ایک اور اندھیر دیکھیے
ہر چپہ پہ سجدہ ریز ہوا
پھر بھی میں کی گرفت میں رہا
کرنی اپنی ہی کرنی تھی
سجدوں کا محض ڈھونگ رچا تھا
آخر کب تک
آزمائش میں آ ہی گیا
میں سر چڑھ کر بولی تو
ڈھول کا بھید کھل گیا
پھر کیا تھا
مالک نے حضوری دوری مٰیں بدل دی
معافی کی طرف کیوں آتا
دیکھتے ہی دیکھتے نٹکا اس کا آسمان لگا تھا
خالق اسے جانتا تھا
وہ تو خود سے بےبہرہ تھا
رنگ روپ شکل بدل بدل کے ملتا رہتا ہے
کچھ ہی لمحے ہوئے ہوں گے
مجھے ملا تھا
بےشک بڑا خوش لباس تھا
مرے سامنے سو کا اس نے دنبہ خریدا
میں دیکھ رہا ہوں اس سے وہ بےخبر تھا
میں نے پوچھا دنبہ کتنے کا دو گے
ریٹ دنبے کا اس نے ایک سو چالیس بتایا
میں نے کہا کچھ تو کم کرو
بڑی مشکل سے ایک سو تیس تک آیا
اصرار کیا تو کہنے لگا
قرآن کی قسم کھا کر کہتا ہؤں
ایک سو پچیس مری خرید ہے
پانچ منافع لوں گا
میں نے بصد افسوس اس کی طرف دیکھا
دنبہ خرید لیا کہ قرآن پر مرا یقین تھا
یہ قریبا دو بجے کی بات ہے
باریش تھا مسجد سے نکل رہا تھا
جلدیوں میں تھا
لگتا تھا کہیں کام ڈالے گا
سیدھا گودام میں آیا
پیسی مرچوں کے دو بورے واں پڑے تھے
پیسی اینٹوں کا ایک بورا
اس کی راہ دیکھ رہا تھا
اپنے ہنر میں صاحب کمال تھا
منٹوں سکنٹوں میں یہ پرایا
مرچوں کا ہم سفر ہوا
اب کہ تین بورے مرچوں کے ٹھہرے
رنگ روپ حسب نسب کا جھگڑا ہی ختم ہو گیا
مسجد میں اس کے طور ہی کچھ اور تھے
باہر آ کر یکسر بدل گیا
حاجی کے روپ میں بھی ملا
بڑا خوش اخلاق شیریں زبان تھا
مری بیوی کو شروع سے بیٹی کہتا تھا
سر پر ہاتھ پھرتا نگاہ نیچی رکھتا
یہ تو بہت بعد میں معلوم ہوا
مرے گھر کی ساری رونق
اسی کا لطف و احسان تھا
مجھ سا ناکارہ وگرنہ کب اس لائق تھا
کاش سائنس اتنی ترقی نہ کرتی
اور میں بےخبر ہی رہتا
عاشاں شکل و صورت میں کتنی معصوم لگتی تھی
باطن میں شیطان ہی کا اترن تھی
برسوں سے مرا پرموشن کیس اڑا پھسا تھا
بڑا بابو کبھی یہ کبھی وہ کاغذ مانگ رہا تھا
مرے ساتھ کیا ہو رہا ہے
اکثر سوچتا
مرے ساتھ کے ترقی انجوائے کر رہے تھے
میں ابھی تک قسمت کو کوس رہا تھا
ایک صاحب نے بلاتکلف کہا
پاگل اصل کاغذ دیتے نہیں
کبھی بابو کو کبھی قسمت کو کوستے ہو
کس کاغذ کی آپ بات کرتے ہیں
میں نے پوچھ ہی لیا
بڑا نوٹ جس پر بانی کی تصویر چھپی ہو
فائل میں لگاؤ پھر بےچنت ہو جاؤ
کام ہو جائے گا
سوچ میں پڑ گیا
یہ بگلا بھگت کتنے روپ دھارتا ہے
لو دور کیا جانا ہے
ہماری گلی کے موڑ پر ہی وہ رہتا ہے
کچہری میں منصف کے روبرو
کلام پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہے
جو کہوں گا سچ کہوں گا
سچ کے سوا کچھ نہ کہوں گا
ان دیکھے سچ کی کھاتا ہے
کیا کروں
اس کے کس روپ پر یقین کروں
مرا ہم جنس بن کر دغا کرتا ہے
ایک اور اندھیر دیکھیے
انگلی مری اوروں کی جانب تو اٹھ رہی ہے
جیسے ہل پر نہایا ہوا ہوں
کرتوت یہ ہے کہ
بیوی کے حضور جب جاتا ہوں
میں اس سا وہ مجھ سا ہو جاتا ہے
سچ مر جاتا ہے
یا پھر سات سمندر پار کر جاتا ہے