Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

ویلنٹاین ڈے کی حقیقت اور کرنے کا کام

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • ویلنٹاین ڈے کی حقیقت اور کرنے کا کام



    ویلنٹاین ڈے کی حقیقت اور کرنے کا کام


    (جاویداقبال بھٹی)

    ویلنٹاین ڈے دنیا بھر میں ہر سال 14فروری کو محبت کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ویلنٹائن ڈے کو محبوبوں کا خاص دن یا اسے عاشقوں کا تہوار کہا جاتا ہے۔اس کا تاریخی پس منظر کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے۔پادری ویلنٹائن تیسری صدی کے اواخر میں روحانی بادشاہ کلا ڈیس ثانی کے زیر حکومت رہتا تھاکسی نافرمانی کی بدولت بادشاہ نے پادری کو جیل بھیج دیا۔ جیلر کی لڑکی سے اس کی شناسائی ہو گئی اور وہ اس کا عاشق ہوگیا۔ وہ لڑکی ایک سرخ گلاب کا پھول لے کر اس کی زیارت کے لیے آتی تھی جب بادشاہ نے یہ معاملہ دیکھا تو اسے پھانسی دینے کا حکم صادر کیا۔ پادری نے آخری لمحات میں بھی اپنی محبت کا اظہاراس انداز سے کیا کہ اپنی معشوقہ کے نام ایک کارڈ ارسال کیا جس پر یہ عبارت تحریر کی:
    مخلص ویلنٹائن کی طرف سے

    ویلنٹاین ڈے کے تہوار کے وجود میں آنے کے حوالے سے یہ روایت بھی مشہور ہے کہ جب رومن اپنے قدیم مذہب کو چھوڑ کر عیسائیت اختیار کرنے لگے اور یہ مذہب تیزی سے پھیلنے لگا تو اس وقت کے رومن شہنشاہ کلاڈیوس دوئم نے تیسری صدی میں رومن نوجوانوں کی شادی پر پابندی عائد کردی کیونکہ شادی کے بندھن میں بندھنے کے بعد وہ جنگی مہمات میں شریک ہونے سے گریزاں ہونے لگے تھے۔سینٹ ویلنٹائن نے اس شاہی فرمان کی مخالفت کرتے ہوئے نوجوان جوڑوں کی خفیہ شادیوں کا اہتمام کرنا شروع کر دیا۔ جب شہنشاہ کو اس بات کا پتہ چلا تو اس نے سینٹ کو پھانسی کی غرض سے گرفتار کرکے جیل بھیج دیاجیل میں اسے جیلر کی بیٹی سے محبت ہوگئی جو کہ خفیہ ہی رہی کیونکہ عیسائی قانون کے مطابق پادری ساری عمر شادی یا محبت نہیں کر سکتے۔

    اس تہوار کے متعلق کئی روایات قدیم رومن تہذیب کے دور سے وابستہ ہیں جس میں یہ تہوار روحانی محبت کے اظہار کے لیے مختص تھا۔ اس ضمن میں بہت سی دیو مالائی کہانیاں اس سے منسوب ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ روم کا بانی رومولوس نے ایک بار بھیڑیے کی مادہ کا دودھ پیا تھا جس کے باعث اسے طاقت اور عقلمندی حاصل ہوئی تھی۔اہل روم اس واقعے کی یاد میں ہر سال وسط فروری میں جشن منایا کرتے تھے جس میں ایک کتے اور ایک بکری کی قربانی دی جاتی تھی جن کے خون سے دو طاقتور اور توانا نوجوان غسل کرتے تھے اور پھر اس خون کو دودھ سے غسل کرکے دھویا جاتا تھا۔اس کے بعد ایک عظیم الشان پریڈ کا آغاز ہوتا جس کی قیادت وہ نوجوان کرتا تھا۔ اس کے ہاتھوں میں چمڑے کا ہنٹر ہوتا تھا جس سے وہ ہر اس شخص کو مارا کرتا تھا جو اس کا راستہ کاٹنے کی کوشش کرتا تھا۔ رومن خواتین اس ہنٹر کی ضرب کو اپنے لیے ایک اچھا شگون سمجھتی تھیں کیوںکہ ان کا یہ عقیدہ تھا کہ اس طرح وہ بانجھ پن سے محفوظ رہیں گی۔

    برطانیہ میں ویلنٹاین ڈے سردیوں کے اختتام پر جنگلوں میں پرندوں کے ملاپ کی علامت کے طور پر منایا جاتا تھا اس موقع پر نوجوان ان لڑکیوں کی کھڑکیوں کی چوکھٹ پر پھولوں کے گلدستے رکھتے تھے جن سے وہ محبت کرتے تھے پھر ان کے پوپ نے اس دن کو سینٹ ویلنٹاین کی قربانی سے منسوب کرتے ہوئے 14 فروری کو محبت کے تہوار کا نام دیاجو کہ خالصتاً عیسائیوں کا ایک مذہبی تہوار ہے جس کے تانے بانے قدیم رومن کی غیر اسلامی تہذیب سے جڑے ہوئے ہیں اور جسے آج مسلمان بڑے فخر و انبساط کے ساتھ مناتے ہیںاور عیسائیوں کی پیروی کرتے ہوئے غیر محرم لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے کوتحفے میں گلاب کے پھول اور کارڈغیرہ دیتے ہیں۔ اس موقعے کی مناسبت سے ہمارے ٹیوی چینلز خصوصی پروگرام تیار کرتے ہیں اور مسلمان ناظرین عیسائیوں کی طرح بڑی رغبت سے ان پروگرامز کو دیکھتے ہیں اورذہن و قلب کے کسی گوشے میں یہ احساس تک پیدا نہیں ہوتا کہ کیا کفار کا یہ مذہبی تہوار ہماری تہذیب،ہماری ثقافت اور ہمارے دین اسلام کی تعلیمات اور مذہبی شعائر سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں۔

    اس طرح یہ رسم اٹلی میں منسوخ کردی گئی جہاں یہ راسخ و رائج ہو چکی تھی۔ پھر اس بھولی بسری رسم کو اٹھارویں اور انیسویں صدی میں دوبارہ زندہ کیا گیا اور کچھ مغربی ممالک میں کتاب ِمحبت کے نام سے عشقیہ نظموں پر مشتمل ایسی کتابیں شائع کی گئیں جن میں سے مختلف اشعار کا انتخاب کرکے ایک عاشق اپنی محبوبہ کو بھیج سکے ان کتب میں نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے لیے عشقیہ خطوط لکھنے کے طریقے اور ترغیبات بھی شامل ہوتی تھیں۔

    پاکستان میں ویلنٹائن ڈے کا تصور نوے کی دہائی کے آخر میں ریڈیو اور ٹی وی کی خصوصی نشریات کی وجہ سے مقبول ہوا۔ شہروں میں بلکہ اب تو قصبوں میں بھی بڑے جوش وخروش سے منایا جاتا ہے پھولوں کا ویلنٹاین ڈے دنیا بھر کی طرح ہر سال 14 فروری کو پاکستان میں بھی محبت کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے

    ہمارے نبی آخر الزمان نے آج سے چودہ سو سال قبل اللہ کے عطا کردہ علم کی روشنی میں آنے والے ایام کے بارے میں جو پیش گوئیاں کیں تھیں وقتا فوقتا ان کا ظہور ہورہا ہے اور ہوتا رہے گا یہاں تک کہ اللہ کے حکم سے قیامت برپا ہو جائیگی، موجودہ دور میں امتِ مسلمہ میں جو فتنے پیدا ہو رہے ہیں اور جو مستقبل قریب اور بعید میں جنم لیں گے ان کے متعلق آقائے نامدار نے اپنے اصحاب رضوان اللہ علیہم کو آگاہ فرما دیا تھا؛ آنے والے فتنوں کے بارے میں وارد بے شمار احادیث میں سے ایک حدیث کا مفہوم یہ بھی ہے کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ میری امت کے گروہ اللہ کے دشمنوں (یہود و نصاری) کی پیروی کرتے ہوئے ان کے مذہبی تہواروں اور انکے رسوم ورواج کو اپنا لیں گے۔

    دشمنانِ اسلام کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ مسلمان جب تک قرآن اور سنت سے جڑے ہوئے ہیں ان کو شکست دینا ممکن نہیں ہے۔ اس محاذ پر انہوں نے ہمیشہ منہ کی کھائی ہے اور کھاتے رہیں گے۔اس لیے کفار نے مسلمانوں کے ساتھ محاذ آرائی کے طریقے میں تبدیلی پیدا کر لی ہے انہیں معلوم ہے کہ روایتی جنگ میں اسلحہ کا استعمال کرکے وہ ایک مسلم ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا سکتے ہیں مگران کا یہ عمل مسلم امہ کو مشتعل کرنے کے ساتھ ساتھ متحد بھی کرسکتا ہے جو کہ ان کے مذموم مقاصد کی تکمیل میں رکاوٹ بھی بن سکتا ہے اس لیے انہوں نے ایسا منصوبہ تیار کیا کہ بغیر لڑے بھڑے مسلمانوں کی نظریاتی بنیادیں کمزور کرکے ان پر برتری حاصل کی جاسکے۔


    انہوں نے روایتی جنگ کی بجائے ثقافتی جنگ مسلمانوں پر مسلط کردی اور اسکے لیے کروڑوں اربوں ڈالرمختص کرکے جدید وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی مادر پدر آزاد ثقافت، مذہبی تہواروں اور عبادات کو زیب وزینت کا لبادہ اوڑھا کر مسلم ممالک میں منتقل کر دیااور ذرائع ابلاغ، سٹلائٹ چینلز اور انٹرنیٹ کے زریعے مسلم معاشرے میں اپنی عریاں ثقافت کا طوفان کھڑا کردیا رہی سہی کسر ان مسلم ممالک کے ٹی وی چینلز نے اس طرح پوری کردی کہ ان اسلام دشمن ممالک کے پروگرام اپنے ممالک میں عام کرکے ہرناظر کی ان تک رسائی کو آسان کردیا۔ ویلنٹان ڈے کی مناسبت سے خصوصی پروگرام تیار کئے گئے۔ تجارتی کمپنیوں نے اپنا منافع بڑھانے کی غرض سے ان چینلز پر اس مناسبت سے اشتہارات کی بھر مار کردی اور ویلنٹاین ڈے کو یوم محبت کے طور پرفروغ دیا۔نوجوانوں کویہ پیغام دیا گیا کہ یہ محبت کرنے والوں کے لیے ایک ایسا دن ہے جس میں وہ اس ہستی کو تحفے ، کارڈز اور گلاب کے پھول پیش کرکے اپنے محبت اور چاہت کا اظہار کر سکتے ہیں جس سے وہ محبت کرتے ہیں۔

    دینِ اسلام ایثار، امن و آشتی، بھائی چارہ اور محبت و اخلاص کا سبق دیتا ہے مگر اسکے ساتھ ساتھ اس نے اخلاقی قواعد وضوابط بھی وضع کر دئے ہیں جنکی حدود میں رہتے ہوئے زندگی گزارنے کا حکم دیا گیا ہے۔ کفار کی مشابہت اختیار کرنے اور انکے رنگ میں اپنے آپ کو رنگنے سے روکا گیا ہے۔غیر محرم مرد و عورت کے باہمی اختلاط اور آزادانہ میل ملاپ کی ممانعت کی گئی ہے کہ یہ بدترین فتنے کو جنم دینے والا عمل ہے۔
    مسلمانوں کو اللہ نے دو مبارک تہواروں کی خوشی عطا کی ہے ایک عید الفطر اور دوسری عید الا ضحی اور ان تہواروں کی بابت بھی یہ حکم ہے کہ شرعی حدود میں رہتے ہوئے،فسق وفجور سے اجتناب برتتے ہوئے اور اللہ کی رضا اور خوشنودی کے حصول کو مدنظر رکھتے ہوئے ان تہواروں کو صحیح اسلامی روح کے ساتھ منایا جائے۔

    یہود و نصاری کے تہوار وں کی بنیاد شرک اور بدعات پر مبنی ہوتی ہے اس لیے مسلمانوں کو غیر مسلموں کی رسومات، تہوار اوران کی روایات اپنانے سے منع کیا گیا ہے۔ ویلنٹاین ڈے کو محبت کا دن قرار دے کرنوجوان نسل کویہ غیر اخلاقی پیغام دیا گیا ہے کہ اس دن محبت بانٹو اور خوب بانٹواور محبت کی تقسیم کے اس عمل میں ہر رکاوٹ کو عبور کر جاؤ، پھر سال کے بقیہ دنوں میں چاہے ایک دوسرے کا خون پیتے رہو، ظلم و بربریت کی تمام حدوں کو پامال کرو، مگر اس ایک دن کو صرف جنسی محبت کے بٹوارے کے لیے مختص کردو۔جبکہ ہمارا پیارا دین مسلمانوں کو آپس میں شرعی قیود و حدود میں رہتے ہوئے سارا سال پیار و محبت، امن وآشتی اور مذہبی ہم آہنگی کے ساتھ رہنے کی تعلیم دیتا ہے۔

    آج ہماری بدقسمتی سے یہ تہوار کم وبیش ہر اسلامی ملک میں اپنی جڑیں مضبوط کر چکا ہے اور مسلم امت کی نوجوان نسل الا ماشاءاللہ نے کھلے دل وذہن سے نہ صرف اسے قبول کرلیا ہے بلکہ وہ یہود ونصاری سے زیادہ گرم جوشی اور رواداری کے ساتھ اسے منانے کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں۔ کئی مسلم ممالک میں ویلنٹاین ڈے پرفلاور شاپس پر گلاب کے پھول یا توناپید ہوجاتے ہیں یا ان کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیںاور لوگ زیادہ قیمتیں ادا کرکے بھی گلاب کے پھول خرید کر اپنے ویلنٹاین کے تحفہ دیتے ہیں۔فائیو سٹار ہوٹل اور بڑے ریسٹورنٹس اس موقع پر خصوصی پروگراموں اور خصوصی ڈشوں کا اہتمام کرتے ہیں اور ویلنٹاین جوڑوں کا انتحاب کرکے انہیں قیمتی انعامات سے نوازا جاتا ہے۔

    عصرِ حاضر کے تمام فتنوں اور خصوصاً ایسے فتن جو مسلمانوں کے اخلاق،ان کی دینی حمیت اور انکے عقائد کی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث ہوں ان کی انہیں نہ صرف شدت کے ساتھ مخالفت کرنی چاہئے بلکہ مسلم امہ میں ان خطرات کے خلاف بیداری کی مہم کا باقاعدہ آغاز کرنا چاہیے اور اس کام کے لیے تمام دستیاب وسائل سے بھرپور استفادہ کرنا چاہیے۔

  • #2
    Re: ویلنٹاین ڈے کی حقیقت اور کرنے کا کام

    ksi na ksi tarha musalmano ki halat e zar ko yahood o nisara sy jorny ki soch ko khatm hona chayee


    wahan mohabbat practical hy yahan sirf theory hy ..





    Comment

    Working...
    X