میدان رابعہ اور چار انگلیوں کا نشان۔۔
عراق کے شہر بصرہ کے ایک غریب گھرانے میں چوتھے بچے کی ولادت ہوئی۔ بیٹے کی متمنی ماں کو معلوم ہوا کہ بیٹا نہیں بیٹی عطا ہوئی ہے، تو بے اختیار کہا: رابعہ، یعنی چوتھی (بیٹی)؟ پھر والدین نے اتفاق رائے سے نام ہی ’’رابعہ‘‘ رکھ لیا۔ کچھ عرصے بعد والد کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی۔ آپؐ نے فرمایا اداس نہ ہوں، بیٹی بہت جلیل القدر ہوگی۔ چند برس بعد پہلے والد اور پھر والدہ بچیوں کو تنہا چھوڑ کر اللہ کو پیارے ہوگئے۔ والد ملاح تھے، وفات کے بعد چھوٹی بچی رابعہ نے گزر اوقات کے لیے والد کی کشتی چلانا شروع کردی۔ بچپن ہی سے دل میں خوفِ آخرت راسخ تھا۔ وفات سے قبل ایک روز والد نے بیٹی سے پوچھا:
رابعہ! اگر کبھی حرام کے سوا کچھ بھی میسّر نہ ہوا، تو کیا کریں گے؟ ابو بھوک تو برداشت کی جاسکتی ہے، جہنم کی آگ بھلا کون برداشت کرسکتا ہے، بیٹی نے جواب دیا۔
ایک رات رابعہ نے دیکھا کہ ہر طرف نور ہی نور ہے اور وہ اس میں تیر رہی ہیں۔ اسی دوران پکارنے والے نے قرآن سے ناطہ جوڑنے کی صدا دی۔ بس اس کے بعد رابعہ کی زندگی یکسر تبدیل ہوگئی، دن رات اللہ سے مناجات اور قرآن سے ملاقات میں گزرنے لگے۔
کبھی حادثات کا شکار ہو کر اور کبھی تعلیم و عبادت کے لیے مختلف علاقوں میں قیام کیا اور بالآخر ۸۴ سال کی عمر میں سرزمینِ فلسطین پر اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ کوہِ طور پر قبر نصیب ہوئی۔ بنی عَدوَہ قبیلے سے تعلق رکھنے والی رابعہ کو عالم عرب ’’رابعہ العَدوِیہ‘‘ کے نام سے جانتا ہے اور ہم رابعہ بصری کے نام سے۔ آج بھی دنیا کے مختلف خطوں میں حضرت رابعہ بصری سے اظہارِ عقیدت اور ذکرِ خیر ہوتا ہے۔ لاکھوں مسلمان بچیوں کا نام انہی کی نسبت سے رکھا جاتا ہے، وگرنہ لفظی مطلب تو ’’چوتھی‘‘ ہی ہے۔
قاہرہ کے قلب میں ایک بڑی جامع مسجد انہی سے منسوب ہے۔ مسجدِ رابعہ العَدوِیہ سے ملحق ایک بہت وسیع و عریض چوک ہے، جس کے چاروں طرف چوڑی چوڑی سڑکوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ۲ سال قبل حسنی مبارک کے ۳۰ سالہ اور مجموعی طور پر ۶۴ سالہ فوجی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف عوامی تحریک کا مرکز تحریر چوک بنا تھا۔ تقریباً دو ماہ قبل صدر محمد مرسی کی حکومت ختم کرنے کے لیے ۳۰ جون ۲۰۱۳ء کو جو مظاہرے خود وزارت داخلہ اور وزارت دفاع کی سرپرستی میں ہوئے، وہ بھی تحریر چوک ہی میں کروائے گئے۔ صدر محمد مرسی کے حامیوں نے بھی جواباً بڑے مظاہرے ترتیب دیے اور تصادم سے بچتے ہوئے رابعہ میدان کا انتخاب کیا۔ اس وقت کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ مظاہرے نہ صرف انتہائی تاریخی ہوں گے، بلکہ خود رابعہ میدان بھی تاریخِ عالم کا ایک اہم باب بن جائے گا۔ جنرل سیسی نے مصر کی پہلی نمائندہ حکومت کو ایک ہی سال بعد چلتا کیا تو حکومت کے حامیوں نے نہ صرف میدانِ رابعہ میں، بلکہ ملک کے طول و عرض میں اپنے مظاہروں کو منتخب حکومت اور دستور کی بحالی تک جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ ملک کے ہر کوچہ و بازار میں فوجی انقلاب کے خلاف مظاہرے
عروج پر رہے، لیکن رابعہ میدان کے رنگ ہی نرالے تھے۔
بِلامبالغہ لاکھوں مرد و زن، بچے اور بوڑھے ۲۴ جون تا ۱۴؍اگست ۲۰۱۳ء مسلسل ۴۸ روز تک صبح و شام یہیں بیٹھے رہے۔ رمضان المبارک آیا، پھر عیدالفطر آئی، یہ لوگ یہیں رہے۔ اسی دوران جنرل سیسی کے حکم پر دوبارہ عین نمازِ فجر کے دوران براہ راست فائرنگ کی گئی۔ ۴۰۰ سے زائد نمازی شہید ہوئے، جن میں ۷ خواتین بھی تھیں۔ ہزاروں افراد کارتوس اور گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے، لیکن کوئی بھی میدانِ رابعہ چھوڑ کر جانے پر تیار نہیں ہوا۔ اس دوران عالمی مذاکرات کار آئے۔ امریکا، یورپی یونین اور بعض خلیجی ریاستوں کے وزرائے خارجہ قاہرہ پہنچے۔ لیکن بدقسمتی سے سب کا یک نکاتی مطالبہ صرف یہ تھا کہ مظاہرے ختم کر دیے جائیں۔ رہے دستور کی بحالی، منتخب پارلیمنٹ اور منتخب صدر کی بحالی کے عوامی مطالبات، تو یہ امریکا یا ’’مہذب‘‘ دنیا کا مسئلہ نہیں تھا۔ مصری عوام حسنی مبارک سے گلوخلاصی کے لیے لگ بھگ ایک ہزار اور جنرل سیسی کے فوجی قبضے سے نجات کے لیے اوائلِ ایام ہی میں چار سو شہدا کا نذرانہ پیش کر چکے تھے۔ وہ ان نام نہاد مذاکرات کے دھوکے میں نہیں آئے۔ میدانِ رابعہ کی سرگرمیاں اسی شان سے جاری رہیں۔ بِلامبالغہ لاکھوں قرآن پڑھے گئے، تراویح، تہجد، دورہ ہائے تفسیر، اجتماعی افطار، اجتماعی سحریاں، بچوں کے لیے تعلیمی کلاسیں، نہ جانے کیا کیا بابرکت سرگرمیاں جاری رہیں۔ یہ تمام سرگرمیاں انتہائی پُرامن اور معروف جمہوری انداز میں ہوتی رہیں۔ یہاں تک کہ عیدالفطر آگئی تو مصری تاریخ کا سب سے بڑا اجتماعِ عید بھی میدانِ رابعہ کے نصیب میں آیا۔ خواتین نے عید کے خصوصی پکوانوں کا انتظام کیا، بچوں کے لیے جھولے لگے، فٹ بال کے مقابلے ہوئے۔
عین اسی دوران حکومتی ذرائع ابلاغ نے فضا بنانا شروع کردی کہ یہ اجتماع ختم کروانے کے لیے ہر طرح کی قوت استعمال کی جائے گی۔ ۴۸ روز سے بچوں بوڑھوں اور خواتین سمیت بیٹھے پرامن مظاہرین پر الزام لگایا گیا کہ یہ دہشت گرد ہیں۔ ان کے پاس ’’بھاری اسلحہ‘‘ ہے۔ بلکہ یہ مضحکہ خیز الزام لگایا گیا کہ مظاہرین یورینیم افزودہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ کہ اخوان اپنا اقتدار چھن جانے پر پورا ملک تباہ کرنے پر آمادہ ہے۔ فوجی بیرکوں اور پولیس کے کیمپوں میں حکومتی علما کو لے جاکر ان کے ذریعے بھی برین واشنگ کی گئی۔ مسموم پراپیگنڈے کی آڑ میں پُرامن مظاہرین کو گردن زنی قرار دیا گیا۔
اور پھر ۱۴؍اگست کو بعد نماز فجر، ان لاکھوں پرامن مظاہرین پر ٹینکوں، بلڈوزروں، گن شپ ہیلی کاپٹروں اور چاروں طرف کی بلند و بالا عمارتوں پر اسنائپر گنوں کے ذریعے آپریشن کلین اَپ، یعنی لاکھوں افراد پر موت مسلط کرنے کا عمل شروع ہو گیا۔ خواتین کے کیمپ کو آگ لگا دی گئی۔ اخوان کے رہنما محمد البلتاجی کی ۱۷؍ سالہ اکلوتی بیٹی اسماء بلتاجی سمیت سیکڑوں مظاہرین کے سروں اور سینوں پر تاک تاک کر گولیاں چلائی گئیں اور مصری تاریخ کا بدترین خونی باب رقم کیا گیا۔ قتلِ عام دن بھر جاری رہا، ہزاروں افراد زخمی اور ہزاروں ہی گرفتار ہوئے۔ یہ بدھ کا دن تھا، مصری عوام اس سارے قتل عام پر خوف زدہ ہو کر گھروں میں جابیٹھنے کے بجائے، اگلے روز پھر سڑکوں پر تھے۔ سیسی حکومت نے دوبارہ فائرنگ کی، درجنوں مزید شہید ہوگئے۔ جمعہ کے روز ’’یوم الغضب‘‘ کے نام سے پھر مظاہرے ہوئے۔ فوجی حکومت نے پھر فائرنگ کی۔ سیکڑوں شہید، زخمی اور گرفتار ہوئے۔ اس روز تو قاہرہ میں سب سے بلند مینار والی ’’مسجدِ فتح‘‘ کو بھی گولیوں اور آتش زنی کا نشانہ بنایا گیا۔
وہ دن ہے اور آج کا دن، پورے ملک میں احتجاج اور قتل و غارت گری کا یہی سلسلہ جاری ہے۔ اخوان کے ریکارڈ اور بیان کے مطابق ۵ ہزار ۳۰سے زائد بے گناہ شہری شہید ہوچکے ہیں۔ جنرل سیسی اور ہم نوا سمجھتے ہیں کہ انہوں نے منتخب حکومت اور اس کی بحالی کا مطالبہ کرنے والوں کو تہ تیغ کر دیا ہے اور عوام کی تحریک کچل دی ہے۔ مگر عوام کو یقین ہے کہ فرعونی حکومت کے مقابلے میں بالآخر وہی کامیاب ہوں گے۔ مصری اور عالمی ذرائع ابلاغ اخوان کے مظاہروں کو تقریباً نظرانداز کر رہے ہیں۔ لیکن مسلسل قربانیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ جنرل سیسی کی تمام تر فرعونیت کے باوجود ایک بھی دن ناغہ کیے بغیر، ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ ان تمام مظاہروں میں سے بالخصوص جمعۃ المبارک ؍اگست ۲۰۱۳ء کے مظاہرے قابل ذکر ہیں۔ اُس روز ملک کے تقریباً ہر حصے میں لاکھوں کی تعداد میں مظاہرین سڑکوں پر آئے۔ فوج نے دھمکیاں دیں، فائرنگ کی، مزید بے گناہ شہید کیے، لیکن مظاہرے جاری رہے۔ ان مظاہروں کو منظم کرنے والے ’’مصری قومی اتحاد‘‘ نے اب مظاہروں کے ساتھ ہی ساتھ مرحلہ وار سول نافرمانی کا اعلان بھی کر دیا ہے۔
ان مظاہروں کے سب سے مقبول نعرے دو ہیں: یَسْقُطْ یَسْقُطْ۔حُک� �مُ الْعَسکَر (ختم ہو، ختم ہو۔ فوجی حکومت ختم ہو) اِرحَل یاسیسی۔ مُرسی رَئیسی (سیسی دفع ہوجائو۔ میرا صدر مرسی ہے) جب کہ ’’سیسی انقلاب‘‘ مخالف اس تحریک کی سب سے مقبول علامت چار انگلیوں کا نشان ہے۔ اکثر قارئین جانتے ہیں کہ عربی میں چار کو اربع کہتے ہیں۔ اسی سے رابعہ یعنی چوتھی ماخوذ ہے۔ حضرت رابعہ بصری کی وجہ تسمیہ آپ آغاز میں پڑھ چکے ہیں۔ اب چار انگلیوں کا نشان بلند کرکے میدانِ رابعہ بصری کے ۴۸ روزہ تاریخی دھرنے اور مظاہریں پر ٹوٹنے والی قیامت کی یاد دلائی جاتی۔ ساتھ ہی یہ عبارت لکھ کر کہ کُلُّنا رابعہ (ہم سب میدانِ رابعہ ہیں) اس عزم کا اظہار کیا جاتا ہے کہ ہم سب اسی قافلے کا حصہ ہیں، ہمارے دل اس جدوجہد کے ساتھ ہیں، یہ سفر جاری رہے گا اور رابعہ میدان کی قربانیوں کو رائیگاں نہ جانے دیں گے۔ اس لیے اس نشان کو عَلامَۃُ الصُمود، یعنی ڈٹ جانے کی علامت بھی کہا جاتا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ نشان اب عالمی شہرت پاچکا ہے۔ ترکی سے موصولہ اطلاع کے مطابق، وہاں کئی نئے پارکوں، سڑکوں اور میدانوں کا نام ’’رابعہ‘‘ سے منسوب کر دیا گیا ہے۔ صرف گزشتہ دو ماہ میں پیدا ہونے والی کم ازکم ۲۴۳ ترک بچیوں کے والدین نے اپنی بیٹیوں کا نام رابعہ پسند کیا ہے۔ جمعہ ۳۰ اگست کی رات استنبول کے سمندر میں کھڑے جہازوں سے ساحل پر واقع مصری قونصل خانے کی عمارت پر لیزر لائٹس کے ذریعے رابعہ کا نشان بنا دیا گیا۔ چار انگلیوں والے نشان لگے لباس نوجوانوں میں مقبول ہو رہے ہیں۔ مارکیٹ کا رجحان دیکھ کر چینی کمپنیوں نے موبائل فون کے کور، پرس، بیگ اور روزمرہ کی دیگر ضروریات پر رابعہ کا نشان چھاپنا شروع کر دیا ہے۔ جنرل سیسی کی خونی حکومت ایک میدانِ رابعہ سے جان چھڑانا چاہتی تھی۔ اب اس کے خلاف پوری مصری قوم اور دنیا کے تمام انصاف پسند انسان، میدانِ رابعہ بنتے جارہے ہیں۔
رابعہ! اگر کبھی حرام کے سوا کچھ بھی میسّر نہ ہوا، تو کیا کریں گے؟ ابو بھوک تو برداشت کی جاسکتی ہے، جہنم کی آگ بھلا کون برداشت کرسکتا ہے، بیٹی نے جواب دیا۔
ایک رات رابعہ نے دیکھا کہ ہر طرف نور ہی نور ہے اور وہ اس میں تیر رہی ہیں۔ اسی دوران پکارنے والے نے قرآن سے ناطہ جوڑنے کی صدا دی۔ بس اس کے بعد رابعہ کی زندگی یکسر تبدیل ہوگئی، دن رات اللہ سے مناجات اور قرآن سے ملاقات میں گزرنے لگے۔
کبھی حادثات کا شکار ہو کر اور کبھی تعلیم و عبادت کے لیے مختلف علاقوں میں قیام کیا اور بالآخر ۸۴ سال کی عمر میں سرزمینِ فلسطین پر اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ کوہِ طور پر قبر نصیب ہوئی۔ بنی عَدوَہ قبیلے سے تعلق رکھنے والی رابعہ کو عالم عرب ’’رابعہ العَدوِیہ‘‘ کے نام سے جانتا ہے اور ہم رابعہ بصری کے نام سے۔ آج بھی دنیا کے مختلف خطوں میں حضرت رابعہ بصری سے اظہارِ عقیدت اور ذکرِ خیر ہوتا ہے۔ لاکھوں مسلمان بچیوں کا نام انہی کی نسبت سے رکھا جاتا ہے، وگرنہ لفظی مطلب تو ’’چوتھی‘‘ ہی ہے۔
قاہرہ کے قلب میں ایک بڑی جامع مسجد انہی سے منسوب ہے۔ مسجدِ رابعہ العَدوِیہ سے ملحق ایک بہت وسیع و عریض چوک ہے، جس کے چاروں طرف چوڑی چوڑی سڑکوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ۲ سال قبل حسنی مبارک کے ۳۰ سالہ اور مجموعی طور پر ۶۴ سالہ فوجی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف عوامی تحریک کا مرکز تحریر چوک بنا تھا۔ تقریباً دو ماہ قبل صدر محمد مرسی کی حکومت ختم کرنے کے لیے ۳۰ جون ۲۰۱۳ء کو جو مظاہرے خود وزارت داخلہ اور وزارت دفاع کی سرپرستی میں ہوئے، وہ بھی تحریر چوک ہی میں کروائے گئے۔ صدر محمد مرسی کے حامیوں نے بھی جواباً بڑے مظاہرے ترتیب دیے اور تصادم سے بچتے ہوئے رابعہ میدان کا انتخاب کیا۔ اس وقت کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ مظاہرے نہ صرف انتہائی تاریخی ہوں گے، بلکہ خود رابعہ میدان بھی تاریخِ عالم کا ایک اہم باب بن جائے گا۔ جنرل سیسی نے مصر کی پہلی نمائندہ حکومت کو ایک ہی سال بعد چلتا کیا تو حکومت کے حامیوں نے نہ صرف میدانِ رابعہ میں، بلکہ ملک کے طول و عرض میں اپنے مظاہروں کو منتخب حکومت اور دستور کی بحالی تک جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ ملک کے ہر کوچہ و بازار میں فوجی انقلاب کے خلاف مظاہرے
عروج پر رہے، لیکن رابعہ میدان کے رنگ ہی نرالے تھے۔
بِلامبالغہ لاکھوں مرد و زن، بچے اور بوڑھے ۲۴ جون تا ۱۴؍اگست ۲۰۱۳ء مسلسل ۴۸ روز تک صبح و شام یہیں بیٹھے رہے۔ رمضان المبارک آیا، پھر عیدالفطر آئی، یہ لوگ یہیں رہے۔ اسی دوران جنرل سیسی کے حکم پر دوبارہ عین نمازِ فجر کے دوران براہ راست فائرنگ کی گئی۔ ۴۰۰ سے زائد نمازی شہید ہوئے، جن میں ۷ خواتین بھی تھیں۔ ہزاروں افراد کارتوس اور گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے، لیکن کوئی بھی میدانِ رابعہ چھوڑ کر جانے پر تیار نہیں ہوا۔ اس دوران عالمی مذاکرات کار آئے۔ امریکا، یورپی یونین اور بعض خلیجی ریاستوں کے وزرائے خارجہ قاہرہ پہنچے۔ لیکن بدقسمتی سے سب کا یک نکاتی مطالبہ صرف یہ تھا کہ مظاہرے ختم کر دیے جائیں۔ رہے دستور کی بحالی، منتخب پارلیمنٹ اور منتخب صدر کی بحالی کے عوامی مطالبات، تو یہ امریکا یا ’’مہذب‘‘ دنیا کا مسئلہ نہیں تھا۔ مصری عوام حسنی مبارک سے گلوخلاصی کے لیے لگ بھگ ایک ہزار اور جنرل سیسی کے فوجی قبضے سے نجات کے لیے اوائلِ ایام ہی میں چار سو شہدا کا نذرانہ پیش کر چکے تھے۔ وہ ان نام نہاد مذاکرات کے دھوکے میں نہیں آئے۔ میدانِ رابعہ کی سرگرمیاں اسی شان سے جاری رہیں۔ بِلامبالغہ لاکھوں قرآن پڑھے گئے، تراویح، تہجد، دورہ ہائے تفسیر، اجتماعی افطار، اجتماعی سحریاں، بچوں کے لیے تعلیمی کلاسیں، نہ جانے کیا کیا بابرکت سرگرمیاں جاری رہیں۔ یہ تمام سرگرمیاں انتہائی پُرامن اور معروف جمہوری انداز میں ہوتی رہیں۔ یہاں تک کہ عیدالفطر آگئی تو مصری تاریخ کا سب سے بڑا اجتماعِ عید بھی میدانِ رابعہ کے نصیب میں آیا۔ خواتین نے عید کے خصوصی پکوانوں کا انتظام کیا، بچوں کے لیے جھولے لگے، فٹ بال کے مقابلے ہوئے۔
عین اسی دوران حکومتی ذرائع ابلاغ نے فضا بنانا شروع کردی کہ یہ اجتماع ختم کروانے کے لیے ہر طرح کی قوت استعمال کی جائے گی۔ ۴۸ روز سے بچوں بوڑھوں اور خواتین سمیت بیٹھے پرامن مظاہرین پر الزام لگایا گیا کہ یہ دہشت گرد ہیں۔ ان کے پاس ’’بھاری اسلحہ‘‘ ہے۔ بلکہ یہ مضحکہ خیز الزام لگایا گیا کہ مظاہرین یورینیم افزودہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ کہ اخوان اپنا اقتدار چھن جانے پر پورا ملک تباہ کرنے پر آمادہ ہے۔ فوجی بیرکوں اور پولیس کے کیمپوں میں حکومتی علما کو لے جاکر ان کے ذریعے بھی برین واشنگ کی گئی۔ مسموم پراپیگنڈے کی آڑ میں پُرامن مظاہرین کو گردن زنی قرار دیا گیا۔
اور پھر ۱۴؍اگست کو بعد نماز فجر، ان لاکھوں پرامن مظاہرین پر ٹینکوں، بلڈوزروں، گن شپ ہیلی کاپٹروں اور چاروں طرف کی بلند و بالا عمارتوں پر اسنائپر گنوں کے ذریعے آپریشن کلین اَپ، یعنی لاکھوں افراد پر موت مسلط کرنے کا عمل شروع ہو گیا۔ خواتین کے کیمپ کو آگ لگا دی گئی۔ اخوان کے رہنما محمد البلتاجی کی ۱۷؍ سالہ اکلوتی بیٹی اسماء بلتاجی سمیت سیکڑوں مظاہرین کے سروں اور سینوں پر تاک تاک کر گولیاں چلائی گئیں اور مصری تاریخ کا بدترین خونی باب رقم کیا گیا۔ قتلِ عام دن بھر جاری رہا، ہزاروں افراد زخمی اور ہزاروں ہی گرفتار ہوئے۔ یہ بدھ کا دن تھا، مصری عوام اس سارے قتل عام پر خوف زدہ ہو کر گھروں میں جابیٹھنے کے بجائے، اگلے روز پھر سڑکوں پر تھے۔ سیسی حکومت نے دوبارہ فائرنگ کی، درجنوں مزید شہید ہوگئے۔ جمعہ کے روز ’’یوم الغضب‘‘ کے نام سے پھر مظاہرے ہوئے۔ فوجی حکومت نے پھر فائرنگ کی۔ سیکڑوں شہید، زخمی اور گرفتار ہوئے۔ اس روز تو قاہرہ میں سب سے بلند مینار والی ’’مسجدِ فتح‘‘ کو بھی گولیوں اور آتش زنی کا نشانہ بنایا گیا۔
وہ دن ہے اور آج کا دن، پورے ملک میں احتجاج اور قتل و غارت گری کا یہی سلسلہ جاری ہے۔ اخوان کے ریکارڈ اور بیان کے مطابق ۵ ہزار ۳۰سے زائد بے گناہ شہری شہید ہوچکے ہیں۔ جنرل سیسی اور ہم نوا سمجھتے ہیں کہ انہوں نے منتخب حکومت اور اس کی بحالی کا مطالبہ کرنے والوں کو تہ تیغ کر دیا ہے اور عوام کی تحریک کچل دی ہے۔ مگر عوام کو یقین ہے کہ فرعونی حکومت کے مقابلے میں بالآخر وہی کامیاب ہوں گے۔ مصری اور عالمی ذرائع ابلاغ اخوان کے مظاہروں کو تقریباً نظرانداز کر رہے ہیں۔ لیکن مسلسل قربانیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ جنرل سیسی کی تمام تر فرعونیت کے باوجود ایک بھی دن ناغہ کیے بغیر، ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ ان تمام مظاہروں میں سے بالخصوص جمعۃ المبارک ؍اگست ۲۰۱۳ء کے مظاہرے قابل ذکر ہیں۔ اُس روز ملک کے تقریباً ہر حصے میں لاکھوں کی تعداد میں مظاہرین سڑکوں پر آئے۔ فوج نے دھمکیاں دیں، فائرنگ کی، مزید بے گناہ شہید کیے، لیکن مظاہرے جاری رہے۔ ان مظاہروں کو منظم کرنے والے ’’مصری قومی اتحاد‘‘ نے اب مظاہروں کے ساتھ ہی ساتھ مرحلہ وار سول نافرمانی کا اعلان بھی کر دیا ہے۔
ان مظاہروں کے سب سے مقبول نعرے دو ہیں: یَسْقُطْ یَسْقُطْ۔حُک� �مُ الْعَسکَر (ختم ہو، ختم ہو۔ فوجی حکومت ختم ہو) اِرحَل یاسیسی۔ مُرسی رَئیسی (سیسی دفع ہوجائو۔ میرا صدر مرسی ہے) جب کہ ’’سیسی انقلاب‘‘ مخالف اس تحریک کی سب سے مقبول علامت چار انگلیوں کا نشان ہے۔ اکثر قارئین جانتے ہیں کہ عربی میں چار کو اربع کہتے ہیں۔ اسی سے رابعہ یعنی چوتھی ماخوذ ہے۔ حضرت رابعہ بصری کی وجہ تسمیہ آپ آغاز میں پڑھ چکے ہیں۔ اب چار انگلیوں کا نشان بلند کرکے میدانِ رابعہ بصری کے ۴۸ روزہ تاریخی دھرنے اور مظاہریں پر ٹوٹنے والی قیامت کی یاد دلائی جاتی۔ ساتھ ہی یہ عبارت لکھ کر کہ کُلُّنا رابعہ (ہم سب میدانِ رابعہ ہیں) اس عزم کا اظہار کیا جاتا ہے کہ ہم سب اسی قافلے کا حصہ ہیں، ہمارے دل اس جدوجہد کے ساتھ ہیں، یہ سفر جاری رہے گا اور رابعہ میدان کی قربانیوں کو رائیگاں نہ جانے دیں گے۔ اس لیے اس نشان کو عَلامَۃُ الصُمود، یعنی ڈٹ جانے کی علامت بھی کہا جاتا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ نشان اب عالمی شہرت پاچکا ہے۔ ترکی سے موصولہ اطلاع کے مطابق، وہاں کئی نئے پارکوں، سڑکوں اور میدانوں کا نام ’’رابعہ‘‘ سے منسوب کر دیا گیا ہے۔ صرف گزشتہ دو ماہ میں پیدا ہونے والی کم ازکم ۲۴۳ ترک بچیوں کے والدین نے اپنی بیٹیوں کا نام رابعہ پسند کیا ہے۔ جمعہ ۳۰ اگست کی رات استنبول کے سمندر میں کھڑے جہازوں سے ساحل پر واقع مصری قونصل خانے کی عمارت پر لیزر لائٹس کے ذریعے رابعہ کا نشان بنا دیا گیا۔ چار انگلیوں والے نشان لگے لباس نوجوانوں میں مقبول ہو رہے ہیں۔ مارکیٹ کا رجحان دیکھ کر چینی کمپنیوں نے موبائل فون کے کور، پرس، بیگ اور روزمرہ کی دیگر ضروریات پر رابعہ کا نشان چھاپنا شروع کر دیا ہے۔ جنرل سیسی کی خونی حکومت ایک میدانِ رابعہ سے جان چھڑانا چاہتی تھی۔ اب اس کے خلاف پوری مصری قوم اور دنیا کے تمام انصاف پسند انسان، میدانِ رابعہ بنتے جارہے ہیں۔
(عبدالغفار عزیز)
Comment