔
میتھی جوڑوں کے درد کی شفا اور بطور سبزی پوری دنیا میں اپنا الگ سے شہرہ رکھتی ہے۔ فالودہ اور اندرسے قصوری تحفہ ہیں۔ پیروں میں پورا نہ آنے کے سبب قصوری جتی کو کیسے فراموش کیا جا سکتا ہے۔
قصور سے تعارف کے لیے یہ بہت ہی مختصر تفصیل کافی لگتی ہے۔ میں اسے یہاں ختم کرتا ہوں کیونکہ اس کے بعد کےانکشافات اس تفصیل سے کہیں زیادہ حیران کن ہوں گے۔
Comment