فن تدوین' مباحث اور مسائل ۔۔۔۔۔۔ تعارفی جائزہ
متن کی تدوین یا متن سے متعلق ہر کام' ناصرف باریک بینی کا متقاضی ہے' بلکہ بڑا حساس اور بڑی ذمہ داری کا ہے۔ معمولی سی کوتاہی اور غفلت' درستی کے ضمن میں' سال ہا سال ہٹرپ جاتی ہے۔ غلطی پھر بھی درست نہیں ہو پاتی۔ گویا معاملہ تادیر متنازعہ ہی رہتا ہے۔ متنی غلطی درحقیقت' تفہیمی معاملات میں گڑبڑ کا سبب بنتی ہے۔ ہر کہا ناصرف کہنے والے کے جذبات' نظریات' ترجیحات' حاجت وغیرہ کی عکاسی کرتا ہے' بلکہ وہ اپنے عہد کی' منہ بولتی شہادت بھی ہوتا ہے۔
1799
میں ٹیپو کو شہید کرنے والے کے لیے' میر صاحب نے کتے کا استعارہ استعمال کیا تھا۔ استعمال کی دو صورتیں ملتی ہیں۔
کس کتے نے مارا ہے
کس کتے نے پھاڑا ہے
پہلی صورت میں' یہ محض ایک تاریخی واقعہ ہے' جو ایک حادثے کی یاد تازہ کرتا ہے۔
دوسری صورت میں' بربریت سامنے آتی ہے' جو نفرت اور حقارت کا سبب بنتی ہے۔
میر صاحب اہل زبان کے درجے پر فائز ہیں۔ ان کا محاورہ اور زبان آج بھی سند کے درجے پر فائز ہے۔ کتا مارتا نہیں' پھاڑتا ہے۔ دوسرا شاعری میں' لفظ یا محاورے کا عام سا استعمال' شاعری کو بےلطف اور بےذائقہ بنا دیتا ہے۔ ہر دو صورتوں میں موت ہی واضع ہوتی ہے' لیکن شعری فصاحت ہی متاثر نہیں ہوتی' بلاغت پر بھی حرف آتا ہے۔
کاٹنا بھی عمومی استعمال میں ہے۔ مثلا
کس کتے نے کاٹا ہے
کاٹتے سانپ' بچھو کیڑے وغیرہ ہیں۔ کتا اس نوع کی جنس نہیں ہے۔ دوسرا اس سے موت واضح نہیں ہوتی. ہولناکی بھی سامنے نہیں آتی۔ اس متنی غلطی نے آج بھی لسانی اور تفہیمی ابہام کے دروازے کھول رکھے ہیں۔
کاتب بھی اپنے کمالات دکھاتا آیا ہے۔ مثلا میری کتاب۔۔۔۔اردو میں نئی نظم ۔۔۔۔۔ میں شعری مجموعے۔۔۔۔ کلیوں کے خواب۔۔۔۔۔۔ کا کوئی حوالہ آیا تھا۔ کاتب نے اسے۔۔۔۔ مکھیوں کے خواب ۔۔۔۔۔ بنا دیا۔ وہ اپنی فراست سے ماضی شکیہ بنانے کا طریقہ کو ماسی شکیلہ کے نہانے کا طریقہ بنا سکتا ہے۔
یہ سب عرض کرنے کا مطلب یہ ہے' کہ متنی کام حساس اور ذمہ داری کا کام ہے۔ ڈاکٹر عابدہ بتول' سنجیدہ اور کمٹ منٹ کی تحقیق کار ہیں۔ انہوں نے متنی کام کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے' اس کام سے متعلق تحقیق کار کو ۔۔۔۔فن تدوین' مباحث اور مسائل۔۔۔۔ ایسا لاجواب اور قابل قدر تحفہ عطا کیا ہے۔ اس کے مواد کو دیکھتے ہوئے' اندازہ ہوتا ہے' کہ انہوں نے بڑی محنت اور مشقت اٹھائی ہوگی۔ اس کتاب کا ابتدائیہ ڈاکٹر تبسم کاشمیری نے تحریر کیا ہے' جس سے کتاب کی قدر و قیمت اور اہمیت کا باخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس کاوش کے بارے ڈاکٹر تبسم کاشمیری کا کہنا ہے۔
یہ کام کافی دشوار تھا۔ بکھرے ہوئے مواد کا حصول آسان نہ تھا۔ خاص طور پر ہندوستانی مقالوں کا حصول بہت مشکل تھا۔ عابدہ بتول نے تپتی دوپہروں یخ بستہ دنوں میں لاہور کے کتب خانوں نجی ذخیروں اور علم دوست اصحاب کے گھروں کے چکر کاٹے اور تب کہیں یہ مجموعہ پایہ تکمیل کو پہنچا۔۔۔۔۔۔۔۔ علم دوست حلقوں میں اسے ضرور سراہا جائے گا۔
فن تدوین' مباحث اور مسائل ص 8
اس انمول ادبی تحفے کا دیباچہ پروفیسر شرافت علی نے تحریر کیا ہے۔ کتاب کے بارے ان کا کہنا ہے۔
زیر نظر تصنیف کے بالا استیعاب مطالعے کے بعد یہ کہنا بےجا نہ ہو گا کہ یہ کتاب علمی حلقوں میں پسندیدگی کی نظر سے دیکھی جائے گی۔
فن تدوین' مباحث اور مسائل ص 10
انہوں نے بیسیوں مضامین میں سے' پاک و ہند کے جید اور نامور محقیقین کے' سنتیس انتہائی متتعلق مضامین کا انتخاب کیا ہے۔ انتخاب بڑا ہی مشکل کام ہے۔ ہر مضمون متنی تحقیق کے حوالہ سے' بڑے کام کا ہے۔ متنی تحقیق کار کی آسانی کے لیے' اسے چھے حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔
تحقیق متن چھے مضامین
تصحیح متن سات مضامین
ترتیب متن تین مضامین
مخطووطہ شناسی دو مضامین
عملی تحقیق و تنقید سات مضامین
تدوین کے دیگر مباحث بارہ مضامین
ان میں سے چھے مضمون رشید حسن خاں کے ہیں۔ ہر حصہ میں مضامین کی ترتیب کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ ہاں البتہ عملی تحقیق و تنقید میں:
2' 6'7' 1' 4'5
1'2'3'4'5'6'7
ہو جاتی' تو شاید بہتر رہتا۔متعلقہ مضامین کی دستیابی کی سہولت کے لیے' آخر میں حوالہ جات بھی درج کر دیے گئے ہیں۔
عملی تحقیق و تنقید میں' غالب جو اپنی جدت فکری کے حوالہ سے' وقثوں وقتوں کا شاعر ہے' کے دیوان کے متن کے حوالہ سے تین مضمون شامل کیے گیے ہیں۔
غالب اور نسخہء شیرانی وحید قریشی
دیوان غالب صدی ایڈیشن نسخہ مالک رام رشید حسں خاں
دیوان غالب نسخہءعرشی کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ محمد سعید
ایک مضمون غالب کے خطوط کے متن سے متعلق ہے.
عرشی اور تدوین خطوط غالب ڈاکٹر ظفر احمد صدیقی
اس کتاب میں متنی تحقیق کے حوالہ سے' اچھا خاصا مواد پیش کر دیا گیا ہے۔ متنی محقق کو بڑی حد تک' مزید کی ضروت نہیں پڑتی۔ اس کے باوجود' مزید کی ضرورت کو نظر انداز نہیں کیا گیا۔ کتاب کے آخر میں حوالہ جات کے عنوان سے موجود اور مزید کی بھی نشان دہی کر دی گئی ہے۔
بڑے وثوق اور اعتماد سے کہا جا سکتا ہے' کہ ان کی محنت آج اور آتے وقتوں میں بھی' قدر اور پرتحسین نظروں سے دیکھی جائے گئی۔