دو حرفی بات
منظوم افسانہ
عادت نہ ماننے کی اچھی نہیں ہوتی
جیتے جی مقدر اس کا بنتی ہے نیستی
اس کے پیرو سدا زیر عتاب رہتے ہیں
آگے بڑھتے قدم پیچھے کو آتے ہیں
اپنی پہ اڑنا گھاٹے کا سودا ہے
یہ بےجڑا پودا ہے
ریت کی دیوار کیسے کھڑی کرو گے
بلا ہنر گر دریا میں چھلانگ لگاؤ گے
غوطے کھاؤ گے ڈوبو گے مرو گے
شیطان اپنی پہ اڑا ہوا ہے
صبح و شام لعنتیں ہی نہیں
ہر لمحہ پتھر روڑے کھاتا ہے
بس سچے دل سے توبہ ہی کرنی ہے
ایسا لمبا چوڑا اس کا حساب کتاب نہیں
پر کیا کریں
شخص انا کی غلامی کیے جاتا ہے
پھر بھی کہے جاتا ہے
میں آزاد ہوں میں آزاد ہوں
کہتا ہے یہ غیر کی داری نہیں
میں کہتا ہوں انا کس کی پیرو ہے
اللہ کے بنائے شخص کی یہ چیز نہیں
برسوں سے
میں اسے یہ ہی کہے جا رہا تھا
مری وہ کب مانتا تھا
مرا کہا حرف آخر ہے
یہ ہی اس کی ہٹ تھی
مرا کہا کوئی الف لیلی نہ تھا
دو حرفی بات تھی
میں کہتا تھا
کرنا اور ہونا میں فرق ہے
وہ کہتا تھا
ہونا کچھ نہیں کرنا ہی سب کچھ ہے
ہونی کرنے سے ٹل جاتی ہے
ہر بگڑی اس سے سنور جاتی ہے
کئی بار بیمار پڑا
میں کہتا رہا اب سناؤ
کرنے اور ہونے میں بڑا فرق ہے
جوابا کہتا بدپرہیزی کے سبب بیمار پڑا ہوں
مری گرہ میں مال ہے
ہتھیار دوا دارو کا مرے ہاتھ ہے
چنگا بھلا ہو جاؤں گا
عشق کی گرفت میں آیا
اٹھنا بیٹھنا سونا جاگنا گنوایا
روپیا پیسا بھی اس راہ میں لٹایا
گرہ کی بھی کوئی حد ہوتی ہے
کنگلا ہوا تو معشوقہ وہ گئی
بھوک ننگ کے نکاح میں کیوں آتی
میں نے کہا کرنے کی
اس سے بڑھ کر ناکامی اور کیا ہو گی
ہونی کا تو اس میں عمل دخل ہی نہیں
بھوکا ننگا ہو کر بھی
اپنے کہے پر ڈٹا رہا
کہنے لگا دولت ہاتھ کی میل ہے
عورت پاؤں کی جوتی
مری کرنی میں ہی کہیں چوک ہوئی ہے
ورنہ اس سالی کی ایسی کی تیسی
محنت کروں گا اور کما لوں گا
پھر اس سی بیسیوں
مرے چرنوں میں ہوں گی
اک روز
میں نے سنا آخری سانسوں پر ہے
میں اسے ملنے گیا
حواس بگڑے ہوئے تھے
چہرے کا رنگ بھی زرد پڑ گیا تھا
میں نے کہا سناؤ بھیا کیسے ہو
کیا سناؤں سانسیں گن رہا ہوں
اب تو ہونی کو مانتے ہو
یار اس میں ہونی کہاں سے آ گئی
میں اپنی غلط کرنی کی بھگت رہا ہوں
میں نے سوچا اب کچھ کہنا درست نہیں
اس کے دل پر تو
ختم اللہ کی مہر لگی ہوئی تھی
اسی شام ہونی کی گرفت میں آیا
چل بسا
جاتے ہوئے بھی نٹکا اس نے اوپر رکھا
ہونی کیسے ٹل سکتی تھی
کرنی کے ساتھ اگر ہونی کو بھی مانتا
اس میں آخر اس کا کیا بگڑ جاتا
مجنوں ہو کہ رانجھا
کرنی کی کب کھٹی کھا سکے ہیں
نکاح کرتے نہیں نکاح تو ہوتے آئے ہیں
جوڑے آسمان پر بنتے ہیں
زور زبردستی کے کام بگڑ جاتے ہیں