حضرت بیوہ شریفوہ اس کی بہن کم' دوست زیادہ تھی۔ بچپن' پھر جوانی اور اب بڑھاپا' ایک دوسرے سے رابطے میں گزار رہے تھے۔ دکھ سکھ شیئر کرنے کے ساتھ ساتھ' باہمی خوش طبعی بھی چلتی۔ گویا رونے دھونے کے ساتھ ساتھ' قہقوں کا بھی تبادلہ ہوتا۔ پرانے قصے اور پرانی یادوں کو دہرا کر' من کا بوجھ ہلکا کر لیتے۔ اسے سعدیہ سے ایک گلے کے سوا' کوئی گلہ نہ تھا۔ قصور سعدیہ کا بھی نہ تھا' اسے بہن کی اندھی ہونی کا نام دینا' زیادہ مناسب لگتا ہے۔ وہ تو اپنے بھائی کو' دکھ دینے کے متعلق' سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔پورے کنبے کو نقصان پہچانے والا' آخری کردار' دنیا سے چلا گیا' تو ان دونوں کی نشت ہوئی۔ سعدیہ نے بتایا' کہ بھابی کی موت کا افسوس کرنے والے' مسلسل اور متواتر آ رہے ہیں۔ اس نے کہا' لوگ بھی کیسے ہیں' افسوس انہیں کرنے آ رہے ہیں' جنھیں افسوس ہی نہیں ہوا۔ سعدیہ نے افسوسا سا منہ بنا کر کہا' کیوں افسوس نہیں ہوا۔ بےچاری نے عمر کے آخری ایام' چھڑی کے سہارے گزارے۔ کان بھی جواب دے گئے تھے' ہائے بچاری بھابی۔ اب سماعت کی رخصتی کا کیا فائدہ تھا' لالہ تو عرصہ پہلے قبرباسی ہوگیا تھا۔بھائی! آپ یہ کیسی باتیں کر رہے ہیں۔ سعدیہ کا انداز گھبرایا اور پریشانی آمیز تھا' جیسے اس قسم کی بات گراں بار ہوئی ہو۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا' وہاں کوئی بھی نہ تھا۔ پھر یہ سوچ کر مسکرا دیا' دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں۔یہ ان کے بھائی کی' جان کھچ خاتون تھی اور بھلے وقتوں میں' ان کے بھائی شوکت نے اپنے جگری دوست علیے سے' بڑے ہی سستے داموں میں' خرید کی تھی۔ وہ اسے کب بیچنے والا تھا' اس کی بیوی' صبح شام جھگڑا کرتی تھی' حالاں کہ اس کے بابرکت قدموں کے طفیل' انھیں چوپڑی دستیاب ہو رہی تھی۔اس نے لالے شوکت ہوراں کے گھر آتے ہی' ناصرف لالے ہوراں کے حواس پر قبضہ جمایا' بلکہ اس کے بہن بھائیوں کے خلاف سرابی کماد بو کر' اس کی ساری کمائی کھیسے کرنا شروع کر دی تھی۔ اس کی سوت بھی' اسی طرح چلتی پھرتی' لالے ہوراں کے ہاتھ لگی تھی اور خاندان کی عورت کو' طلاق کا زہر پلا دیا گیا تھا۔ گویا وہ اپنی کرامتوں کے حوالہ سے کچھ کم نہ تھی۔ اس حقیقت کے باوجود' وہ اس خاتون کے پاسنگ نہ تھی۔ لالے ہوریں ابتدا اکلوتے ہوتے کے سبب' لاڈوں پلے تھے۔ ماں باپ نے اس پر ساری انرجی صرف کر دی تھی۔ شاید اسی کے سبب' وہ شروع ہی پڑھے لکھے چول تھے۔ماں باپ نے' پڑھائی لکھائی کی غرض سے' اس کا چھوٹا بھائی اس کے پاس چھوڑا تھا۔ پڑھانے لکھانے کی بجائے' سبزی سباڑی لانا اور نامہ بری کا فریضہ' اسے سونپ دیا گیا۔ جب ماں باپ کو خبر ہوئی' پانی سر سے گزر چکا تھا۔ انہوں نے سدھار کی پوری کوشش کی' لیکن اب کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ یہ ہی نہیں' چھوٹی بہن کے خاوند' جس کی عادتیں پہلے ہی بگڑی ہوئی تھیں' اپنا تھیلا بردار بنا لیا۔ گھر سے' کام کے لیے نکلتا اور لالے ہوراں کے ہاں ڈیرے لگا لیتا۔ لالے ہوراں کے ہاں' ناصرف گھر کا سودا سلف لاتا' بلکہ طوائف کدے' جوگن بائی کا ڈانس بھی دیکھنے جاتا۔ فلمی ہیرونوں کی زیارت کے لیے' ساتھ ساتھ ہوتا۔ بعض رنگین موقعوں پر' چوکیداری کا فریضہ انجام دے کر' حق نمک ادا کرتا۔ جب گھر جاتا' تو لالے ہوریں' اس کی ہتھیلی پر سکے رکھ دیتے۔ آخر کب تک' معاملہ کھلا تو مرض تیسری اسٹیج پر آ چکا تھا۔ وہ نااہل اور نکما ہو چکا تھا۔ آخری عمر تک را توتا بنا رہا۔ بیٹی کی خاطر ماں باپ اس کا بوجھ اٹھاتے رہے۔ بس اسی طرح روتے دھوتے عمر گزار کر' ملک عدم کو سدھارا اور اپنے توتائی جراثیم' اولاد کو بھی دے گیا' جو نہ ملنے یا انکار کی صورت میں' مامے ماسیوں کو برا بھلا کہنے میں' پوری انرجی صرف کر دیتے۔سعدیہ اور شکیل کی خوش قسمتی تھی' کہ چھوٹے ہونے باعث' لالے ہوراں کی دست برد سے' باہر رہے' ورنہ ان کا حشر بھی' پہلوں سے مختلف نہ ہوتا۔ تاہم بالواسطہ سہی' ان دونوں کے گوڈوں گٹوں میں بیٹھا۔ ہاں ان کی شخصیت ماں باپ کے زیر اثر ترکیب پائی۔ شکیل' ہنسی خوشی زندگی گزار رہا تھا' کہ بچے کی پیدائش کے تیسرے دن' اس کی بیوی صفیہ قضائے الہی سے' انتقال کر گئی۔ اس کے سسر عالم نے' اپنی دوہتری سے' اس کا نکاح طے کر دیا۔ لالے ہوراں سے' شکیل کے تعلقات ہیلو ہائے سے زیادہ نہ تھے۔ اس خریدہ خاتون نے' اپنی سوتن کے بڑے بیٹے کی منگنی' مادری سوسائٹی کی ایک لڑکی سے' کر رکھی تھی اور وہ' سوسائٹی کے رواج کے مطابق' نکاح دینے میں' حیلے بہانے بنا رہے تھے۔ ان کی بڑی بیٹی' چھتیس سال کی ہو چلی تھی۔ اس کی حنطل سخنی کے سبب' کوئی رشتے کی ذیل میں' نزدیک سے گزرنے سے خوف کھاتا تھا۔ شکیل کی بیوی کی موت کے بعد' اس خریدہ خاتون کے ہاتھ موقع لگ گیا۔ شکیل' ان سب کے اطوار اور طینت سے خوب خوب آگاہ تھا۔ دوسرا اس کا سسر جو بھلا آدمی تھا' اس کے مستقبل کا فیصلہ کر چکا تھا۔ لالے ہوراں کی خریدہ لالی نے' شکیل کی' اس حنطل کلام خاتون سے منگنی کر دی اور منگنی کی انگوٹھی' شکلیل کے حوالے کر دی۔ شکیل نے' چالیس بار منگنی کی انگوٹھی واپس کی۔ اس کے بعد' قریبی رشتہ داروں کو بھیجنے کا عمل شروع کر دیا' ان آنے والوں میں سعدیہ بھی تھی۔کب تک' آخر شکیل کو ہتھیار ڈالنا پڑے۔ نکاح کے روز' وہ پریشانی سے' ریلوے اسٹیشن کی کنٹین پر جا بیٹھا۔ آخر تلاش لیا گیا اور پھر' اس کی خریدہ دیوتا کے چرنوں میں قربانی پیش کر دی گئی' جس سے' اس کی شکتی میں بےپناہ اضافہ ہوا۔ گل حنطل سے' اس کی چند روز سے زیادہ نبھ نہ سکی۔ شکیل کا ہر رشتہ دار' جو پہلے سکندر اعظم بنتا تھا' اس کے بعد سکندر اعظم کی طرح' دم دبا کر بھاگ گیا۔ شکیل کو بھی' ش شیر سے ب بکری بننا پڑا۔ کوئی قدم اٹھاتا تو بھتیجے کا بھی گھر اجڑتا۔ پہلی قسط میں سعدیہ سمیت' سارے رشتہ دار گیے اور پھر گھر کی سوئی سلائی' اس کے وچارے گریب بہن بھائیوں کے قدم لینے لگی۔سعدیہ' اپنے بھائی کی حالت زار پر' دکھی ہوتی۔ اس نے بھائی کے لیے' دیکھنے میں' معصوم اور بھولی بھائی لڑکی تلاش کی۔ شکیل عقد ثانی پر رضامند نہ ہوا اور بڑا سمجھایا۔ وہ بھائی کی جدائی اور محبت میں پاگل ہو گئی تھی۔ یہاں بھی' چوتیے شکیل کو ہی ہار ماننا پڑی۔ اس نے سوچا شاید بہتری کی کوئی صورت نکل آئے۔ سعدیہ کو یہ موٹی سی بات سمجھ میں نہ آ سکی' کہ اس معصوم اور بھولی بھائی کو زبان دانی اور میکہ پالنی کی وجہ سے' دو بار طلاق ہو چکی تھی۔ سعدیہ نے قسم کھا کر بتایا' کہ وہ ان باتوں کی' خبر نہیں رکھتی تھی۔ شکیل چوتیا ب بکری سے بھ بھیڑ ہو چکا تھا۔ ہاں البتہ' گل حنطل نکرے لگ چکی تھی۔ سعدیہ سے خفیہ رابطہ بھی ختم ہو گیا۔بات کو' کئی سال گزر گیے۔ ایک دن' شکیل کو خفیہ پیغام ملا کہ پارک میں کوئی' اسے بلاتا ہے۔ اس نے بڑا غور کیا' کون ہو سکتا ہے۔ اس کے اندر سے آواز آئی' سعدیہ کے سوا اور بھلا کون ہو سکتا ہے۔ پہلے تو اس نے سوچا' نہیں جاتا پھر اس کے نادانستہ طور' پارک کی جانب قدم اٹھ ہی گیے۔ وہ سعدیہ ہی تھی۔ وہ جعلی غصے سے پیچھے مڑنے لگا۔ سعدیہ نے جلدی سے' اسے پکڑ لیا۔ پھر دونوں بہن بھائی ایک دوسرے سے لپٹ کر خوب روئے۔ من کا غبار چھٹ جانے کے بعد' دوبار ایک دوسرے سے پہلے کی طرح ہو گیے۔سعدیہ نے' پچھلا دھونا دھونے کا فیصلہ کیا۔ پہلے تو ان کی' ہنسی مذاق میں بات چلتی رہی' پھر ایک دن شکیل فرضی سنجیدہ بھی ہو گیا۔ اس نے سعدیہ سے کہا' آج تک میں نے' ایک تقریبا پڑھی لکھی جاہل سے اور دوسری مکمل جاہل طلاقن کے ساتھ' زندگی گزاری ہے۔ اب میں صرف اور صرف' پڑھی لکھی بیوہ کے ساتھ' نکاح کرنا چاہوں گا۔ سعدیہ حیران تھی کہ اس کا بھائی' کس قسم کی شرط عائد کر رہا تھا۔ ان کی اس مدے پر' کئی دن بات چلی اور سعدیہ نے' عائدہ شرط کی عورت بھی تلاش لی۔ وہ ٹیلی فون پر اس کا حال دریافت کرتے ہوئے پوچھتا' حضرت بیوہ شریف کیسی ہیں۔ وہ ہنس پڑتی' ساتھ میں آنے کے لیے بھی کہتی۔ معاملے کو سات ماہ گزر گیے۔ ایک دن سعدیہ نے' ایک ساتھ تین سوال جڑ دیے۔ نہ اس کے ساتھ بات کرتے ہو' نہ آتے ہو اور یہ بھی نہیں بتاتے' کہ یہ شرط کیوں عائد کی تھی۔ اس نے زوردار قہقہ لگایا' اور کہا' باتوں کا ڈسا ہوا ہوں' اب ہر عوت سے بات کرتے' مجھے کمبنی آتی ہے۔ شروع میں' شریں زبانی سے کام لے گی' نکاح کے چند روز بعد یا اگلے روز ہی' وکھی پرنے بولے گی۔ دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ اب میں نہیں' تم آؤ گی۔۔۔۔۔ہاں تم۔۔۔۔۔۔ جس مقصد کے لیے' شرط عائد کی تھی' وہ یہاں ہی پوری ہونے والی ہے۔کیا مطلب۔۔۔۔۔ شرط کا مفہوم تو کہیں نا۔سعدیہ' میں خود کشی کو حرام سمجھتا ہوں۔ میرے لیے' مزید سانس لینا محال ہو گیا تھا۔ میرا خیال تھا' کہ بیوہ کے ہاتھوں نواں نکور پھڑک گیا' میں اس کے سامنے کیا چیز ہوں گا۔ حضرت بیوہ شریف میرے نکاح میں نہیں آئیں' منسوب تو ہوئی ہیں۔ یہ ان کی کرامت ہے' کہ میں اب جا رہا ہوں۔ اب مجھے نہیں' تمہیں آنا پڑے گا۔ سعدیہ کی سسکیاں نکل گئیں۔ وہ آف لائین ہو چکا تھا اب سعدیہ اور حضرت بیوہ شریف کو' اس کا آخری دیدار کرنے آنا پڑا۔ لوگ اسے' اس کا کچھ بھی نہیں سمجھ رہے تھے' حالاں کہ وہ کچھ نہیں کی' دیوار پھاند چکی تھی۔ وہ بےچاری ہنسی مذاق میں' ایک بار پھر بیوہ ہو چکی تھی۔ وہ کچھ ناکچھ ہو کر بھی' مرحوم کی پنشن میں سے' کچھ نہیں قرار پا کر' معمولی سے بھی محروم ہو گئی تھی۔
Announcement
Collapse
No announcement yet.
Unconfigured Ad Widget
Collapse
حضرت بیوہ شریف
Collapse