آخری تبدیلی کوئی نہیں
نوٹ:
ہم چھوٹے چھوٹے چھوٹے ہوا کرتے تھے مخدومی و مرشدی بابا جی سید غلام حضور حسنی اس طرح کی کہانیاں سنایا کرتے تھے۔ وہ کہانیاں آج بھی لوح دل پر نقش ہیں۔ دن کبھی ایک سے نہیں رہتے۔ ہر لمحہ تبدیلی سے گزرتا ہے اور کل من عیھا فان کی طرف بڑھ جاتا ہے۔
بھلے وقتوں کی بات ہے۔ دو دوست ہوا کرتے تھے۔ ایک سوداگر جب کہ دوسرا کوئی کام نہیں کرتا تھا۔ ایک دن سوداگر دوست نے کہا فارغ رہنے سے وقت نہیں گزرتا۔ ضرورتیں تو منہ پھاڑے رہتی ہیں۔ آؤ تمہیں اوبےنگر کی فوج میں بھرتی کرا دیتا ہوں۔ اس کی ریاست اوبے نگر میں وقفیت تھی لہذا جلد ہی اس کا دوست فوج میں بھرتی ہو گیا۔ دونوں کو خوشی ہوئی۔ بات بھی خوشی والی تھی کہ روٹی کا سلسلہ چل نکلا۔
دو چار سال کے بعد اس کا ادھر سے گزر ہوا۔ اس نے سوچا کیوں نہ دوست ہی سے مل لوں۔ چھاؤنی گیا۔ اس نے پوچھا سپاہی تیغا رام کدھر ہوتا ہے۔ پتا چلا اچھی کارگزاری کی وجہ سے وہ حوالدار ہو گیا ہے۔ اسے خوشی ہوئی کہ اس کا دوست ترقی کر گیا ہے۔ دونوں کی ملاقات ہوئی۔ سوداگر دوست نے اپنی خوشی کا اظہار کیا تو جوابا تیغا رام نے کہا:
یار دن وہ نہیں رہے دن یہ بھی نہیں رہیں گے۔
اسے دوست کے جواب پر حیرانی ہوئی۔ کچھ نہ کہا‘ چپ رہا۔
وقت اپنی مرضی‘ مزاج اور روٹین کی ڈگر پر چلتا رہا۔ شخص اوروں سے بےنیاز اپنے اپنے طور سے روٹی ٹکر تلاشنے میں مصروف تھا۔ سوداگر بھی سوداگری میں مصروف تھا۔ اس کا روٹین میں اوبےنگر جانا ہوا۔ اس نے اپنے دوست حوالدار تیغا رام کا چھاؤنی میں جا کر پوچھا۔ وہاں سے پتا چلا تیغا رام صوبےدار ہوگیا ہے۔ اس خبر نے اسے خوشی سے نہال کر دیا۔ ملاقات پر اس نے مبارک باد دی۔ تیغا رام نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔
یار دن وہ نہیں رہے دن یہ بھی نہیں رہیں گے۔
تیغا رام موج اور ٹھاٹھ کی گزار رہا تھا۔ حیرانی تو ہونا ہی تھی لیکن وہ چپ رہا۔ جواب میں کیا کہتا۔ سالوں میں تبدیلی تو آئی تھی۔ تیغا رام غلط نہیں کہہ رہا تھا۔
کچھ سالوں کے بعد سوداگر کا اوبے نگر سے گزر ہوا۔ وہ اپنے دوست تیغا رام سے ملنے چلا گیا۔ وہاں سے معلوم پڑا کہ وہ بادشاہ کا منظور نظر ہو گیا ہے اور وزیر مقرر کر دیا گیا ہے۔ اس نے سوچا وزیر ہو گیا تو کیا ہوا میرا تو دوست ہے۔ بامشکل ملاقات ہوئی۔ سوداگر نے اپنی خوشی کا اظہار کیا تو جوابا تیغا رام نے وہ ہی پرانا ڈائیلاگ دوہرا۔ اس کا کہنا غلط نہ تھا‘ لہذا اس نے ہاں میں ہاں ملائی اور تھوڑا وقت گزار کر رخصت ہو گیا۔
جب قسمت کا ستارہ زحل سے نکل کر مشتری میں آ جائے انسان کچھ سے کچھ ہو جاتا۔ اوبےنگر کے بادشاہ کی موت کے بعد بادشاہی تیغا رام کے ہاتھ میں آئی۔ اصل بات یہ تھی کہ تیغا رام کی عادات میں تبدیلی نہ آئی۔ وہ اپنے سوداگر دوست سے اسی طرح پیش آیا۔ پہلے کی طرح کھل ڈھل کر گپ شپ لگائی۔ اس کا کہنا وہ ہی رہا کہ
دن وہ نہیں رہے دن یہ بھی نہیں رہیں گے۔
سوداگر حیران تھا کہ تیغا رام ترقی کی آخری سیڑھی کراس کر گیا اب بھی اسی بات پر ہے۔ اس سے آگے تو زندگی میں کچھ بھی نہیں۔ وہ اسے ڈائیلاگ سمجھ کر چپ رہا۔
اگلی بار جب سوداگر اوبے نگر آیا تو اسے معلوم پڑا کہ بادشاہ تیغا رام انتقال کر گیا ہے۔ شہر کے باہر کھلے میدان میں چاردیواری کے اندر اس کی یادگار بنائی گئی تھی۔ مختلف طرح کے پودے لگائے گئے تھے۔ اسے خوب صورت بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی تھی۔ لوح یادگار پر تحریر کیا گیا تھا
عادل بادشاہ مہاراج تیغا رام
دن وہ نہیں رہے دن یہ بھی نہیں رہیں گے
سوداگر حیران تھا اب آخری تبدیلی بھلا کیا آئے گی۔ موت کے بعد بھلا کیا تبدیلی آ سکتی ہے۔
سوداگر کا اوبے نگر میں وہ آخری پھیرا تھا۔ وہ تیغا رام کی آخری یاگار کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ماضی کا ہر لمحہ شعور کے دریچوں سے جھانک رہا تھا۔ اس کی آنکھیں بھیگ بھیگ گئیں۔ اس نے سوچا تیغا رام درست کہتا تھا کہ دن وہ نہیں رہے دن یہ بھی نہیں رہیں گے۔ وہ سوچ رہا تھا اب بھلا اور کیا تبدیلی آئے گی۔ جب وہاں پہنچا تو دیکھا وہاں دریا بہہ رہا تھا۔ اس کے منہ سے بےاختیار نکل گیا‘
دن وہ نہیں رہے دن یہ بھی نہیں رہیں گے۔