کرپانی فتوی
منظوم افسانہ
فیقا ہمارے محلے کا درزی ہے
ہے تو سکا ان پڑھ
سوچ میں مگر فلاطو لگتا ہے
دور کی کوڑی ڈھونڈ کے لاتا ہے
سوچ ہی الگ تر نہیں
کپڑے بھی بلا کے سیتا ہے
الجھا الجھا سڑا بجھا بھی رہتا ہے
اللہ جانے گھر والی سے
نبھا اس کا کیسے ہوتا ہے
بےشک وہ اس کی عجیب باتوں سے
گھبرا جاتی ہو گی
پلے جو ُپڑ گیا‘ رو دھو کر نبھاتی ہو گی
کم ہی لوگ اس کی باتوں پر غور کرتے ہیں
ہاں جو کرتے ہیں اس کے ہو جاتے ہیں
بڑا زیرک ہے دانا ہے
بات کرتے بندہ کوبندہ دیکھ لیتا ہے
باتوں کی کھٹی کب کھاتا ہے
ڈٹ محنت کرتا ہے
خوب کماتا ہے
اس روز سب چھوڑ چھاڑ کر
چپ چاپ بستر پر لیٹا ہوا تھا
خلا میں بٹربٹر دیکھے جاتا تھا
پہلے سوچا بیمار ہے
بیماروں کے طور کب ایسے ہوتے ہیں
سوچا چلو حال چال پوچھ لیتے ہیں
بیمار ہوا تو کوئی خدمت پوچھ لیتے ہیں
میں اس کی دکان میں داخل ہو گیا
سلام دعا کرکے بیٹھ گیا
پوچھا کیا حال ہے
کیوں بےکار میں لیٹے ہوئے ہو
اٹھو شیر بنو
کوئی دو چار تروپے بھرو
آخر بات کیا ہے جو تم نے یہ حالت بنا رکھی ہے
آ جی بات کیا ہونی ہے
کل سے مسلسل سوچے جا رہا ہوں
یہ کہہ کر وہ فلاطو کی اولاد چپ ہو گیا
کچھ دیر انتظار کیا کہ اب بولتا ہے
جب خامشی نہ ٹوٹی تو میں نے کہا
منہ سے کچھ پھوٹو گے تو پتا چلے گا
نبی نہیں ہوں جو مجھ پر وحی اتر آئے گی
اس نے مری طرف دیکھا
اور اداس لفظوں میں یوں گویا ہوا
کالا ہو کہ چٹا
شرقی ہو کہ غربی
پنجابی ہو کہ عربی
شعیہ ہو کہ وہابی
چاہے اس سا ہو تول میں
کھوٹا رہا ہو یا کھرا بول میں
اس سے اسے کوئی غرض نہیں
مسلماں کشی میں کہیں رائی بھر جھول نہیں
ہر مسلمان کو ایک آنکھ سے دیکھتا ہے
مطلب بری کے بعد
اپنا چمچہ بھی توڑ دیتا ہے
اس کے قریبی گولی کی زد میں آ جاتے ہیں
جو لینا ہوتا ہے لے لیتا ہے
اس کے ہر دینے میں بھی لینا ہوتا ہے
شلوار ٹخنوں سے اوپر ہو کہ نیچے
ہاتھ چھوڑے یا باندھے
داڑھی بڑی ہو کہ چھوٹی
توند پتلی ہو کہ موٹی
اسے اس سے کیا
بس مسلمان ہو اتنا کافی ہے
اس کے مجرم ہونے میں
اس سے بڑا کوئی ثبوت نہیں
یہ معاملہ مسلمانوں کا ہے
اس کا نہیں
وہ صرف اتنا جانتا ہے
یہ مسلمان ہے
اس کی گردن زنی ہونی چاہیے
مسلمانوں کا عقیدہ و نظریہ اس سے الگ تر ہے
مسلمانوں نے اپنے اپنے مولوی رکھے ہیں
بلا کی توندیں ہیں
شورےفا بڑے ہوٹلوں میں
سائلوں کی گرہ سے کھاتے ہیں
مولوی بھی گھر سے کم کھاتے ہیں
دونوں اوروں کے پلے کی
باہر سے گھر بھجواتے ہیں
حلوہ ہو کہ آوارہ مرغا
توند اٹھائے بھاگے چلے جاتے ہیں
ہاں مگر کھیسہ میں کفر کا فتوی رکھتے ہیں
مسلمانوں کے ہاں
مسلمان کم پائے جاتے ہیں
وہابی سنی شعیہ کی بہتات ہے
فقط چند لقموں کے لیے
تفریق کے ایٹم بم
کبھی ادھر کبھی ادھر گراتے ہیں
تفریق کا بم
ایٹم بم سے کہیں مہلک ہے
آخر وہ دن کب آئیں گے
وہابی رہیں گے نہ شعیہ سنی
سب مسلمان ہوں گے
اگر تفریق مٹ گئی
تو اس کے ہر بم سے بچ جائیں گے
ایکتا پیٹ کے بندوں کو
کب خوش آتی ہے
لڑانے مروانے کا شوق
صدیوں سے چلا آتا ہے
وہ ان پڑھ درزی مسلسل بولتا رہا
شاید پچھلے جنم میں
مدینہ کی گلیوں میں گھوما پھرا تھا
اک ان پڑھ درزی کے سامنے
مری بولتی بند تھی
بات تو وہ ٹھیک کہہ رہا تھا
لیٹا ہوا تھا
کب پیٹ سے سوچ رہا تھا
پیٹ سے نکلتی سوچ مسمانوں کو کھا گئی ہے
مگر کیا کریں
جو بولے گا مولوی کا کرپانی فتوی
اسے کھا جائے گا
اک درزی اور یہ سوچ
یہاں کوئی باپ کے لیے نہیں سوچتا
پوری امت کے لیے وہ سوچے جا رہا تھا
سچ تو یہ ہے
اس کا انداز فکر مجھے بھا گیا
اس کا ہر لفظ قلب و نظر پر چھا گیا
جواب میں کیا کہتآ
بجھے دل اور بھیگی آنکھوں سے
میں واں سے اٹھ گیا
مرے بس میں یہ ہی کچھ تھا
میں بھلا اور کیا کر سکتا تھا
Comment