Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

بھٹكے ہوئے ستارے

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • بھٹكے ہوئے ستارے

    بھٹكے ہوئے ستارے

    اُسے تاروں سے بے پناہ لگاؤ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گرمی كی راتوں میں جب وہ اور اس كے ماں باپ گھر كے صحن میں چارپائیاں ڈال كر سوتے تھے تھے تب وہ رات دیر تك آسمان میں چمكتے اور ٹمٹماتے تاروں كو دیكھتا تھا۔ ۔۔۔ستاروں كو دیكھنا اور ان كے متعلق اپنی ماں سے سوالات كرنا گویا اس كا محبوب مشغلہ تھا۔ وہ آسمان كو غور سے دیكھتا كسی ماہر فلكیات كی طرح اپنی نظریں تاروں پر مركوز ركھتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اكثر ماں سے ان كے بارے میں پوچھتا۔
    "امی یہ تارے كہاں سے آئے ہیں؟؟؟كس نے بنائے ہیں؟
    "بیٹا یہ اللہ تعالی كے پیدا كردہ ہیں۔۔۔۔۔۔۔اس كائنات كی ہر شے اللہ تعالی نے بنائی ہے"
    وہ دوسرا سوال كرتا
    "امی یہ كس لئے بنائے ہیں اللہ میاں نے؟"
    "بیٹا یہ لوگوں كو راستہ دكھانے كے لئے بنائے گئے ہیں"۔
    "راستہ دكھاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔كیسے؟" وہ پوچھتا
    "ہاں بیٹا! ستاروں كا كام رہنمائی كرنا ہے۔۔راہیں سیدھی كرنی ہیں۔۔۔ اندھیروں كو مٹانا ہے۔ اسی لئے تو یہ ساری رات اندھیرے میں كسی چراغ كی طرح چمكتے ہیں اور روشنی دیتے ہیں۔"
    "امی یہ كس چیز سے بنائے گئے ہیں؟"
    "یہ دنیا كے تمام تر قیمتی پتھروں اور ہیروں سے بنائے گئے ہیں" اُس كی ماں جواب دیتی۔۔۔۔۔
    یہ بات اُس كی سمجھ میں نہیں آتی تھی اور وہ چپ ہوجاتا۔۔۔۔۔اور ساری رات ان ستاروں كو دیكھتا رہتا۔۔۔۔۔جیسے ہی شام كا تارا آسمان پر چمكنے لگتا وہ اسے دیكھنے لگتا۔۔۔۔۔۔۔
    "لو ایك اور ستارہ چمكا"۔۔۔۔۔۔یہ تیسرا۔۔۔۔۔۔۔۔اور جیسے جیسے اندھیرا ہوتا جاتا پُورا آسمان تاروں سے بھر جاتا۔۔۔۔۔وہ اُس وقت تك ان كو دیكھا كرتا جب تك نیند اُسے اپنے آغوش میں نہ لے لیتی۔ وہ ماں باپ كا اكلوتا تھا ۔ بہن بھائی نہ ہونے كی وجہ سے وہ اكثر خیالوں میں تاروں سے كھیلتا۔۔۔۔۔۔۔
    " یہ شام كا تارا ہے٬ یہ سات بہنیں ہیں٬ وہ رہا گیدڑ اور یہ كنواں ۔۔۔۔۔۔۔اُس كی ماں نے اُسے تاروں كی جھرمٹوں كے جتنے نام بتائے تھے سب اُسے یاد تھے۔۔۔۔۔۔۔رات كو جب وہ كوئی ٹوٹا تارا دیكھتا تو ماں سے پوچھنے لگتا:
    "امی تاروں كی دم كیوں نكل آتی ہے اورپھر جل كركیوں گرنے لگتے ہیں؟"
    "یہ اللہ میاں كا قہر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔جب كوئی ستارہ اپنی روش چھوڑ دیتا ہے اُس كی دم نكل آتی ہے۔۔۔۔وہ جل جاتا ہے او نیچے آ گرتا ہے۔" اُس كی ماں جواب دیتی۔
    وہ ماں كے گلے میں ہاتھ ڈال كر پھر حیرانی كے عالم میں پوچھتا:
    "ماں یہ ستارے كیوں اپنی روش چھوڑ كر بھٹك جاتے ہیں"؟
    "كیونكہ ان میں غرور آجاتا ہے۔۔۔۔۔۔اور غرور كا سر ہمیشہ نیچا ہوتا ہے۔۔۔۔یہ اپنے آپ كو بینا اور دوسروں كو اندھے سمجھنے لگتے ہیں۔۔۔۔۔تكبر اور بڑائی سے كام لینے لگتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔لیكن بیٹا یہ باتیں تیری سمجھ میں نہیں آئیں گی ۔۔۔۔۔۔۔رات بہت ہوچكی ہے اب تو سوجا۔۔۔۔۔۔شاباش میرے لال۔۔۔۔۔۔۔"
    واقعی یہ باتیں اس كی سمجھ میں نہیں آتی تھی لیكن پھر بھی وہ اپنے دونوں ننھے ہاتھ پھیلا كر دعا مانگتا:
    "اے میرے اللہ! میرے ستاروں كو بھٹكنے اور راستہ كھونے سے بچا۔۔۔۔۔۔۔اگر یہ بڑے بڑے ستارے جو سارے جہاں كو روشنی دیتے ہیں جو میرے دیس كو روشنی دیتے ہیں اگر یہ بھٹك كر راستہ كھو بیٹھے تو پھر تو یہ ختم ہو جائیں گے اور گھپ اندھیرا ہوجائے گا اور اندھیرے سے مجھے ڈر لگتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
    اُس كی دعا سُن كر ماں اُسے اپنے سینے سے لگا لیتی اور اُس كا منہ چومنے لگتی:
    "اللہ تُو اسے نظر بد سے بچا ۔۔۔۔۔۔۔"

    ایك دن سویرے اس كی آنكھ كھلی۔۔۔۔۔اور اُس كی نظر صبح كے چمكتے ہوئے تارے پر پڑی جو چاند كی مانند روشنی دے رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔وہ خوشی سے چیخ اٹھا۔۔۔۔۔۔۔۔
    "امی ! امی! اُٹھ ۔۔۔۔۔۔دیكھ كتنا بڑا تارا ہے ۔۔۔۔۔۔۔"
    اُس كی ماں جو تاحال سو رہی تھی ہڑ بڑا كر اٹھ بیٹھی ۔۔۔۔۔۔وہ سمجھی شاید بچہ ڈر گیا ہے ۔۔۔۔۔
    "كیوں بیٹا كیا ہوا؟"
    "اس ستارے كو دیكھ"۔۔۔۔۔ اُس نے صبح كے تارے كی طرف شہادت كی انگلی سے اشارہ كیا۔۔۔۔۔۔۔۔
    اُس كی ماں كو غصہ آگیا۔۔۔۔۔۔۔"سوجا بدمعاش! تُو نے تو مجھے ڈرا ہی دیا۔۔۔۔۔۔۔یہ تو صبح كا تارا ہے۔"
    دن گزرتے گئے ۔۔۔۔۔۔۔ننھے گل خان كی ستاروں سے محبت كم نہیں ہوئی۔۔۔۔۔لیكن اب اُسكے پُرامن گاؤں كو كسی كی نظر لگ گئی تھی سوات كی حسین وادی كو نفرتوں كے كالے دیوتا نے اپنی شكنجے میں لے ركھا تھا۔۔۔۔۔امن كی دیوی گویا یہاں كے لوگوں سے ناراض ہوگئی تھی۔
    اُس كے ماں باپ اور شاید گاؤں كے سارے لوگ اب رات كو كھلی فضا میں سونے سے پرہیز كرنے لگے تھے۔۔۔۔۔وہ جب اپنے ماں باپ كے چہروں كو دیكھتا تو اُسے حیرت ہوتی ماں كا مسكراتا چہرا اب بالكل زرد پڑگیا تھا اُس كا باپ ہر وقت سوچوں میں گم رہتا۔۔۔۔۔۔۔اُس كا دل بہت كرتا تھا كہ ان ستاروں سے خیالوں میں كھیلے لیكن اب شام ہوتے ہی اُس كے ماں باپ اُسے باہر جانے نہیں دیتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔وہ تینوں اپنے كمرے میں گھس جاتے۔۔۔۔۔۔۔اور جب وہ باہر جانے كی كوشش كرتا تو اُس كے ماں باپ اُسے سختی سے منع كر دیتے۔۔۔۔۔۔اُس كے ماں باپ ساری رات جاگتے رہتے۔۔۔۔۔۔۔كیونكہ ساری رات فائرنگ كی آوازیں آتی تھی اور آسمان پر شور بلند ہوتا۔۔۔۔۔۔۔یہ شور سن كر وہ ماں كے سینے سے لگ جاتا ۔۔۔۔یوں وہ اپنے آپ كو دنیا كے ہر آفت و مصیبت سے محفوظ سمجھتا لیكن ماں كے سینے میں زور سے دھڑكتے ہوئے دل كو محسوس كركے وہ بھی ڈرنے لگتا۔۔۔۔۔۔
    ایك رات وہ چپكے سے اپنے بستر سے اٹھا اور كمرے سے باہر آیا۔۔۔۔۔آسمان پر چمكتے دمكتے تاروں كو دیكھ كر اُس كا دل باغ باغ ہوگیا۔۔۔۔۔ٹمٹماتے ہوئے تارے اُسے یوں لگ رہے تھے گویا اُس سے پوچھ رہے ہوں كہ اتنے دن تم كہاں تھے؟ ہم تمہارے بنا بہت اداس تھے"۔۔۔۔۔وہ انہی خیالوں میں گم تھا كہ یكایك آسمان پھر شور سے گونج اٹھا۔۔۔۔اُس نے چند ستارے دیكھے جو جلتے ہوئے زمیں كی جانب آرہے تھے۔ اُن كے گرتے ہی زمیں كسی جھولے كی مانند جھومنے لگی اور ایك ایسا شور بلند ہوا جس سے كان پھٹے جا رہے تھے۔۔۔۔۔۔وہ ڈر كے مارے زور سے رونے لگا اور امی امی پكارنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اُس كے ماں باپ بھی شور سے جاگ اٹھے تھے اور اُس كی خوفزدہ چیخیں سُن كر اُس كی جانب دوڑے۔۔۔۔۔۔۔۔ماں نے باپ سے پہلے اُسے اپنی گود میں لے لیا۔۔۔۔۔۔
    "میرا بیٹا كتنا ڈر گیا ہے!!!!!!۔۔۔۔۔۔۔بس چپ ہوجا بیٹے۔۔۔۔۔۔
    وہ كسی خزان رسیدہ پتے كی طرح كانپ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔اُس كی ماں دعائیں مانگ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔وہ ماں سے لپٹا ہوا تھا اور بری طرح ڈر گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔وہ تینوں كمرے میں خوفزدہ حالت میں بیٹھے ہوئے تھے كچھ دیر بعد آوازیں آنا بند ہوگئیں اورفضا پھر سے پُرسكون ہوگئی تو انہوں نے بھی اطمینان كا سانس لیا اور لیٹ گئے۔۔۔۔اُس نے ماں كو آواز دی:
    "امی!"
    لیكن ماں كی طرف سے كوئی جواب نہ پا كر وہ تھوڑا زور سے بولا:
    "امی!"
    "كیوں میرے بچے۔۔۔؟" اس دفعہ ماں نے جواب دیا
    "امی! یہ اتنے سارے ستارے كیوں راہ بھٹك گئے ہیں؟ جن كے دم نكل آئے ہیں اور كسی دیو كی طرح خوفناك آوازیں نكال رہے ہیں؟"
    ماں نے ایك لمبی سانس لی اور پھر كہا:
    "ہاں بیٹے! بہت بڑے بڑے ستارے رستہ بھٹك گئے ہیں تبھی تو یہ قیامت برپا ہے"۔
    یہ سن كر اُس نے ماں كی گود میں لیٹے لیٹے ایك بار پھر دعا كے لئے اپنے ننھے ہاتھ بلند كئے۔۔۔۔۔لیكن الفاظ اُس كے منہ میں ہی رہ گئے۔۔۔۔۔۔۔باہر زور كی روشنی دكھائی دی۔۔۔۔۔ایك زوردار دھماكہ ہوا۔۔۔۔زمین كسی پھلدار درخت كی طرح جھومنے لگی ۔۔۔۔۔۔گھر اور عمارتیں پكے ہوئے پھلوں كی مانند دھڑام سے آگرے۔۔۔۔۔۔وہ خوف كے مارے ماں سے لپٹ گیا اور اُس نے ایك زوردار چیخ ماری لیكن دوسرے ہی لمحے اُس كی آواز اُس كے حلق میں اٹك گئی۔۔۔۔ اور اندھیرا اور بھیانك ہوتا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    *****

    جب اُس كی آنكھ كھلی تو اُسے تھوڑا درد محسوس ہوا۔۔۔۔۔دیكھا كہ اُس كے سر پر پٹیاں بندھی ہوئی ہیں۔۔۔ماں سرہانے بیٹھی آنسو بہا رہی ہے۔۔۔اُس كے ایك ہاتھ میں بھی پلستر لگا ہوا ہے۔۔۔۔۔وہ سرد آہیں بھر رہی تھی۔۔۔۔
    گل خان نے اردگرد نظریں دوڑائیں۔۔۔۔اس انجانے ماحول میں سب لوگ اجنبی تھے۔۔۔اس لئے وہ دیر تك چپ رہا۔۔۔۔ماں نے جب اُسے ہوش میں آتے دیكھا تو اُس كی آنكھوں سےغم كے آنسوؤں كے ساتھ شكر كے آنسوؤں كی ایك لڑی بھی بندھ گئی ۔۔۔۔۔اُس نے جلدی سے گل خان كو اپنے سینے سے لگا لیا۔۔۔ماں كے سینے سے لگتے ہی اُس كا خوف تھوڑا كم ہوا اور اُس نے ہونٹوں پر زبان پھیری:
    "امی! یہ كونسی جگہ ہے؟"
    "بیٹا! یہ اسپتال ہے"۔۔۔۔ماں كے لہجے میں افسردگی تھی۔
    "ہسپتال؟" وہ زیرلب بولا۔۔۔۔۔۔۔
    "امی! بابا كہاں ہیں؟"
    "بیٹا تمہارے بابا تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔" ماں كی اواز حلق میں رہ گئی اور اُس كی آنكھوں سے آنسوؤں كی ندیاں پھر پھوٹ پڑیں۔ وہ دیر تك چپ چپ روتی رہی ۔۔۔۔وہ چپ رہا اُس كا دل كر رہا تھا كہ اپنے بابا كے بارے میں ماں سے پوچھے لیكن اُس كے آنسوؤں كو دیكھ كر وہ ڈر جاتا ۔۔۔۔۔۔۔
    جب وہ اسپتال سے نكل كر گھر آرہے تھے تو راستے میں اُس كی ماں قبرستان میں ایك تازہ قبر پر بیٹھ كر زاروقطار رونے لگی۔۔۔۔قبر كی مٹی ابھی خشك نہیں ہوئی تھی اوراس پر تین چار روز پہلے كے مرجھائے ہوئے پھول بكھرے پڑے تھے۔ وہ اب پوچھے بغیر سمجھ گیا كہ قبر كس كی ہے اور اپنی ماں كے ساتھ پھوٹ پھوٹ كر رونے لگا۔ اُس كا چچا اُس كے ساتھ خاموش كھڑا تھا۔ اُس كی آنكھوں میں آنسو تیر رہے تھے۔ اُس نے گل خان كو گود میں لیا اور اُس كی ماں كو دلاسہ دیا۔۔۔۔۔۔۔لیكن اپنے آنكھوں سے نكلنے والے آنسوؤں كو نہ روك پایا۔۔۔۔

    جیسے ہی وہ گاؤں میں داخل ہوئے تو وہ اپنے گھر كی طرف دوڑ پڑا لیكن اچانك وہ اُس بھاگتے ہوئے گھوڑے كی مانند رك گیا جسكی كی لگام اچانك كسی نےكھینچ لی ہو۔
    گلی كوچے وہی تھے لیكن گھر اب وہ گھر نہیں رہے تھے۔اردگرد صرف مٹی كے ڈھیر٬ پتھر اور چھت كی لكڑیاں٬ جلا ہوا سامان٬ اور گری ہوئی دیواریں تھی۔ اپنے گھر كی یہ حالت دیكھ كر اُس كے دل میں ایك درد اٹھا ۔
    "امی! یہ كیسے ہوا؟" كیا اُن بھٹكے ہوئے ستاروں نے ہمارے گھر كی یہ حالت كی ہے؟ وہ ستارے تو میرے اپنے تھے۔۔۔۔۔پھر یہ سب كیسے ہوا؟
    ماں كے منہ سے فقط اتنا سن پایا كہ ہاں بیٹا كچھ ستارے اپنے تھے اور كچھ پرائے۔۔۔۔۔۔۔
    وہ اپنے كھنڈر گھر كی ہر اینٹ كو دیكھ رہی تھی ۔۔۔۔۔وہ گھر جو اُنہوں نے ارمانوں سے آباد كیا تھا۔۔۔۔۔۔اُس نے شكایت بھری نظروں سے آسمان كی طرف دیكھا۔۔۔۔۔۔سر كا سایہ چھن جانے سے اُس كا دل اب اس كھنڈر نما گھر كی طرح ویران ہوگیا تھا۔۔۔۔۔اُس كا سر چكرا رہا تھا وہ وہیں ملبے پر بیٹھ گئی۔۔۔۔۔اور اپنے نصیب كا رونا رونے لگی۔۔۔۔۔۔۔گھر كے ملبے میں ٹوٹے پھوٹے برتن اور دیگر چیزیں دكھائی دے رہی تھیں۔۔۔۔۔اُس كی نظریں اپنے ننھے گل خان پر ٹكی ہوئی تھیں جو ملبے میں سے اپنے كھلونوں اور دیگر چیزوں كو ڈھونڈ رہا تھا۔
    اچانك وہ خوشی سے اچھلا۔۔۔۔۔"امی! مجھے اپنا غلیل مل گیا۔۔۔۔۔ایك دم ٹیك ٹاك ہے۔۔۔۔۔"
    وہ تیزی سے ماں كی طرف لپكا لیكن جب ماں كی سوجھی ہوئی آنكھیں اور آنسو دیكھے تو كچھ دیر كے لئے اُس كے پاس خاموش كھڑا رہا۔۔۔۔۔۔پھر بولا:
    "امی رو مت" اُس نے ماں كے آنسو پونچھے۔۔۔۔
    پاس پڑے پتھروں سے اُس نے كچھ كو اكٹھا كیے اپنی جیب میں ڈالے۔۔۔۔۔۔ایك كو غلیل میں ڈالا اور اپنے گھر كی باقی ماندہ كھڑی ہوئی دیوار پر چڑھ كر بیٹھ گیا اور بولا:
    "ماں آج مجھے مت روكئے ۔۔۔۔۔۔۔۔آج جب یہ بھٹكے ہوئے ستارے آئیں گے تو میں انہیں دیكھوں گا۔۔۔۔یہ كہتے ہی اُس نے غلیل آسمان كی طرف تان لی اور بولا میں آج ان سے انتقام لوں گا۔۔۔۔۔۔۔۔بدلہ اپنے بابا كی موت كا بدلہ۔۔۔۔۔۔اور جب اُس كی ماں نے اُس كے آنكھوں میں دیكھا تو ان میں ایك عجیب چمك تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    ستمبر2009
    پشاور








    مٹی كی محبت میں هم آشفته سروں نے--------وه قرض بھی اتارے هیں جو واجب هی نهیں تھے

  • #2
    Re: بھٹكے ہوئے ستارے

    معصوم کردار اور زندگی کی سرکش حقیقتوں کا مقابلہ۔



    زندگی کتنا سچ بولتی ہے آدمی کا معیاد کتبا بلند اور کتنا پست ہوتا ہے، رشتے کتنے سچے
    اور کتنے جھوٹے ہوتے ہیں۔۔نفرت اور محبت میں کتنی تفریق ہے


    بہت خوب توقیر داد قبول کرو گل خان ہمارے معاشرتی تضادات اور اختلافات
    سے رونما ہونے والی صورت حال کی ترجمانی کرنے والا استعارہ بن گیا ہے


    خوش رہیں



    کیپلر
    :(

    Comment


    • #3
      Re: بھٹكے ہوئے ستارے

      buhat khobsorat aur pur-asar tahreer hay thx 4 sharing
      ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
      سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

      Comment


      • #4
        Re: بھٹكے ہوئے ستارے

        Aap dono ka bohat bohat shukria ke aap ne apna qeemati waqt nikala aur iss naacheez ke afsanay ko parha......
        Tareef ka bohat bohat shukria.......
        Agar aap logon ko koi ghalti nazar aaye ya aap kisi point se ittefaq nahi rakhtay to bhi point out karain muje iss baat pe khushi hogi.......chonke ye originaly meine Pashto mein likha tha aur baad mein aap logon ke liye translate kiya (aur meri urdu itni achi nahi hai) isliye corrections are welcomed here......


        w salam
        Tauqeer Khan yousafzai
        مٹی كی محبت میں هم آشفته سروں نے--------وه قرض بھی اتارے هیں جو واجب هی نهیں تھے

        Comment

        Working...
        X