دو بانٹ
جھورے کے سسر تھے کمال کے
تامرگ سگے رہے مال کے
کدھر سے آتا ہے چھوڑیے
انگلی اٹھائے جو
بلا تکلف سر اس کا پھوڑیے
تول کے بھی ان کے دو بانٹ تھے
ایک سے لیتے تھے ایک سے دیتے تھے
یہاں ایک پیر صاحب رہتے تھے
نام ان کا کچھ اور ہے
پیار سے میں انہیں بابا دو بانٹ کہتا تھا
برائیلر فروش کے ہاتھ کا گوشت
خود پر حرام جانتے تھے
روڑی کھا کر پلا مرغا ہو کہ مرغی
بڑے شوق سے کھاتے تھے
جو ان کا شوق یاد رکھتے
بافیض بس وہ ہی ہوتے تھے
کمال کے طبع شفیق تھے
بوڑھی ہو کہ کم صورت
بیٹا کہہ کر بلاتے
سر پر پیار دے کر دعا دیتے
کام کی چیز اگر ساتھ لائی ہو
اندر بھجوا دیتے
دولت کو جیب میں رکھنے کا
انہیں کوئی شوق نہ تھا
گھٹنے کے نیچے دبا کر رکھتے تھے
بڑے دیالو اور کرپالو تھے
ہر عام چیز سے
خلیفوں کی دنیا بساتے
لنگر میں سے بےمایہ ادھر پڑا رہتا
ہر ستھرا مگر اندر چلا جاتا
گویا اندر بھی راضی باہر بھی راضی
بے داغ کپڑے ہوں اور پیٹ میں دال روٹی
بات کچھ جچتی نہیں
ہاں پیٹ میں ہو اگر دیسی مرغا
تو ہی بات بنتی ہے
گویا من بھی راضی تن بھی راضی
جھورے کے سسر سے مماثل بات کی بات ہی کچھ اور تھی
باصورت عورتیں انہیں خوش آتی تھیں
اوپر سے
چھوئی موئی سی ہوتیں تو
پیچے لڑ جاتے تھے
یہ ہی اک بات تھی
جس پر اندر اعتراض رہتا تھا
وہ کیا جانے
اک تو وہ پرانی تھی
پیپا بھی تھی
اوپر سے عادات میں بال ایانی تھی
دیسی مرغا جب ڈکارا ہو
ہر سو کنول چہروں کا نظارہ ہو
تن من میں مستی آ ہی جاتی ہے
مستی حواس کیا
ایمان بھی کھا جاتی ہے
جھورے کا سسر یاد میں اپنی
دو بانٹ چھوڑ گیا
اس کی بیٹی
یہ دونوں لے کر خاوند کے گھر گئی
پھر یہ ہی متاع جہیز لے کر
جھورے کے ساتھ نکل گئی
طلاق و نکاح کی اسے کیا ضرورت تھی
دو بانٹ کا یہ ہی تو کمال ہے
اصول و ضوابط سے آزادی دلا دیتا ہے
تاعمر مستی کی گزاری
جھورا مر گیا قولاں بھی مر گئی
شیخ تو حضور کے قدموں پر ہوتا ہے
حیرت تو یہ ہے
اس پیر کے ہاتھ
قولاں کے جہیز کی یہ متاع پلید
کیسے آئی
یہ بات پکی ہے
مائی جہیز میں نہیں لائی تھی
سنا ہے کھاتی خوب تھی
لیکن نیک اور پردہ میں رہتی تھی
ممکن ہے
جھورے کے ہمسایا میں کبھی رہے ہوں
وہاں سے چرا لائے ہوں
یقین نہیں آتا
پر کیا کریں
چوروں کو مور پڑتے آئے ہیں