Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

عطائیں اللہ کی کب بخیل ہیں

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • عطائیں اللہ کی کب بخیل ہیں

    عطائیں اللہ کی کب بخیل ہیں حضور کے قدموں کی برکت دیکھیے آنکھیں جو قدم بوس رہیں کمال ہوئیں رشک ہلال ہوئیں تہی بر ملال ہوئیں اس سے بڑھ کر یہ بلال ہوئیں ان آنکھوں نے موت کو حیات بخشی زمینی خداؤں کو بندگی بخشی ہر لمحہ ان سے اخوت ٹپکی شریعت ٹپکی طریقت ٹپکی حقیقت ٹپکی میں نے سنا تھا شاہ حسین کے دربار کے عقب میں حضور کے قدموں کے نشان اہل ظرف نے محفوظ کر رکھے ہیں گناہ گار سیاہ کار سہی شوق لیکن مجھے وہاں لے گیا ڈرتے ڈرتے حضرت کے دربار میں داخل ہوا بساط بھر ادب سے سلام کیا درود پڑھا دعا کی اور دربار سے باہر آ گیا وجود میں ہمت باندھی ہر بری کرنی کی معافی مانگی تب کہیں جا کے دربار کے عقب میں گیا حضور کے قدموں کے نشان بڑے احترام بڑی ّعقیدت سے محفوظ تھے تازہ پھولوں سے سجے تھے لوگ بھی وہاں کھڑے تھے ہر آنکھ میں محبت تھی ّعقیدت تھی دل بےشک طواف الفت میں تھے ہاں کچھ لب بھی متحرک تھے انگلیاں شیشہءپا کو چھو رہی تھیں سوچا آگے بڑھوں نقش پا کو چوم لوں پھر سوچا مرے لب اس قابل کہاں انگلیوں سے ہی شیشہءنقش پا چھو لیتا ہوں انگلیوں میں مگر اتنا دم کہاں خواہش ابھری قدموں کو چھوتی پھول کی اک پتی ہی مل جاتی دونوں جہاں گویا مل جائیں گے گناہ گا ہو کہ نیکوکار عطائیں اللہ کی کب بخیل ہیں ایسا اگر ہوتا تو مجھ سے بھوکے مر جاتے تالہ اس شیشے کے بکسے کا کھولا خدمت گار نے حضور کے قدموں کو چھوتی اک پتی مرے ہات پر رکھ دی حیرت ہوئی‘ میں اور یہ فضل بےبہا دنیا و عقبی کی عطا سجدہ شکر کا مجھے کب ڈھنگ رہا ہے خدا جانتا تھا کہ اس کا بندہ ممنون ہے میں نے وہ پتی بصد شکر سدا خالی رہتے پرس میں ڈال لی مرے حضور کے قدموں کی برکت دیکھیے مری میں مر گئی مرا پرس بھی خالی نہیں رہتا راز یہ کھل گیا ہے قدموں میں ہی حضور کے دونوں جہاں ہیں جاؤں گا اگر حضور سے کسی جہاں کا نہ رہوں گا جو حضور کے قدم لیتا رہے گا اویس بنے گا منصورٹھہرے گا سرمد لقب پائے گا
    Last edited by Pegham; 6 October 2016, 16:47.
Working...
X