ایک خط
لفظ گرہ میں رہیں' تو شخصی ملکیت' زبان و قلم کی نوک پر آ جائیں' تو شخصی ملکیت اٹھ جاتی اور یہ اوروں کے ہو جاتے ہیں۔ ان لفظوں کے بوتے پر' اس شخص کی شخصیت کی بساط اٹھتی ہے اور وہ لفظ ہی' اس کی اور اس کے باطن کی' شناخت ٹھہرتے ہیں۔ بولنے یا پھر لکھنے والا' کچھ بھی کر لے' وہ اس کی گرفت میں نہیں آ پاتے' بل کہ وہ لفظوں کی گرفت میںآ چکا ہوتا ہے۔ لفظ جب پلاس ڈالتے ہیں' تو رائی بھر' بولنے لکھنے اور پڑھنے سننے والے کو' ادھر ادھر نہیں ہونے دیتے۔ غصہ' تاسف یا خوشی ان کے جذبات میں' پورے بن ٹھن سے بھنگڑا ڈالتے اور ان ہی کے حوالہ سے' افعال ترکیب پاتے رہتے ہیں۔ شخص کوئی بھی اور کسی بھی سطح کا ہو' اس کے لفظ' معنویت سے خالی نہیں ہوتے۔
شخص' کتنی بھی محتاط روی سے کام لے' جذبات کی شدت' اس کی محتاط روی کے پرخچے اڑا کر رکھ دیتی ہے اور اس کا باطن' منہ یا پھر کاغذ پر آ ہی جاتا ہے۔ جہاں اس کے وقتی اثرات سامنے آتے ہیں' وہاں وہ آتے وقتوں کے لیے' شہادت بن جاتے ہیں۔ گزرے وقت کے لفظوں سے' کنبے' قبیلے اور قومیں' اپنے ماضی کے احوال کو' اپنی تاریخ کا درجہ دیتے ہیں۔ یا یوں کہہ لیں' کہ وہ ان ہی کے حوالہ سے' اپنے ماضی کی شناخت کرتے ہیں۔ اکثر سنتے ہوں گے' ابا نے یہ کہا تھا یا میرے دادا کہا کرتے تھے۔ مخالف کسی کو اس لیے قتل کر دیتا ہے' کہ اس کے تایا نے اس کے ابا کو گالی دی تھی۔ لفظ خوشیاں' دکھ اور نفرت بانٹتے ہیں۔ باطور مثال چار ادوار کے لفظ پیش کرتا ہوں:
اسپ تازی شدہ مجروع بہ زیر پلان
طوق زریں ہمہ در گردن خر می بینم
حافظ شیرازی
مجنوں کا کوئی کیا حال پوچھے
یہاں ہر گھر صحرا کا نقشا ہے
رحمان بابا
بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہو گئی تیری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی
بہادر شاہ ظفر
تم اٹھائے پھرتے ہو دستار فضیلت
لوگ رہتے ہیں یہاں سر بریدہ
قاضی جرار حسنی
1972
یہ چاروں اشعار' اپنے عہد کی بھرپور عکاسی کر رہے ہیں۔ یہ لفظ مورکھ کے کہے کو' ایک طرف کر دیتے ہیں۔ مورکھ شاہوں کو رقم کرتا ہے یا پھران کے حوالہ سے' اس عہد کو قلم بند کرتا ہے' لیکن یہ لفظ عوام اور مجموعی صورت حال کے' عکاس ہوتے ہیں۔ اسی طرح' زبانی روایتیں' نسلوں تک کا سفر طے کرتی ہیں۔
لوگ مجھے پڑھا لکھا سمجھتے ہیں' ذرا میری جہالت تو ملاحظہ فرمائیں' میں اہل قلم کے خطوط کو' ادبی سمجھتا اور انہیں اہمیت دیتا تھا۔ اس نظریے کے پیش نظر' اپنے نام آئے' اہل قلم کے خطوط کو جمع کرنے کی کوشش میں تھا۔ اس ذیل میں' ہر کونہ کھدرا تلاش مارا تھا۔ عمومی دوست یاروں اور گھر کے لوگوں کے خطوط کو' غیر اہم سمجھ کر نظر انداز کر رہا تھا۔ اس بےاعتنائی کے دوران' دو چار خطوط پڑھنے کا اتفاق ہو گیا۔ ان کے مطلعے کے بعد' معلوم ہوا' یہ غیر ضروری نہیں ہیں۔ اہل قلم کے خطوط' رسمی طور پر نجی ہوتے ہیں۔ طرز تکلم بھی' رسمی سطع پر نجی ہوتا ہے۔ ان میں' ادبی رکھ رکھاؤ بہرطور موجود ہوتا ہے۔ ہاں البتہ دوست احباب اور گھر والوں کے خطوط' خالصتا نجی ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود
ایک مخصوص طرز تکلم کے حامل ہوتے ہیں۔
انڑویوز' احباب سے مکالمات' تعلیمی اسناد' اہل قلم کے خطوط یا پھر ان کی آرا سے' مکمل طور پر شخصیات سامنے نہیں آتی۔ یہ خطوط حقیقی شخصیت یا پھر اس کے وقت کے ساتھ بدلتے اطوار کو' سمجھنے میں بڑی معاونت کرتےہیں۔
مزید براں
متعلقہ شخصیت کے بہت سے پؤشیدہ اور نازک گوشے سامنے آتے ہیں۔
ان خطوط کے حوالہ سے' بہت سے معاشی معاشرتی اور سیاسی حقائق کو سمجھنے میں' مدد ملتی ہے۔
لفظوں کا استعمال بل کہ الگ سے پورا نحوی سیٹ اپ سامنے آتا ہے۔
بہت سے عمومی مہاورے ہاتھ لگتے ہیں۔
بہت سی ادب میں غیرمستعمل اصطلاحات' گلی کے مفاہیم کے ساتھ کھلتی ہیں۔
لفظوں کی مختلف اشکال پڑھنے کو ملتی ہیں۔
مکتوبی اطوار سامنے آتے ہیں۔
آوازوں کا الگ سے' تبادلی چلن دیکھنے کو ملتا ہے۔
غیر اردو لفظ مختلف انداز سے اردوائے گیے ہوتے۔
لفظ گھڑنے کا کوئی انداز ہاتھ لگ سکتا ہے۔
اس قسم کی اور بہت سی لسانی و فکری چیزیں میسر آتی ہیں۔ یہ چیز قطعا غیراہم نہیں۔
ایک خط 13 مارچ 1951 کا ملا ہے۔ یہ خط چھے صفحات پر مشتمل ہے۔ پہلے چار صفحات' حالات کی نذر ہو گیے ہیں آخری دوصفحے ملے ہیں۔ لکھنے والا کون تھا' معلوم نہیں ہو سکا' ہاں البتہ جس کے نام یہ لکھا گیا' کوئی ادبی شخصیت نہیں ہے۔ یہ خط' چونسٹھ سال سے زیادہ عمر رسیدہ ہے۔ اس خط کے وصول کنندہ میرے بھائی صاحب تھے' جنہیں حق ہوئے' کئی سال ہو گیے ہیں۔ خط کا مضمون' غالب کی غزل بنی ہے۔ غالب کی غزل نے پیام کا فریضہ انجام دیا ہے اور یہ ایک خوب صورت پہلو ہے۔
خط کا آغاز' مکالمے کے ذریعے کیا گیا ہے اور اسے محض مکلمہ قرار دے کر' خط سے قطعی الگ رکھا گیا ہے' جب کہ اس مکالمے میں جتنا میسر ہے' کہنے کی بات کہہ دی گئی ہے۔ اس مکالمے میں اہل تقوی اور بڑا ظرف رکھنے والوں کا چلن بھی درج کر دیا گیا ہے:
برا آدمی اپنی بدی سے باز نہیں آتا
تو افسوس ہے
کہ آپ نیک لوگ اپنی نیکی سے باز آئیں
ادبی مہاورے ملاحظہ فرمائیں
مجروع کرنا
الزام لگانا
سکوت طاری رہنا
ٹھنڈی سانس بھرنا
ہاتھ کھینچنا
تاثیر رکھنا
اعتنا برتنا
لکھوں تو لکھوں
تین مرکب ملاحظہ فرمائیں
دلفریب چیز
زہرآلود تیر
پرجوہر دوست
آپ کی کلام عجب تاثیر رکھتی ھہے
شاید کلام مونث بھی گلی میں مستعمل رہا تھا۔
ان معروضات کے تناظر میں' یہ کہنا کسی طور پر غلط نہ ہو گا' کہ خطوط کسی عام شخص کے ہوں یا کسی ادیب شاعر شاعر کے' غیرضروری نہیں ہوتے' بل کہ وہ کسی بھی قوم کا سماجی' ثقافتی اور ادبی سرمایا ہوتے ہیں۔ وہ اپنے عہد کی' شخصی اور قومی شہادت ہوتے ہیں۔ انہیں غیراہم سمجھ کر ضائع کرنا' سراسر جہالت کے مترادف ہوتا ہے۔
میسر خط کا ٹکڑا ملاحظہ ہو:
ہمدانے صاحب: اچھا حکیم صاحب آپ اسکا کیا جواب لکھیں گے۔
حکیم صاحب: محترم کچھ نہیں۔
ہمدانے صاحب: کیوں نہیں۔
حکیم صاحب: کیوں کا جواب نہ پوچھ۔ میں اب اس سے بہت متنفر ہو گیا ہوں۔
کچھ عرصہ دونوں میں سکوت طاری رہتا ہے۔ اسکے بعد حکیم صاحب ایک ٹھنڈی سانس بھرتے ہیں۔ ۔۔۔۔ جیسے کسی کی کوئی نہایت دلفریب چیز کھو گئی یا گم ہو گئی ہو۔۔۔۔۔ اور نہایت پرسوز لہجہ سے ہمدانے صاحب کو یوں مخاطب کرتے ہیں۔
برادر! اس ظالم کی طرف میں نے جتنا دست اخوت بڑھایا اتنا ہی اپنا ہاتھ کھینچا۔ میں جتنا زیادہ جھنجھوڑا وہ اتنا ہی زیادہ دور ہوا۔ میں نے جتنا پیار ظاہر کیا اسنے اتنا زیادہ اعتنا برتا۔ میں نے مصری دی اسنے پتھر مارا میں نے دعا دی اسنے گالی دی۔ میں نے ایک پرجوہر دوست پیش کیا اس نے چور بنا لیا۔ تو بتائیے ایسی حالت میں میں اسکو لکھوں تو لکھوں
ہمدانے صاحب: ہاں بھائی صاحب! یہ واقعی اسکی بیوقوفی ہے۔ تاہم آپ کو کچھ نہ کچھ لکہنا ہے۔
حکیم صاحب: ہمدانے صاحب آپ مجھے مجبور نہ کیجیے۔ اسنے میرے دل کو نہایت برا۔۔۔۔۔ دل کا الزام لگا کر مجروع کیا ہے۔ یہ دل ایسے دوست کی دوستی سے بیزار ہے حالانکہ نہ میں کوئی ڈاکو ہوں نہ چور ۔۔۔۔ نہ خوبرو بت نہ ترک نہ تتار خوامخواہ الزام ہے۔ ہاں اگر آپ کوئی خط لکھئے تو میں بھی اسمیں ۔۔۔۔۔۔پر ایک پر لکھ بھیجوں گا۔
بس۔
ہمدانے صاحب:
بھئی میں تو امتحان دینے کے بعدخط لکھوں گا۔ خود میرا ارادہ ہے نہ لکھوں خود جا کر مل آؤں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حکیم صاحب! برا آدمی اپنی بدی سے باز نہیں آتا تو افسوس ہے کہ آپ نیک لوگ اپنی نیکی سے باز آئیں۔ اگر وہ بدی کرتا ہے آپ نیکی کئے جایے آخر کبھی تو خدا اسکو سمجھا ہی دے گا۔ ضرور لکھو۔
حکیم صاحب: ہمدانے صاحب آپ کی کلام عجب تاثیر رکھتی ھہے آپنے میرے دل پر جادو خط لکھنے پر مجبور کر ہی لیا
اچھا لکھتا ہوں۔۔۔۔۔۔
از خیرپور 13 مارچ 1951
بخدمت جناب سید منظور حسین شاہصاحب اسلام و علیکم و رحمتہ الله
آپکا زہرآلود تیر میرے سینے سے پار ہو گیا۔ جواب کی طاقت نہیں رکھتا منررجہ ذیل اشعار پر اکتفا کرتا ہوں۔
ایک جا حرف وفا لکہا تھا سو وہ بھی مٹ گیا
ظاہرا کاغذ تیرے خط کا غلط بردار ہے
جی جلے ذوق فنا کی ناتمامی پر نہ کیوں
ہم نہیں جلتے نفس ہرچند آتش بار ہے
آگ سے پانی میں بجھتے وقت اٹھتی ہے صدا
ہر کوئی درماندگی میں نالہ سے ناچار ہے
ھہے وہی بدستی ہر ذرہ کا خود عذر خواہ
جسکے جلوے سے زمین تا آسمان سرشارھہے
مجھے مت کہہ تو ہمیں کہتا تھا اپنی زندگی
زندگی سے بھی مرا جی اندنوں بیزار ہے
آنکہہ کی تصویر سرنامہ پر کھنچی ہے کہ تا
تجھ پہ کھل جاوے کہ اسکو حسرت دیدار ہے
واسلام