وہ بھاگ رہی تھی اور بس بھاگتی ہی چلی گئی..ایک بار بھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھا...لیلیٰ کی آواز پر بھی نہیں...اسے بس ایک ہی فکر تھی کہ کہیں بہت دیر نہ ہو جائے...بھاگتے بھاگتے اسے یہ خیال آیا کہ ایک بار تو لیلیٰ کو دیکھ لوں کہ پھر شاید کبھی نہ دیکھ پاؤں...لیلیٰ اس کی سب سے اچھی دوست مگر اس نام کے سوا وہ اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھی...ایک بار اس نے پیچھے مڑ کر دیکھ ہی لیا مگر لیلیٰ شاید وہاں سے جا چکی تھی یا پھر لوگوں کی بھیڑ میں کہیں کھو گئی تھی تو اسے نظر نہیں آئی...اسے کچھ برا سا لگا...اچانک وہ کسی چیز سے ٹکرا گئی...اس نے جب اوپر دیکھا تو مضبوط جسامت والا ایک آدمی اس کے سامنے کھڑا تھا
وہ آخر پیچھے مڑی اور اس نے دیکھا کہ اس کی امی کا بستر خالی پڑا ہے...اس کی آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہوگئے....
"نہیں، نہیں " وہ خود کو سمجھانے لگی "لیلیٰ نے جو کہا وہ سچ تو نہیں ہوسکتا...میں نہیں مانتی ...بلکل بھی نہیں مانتی.....امی......امی.......امی...."
مگر اس کی ان نداؤں کا جواب تھا صرف وہ خاموشی...بہت ہی گہری خاموشی ...کچھ بےھنگم سے خیالات اس کے ذھن میں آنے لگے ...ان کو اپنے ذھن سے جھٹکتے ہوئے وہ پھر سے اپنی امی کو آوازیں دینے لگی....کہ اچانک اسے وہ آدمی یاد آگیا ...وہ مضبوط جسامت والا...بڑی بڑی مونچھیں ....شعلے اگلتی آنکھیں...گرجدار آواز....
مگر لیلیٰ کو یہ سب کیسے پتہ چلا .......وہ سوچنے لگی...."ہاں شاید جب اس کے ابّو چلے گئے تھے تب وہ بھی ان کے پیچھے بھاگی تھی تبھی شاید اس آدمی نے اس کو بھی بتایا ہوگا یہ سب"
وہ اپنی امی کو بھول کر ان سوچوں میں گم ہوچکی تھی کہ اچانک تیز ہوا سے کھڑکی کھلی اور اس کی آواز سے وہ واپس اس اندھیر اور خاموش کمرے میں لوٹ آئی تھی.....اس نے آگے بڑھ کر کھڑکی بند کی اور واپس آکر اپنی امی کے بستر پر بیٹھ گئی ....بستر بلکل ٹھنڈا پڑ چکا تھا اور ٹھنڈا ہوتا بھی کیوں نہیں....آخر اتنا عرصہ جو بیت چکا تھا.....لیکن اتنے عرصے میں کسی نے اس کو یہ بات نہ سمجهائی تھی ....جو آج لیلیٰ اور اس آدمی نے سمجهائی...اب اسے یقین ہوچلا تھا کہ اس کا وہ خوف حقیقت میں بدل چکا ہے....
یہ اپنی امی کو اتنا زیادہ پیار کرتی تھی مگر "مقررہ وقت" اس کی محبّت سے کہیں زیادہ طاقتور تھا....اس کی امی کو لے کر چلا گیا...اور یہ کچھ نہ کر سکی...کوئی کچھ نہیں کر سکتا ....یہی قدرت کا نظام ہے...
یہ سب سمجھنے کے بعد اس نے اپنے آنسو پونچھے اور اٹھ کر لائیٹ اون کی اور آیئنے کے سامنے کھڑی ہوگئی اور اپنے عکس سے کہنے لگی ..."ہر ایک کے جانے کا وقت مقرر ہے سو وہ اپنے وقت پر چلے گئے اور تمھیں اپنے وقت پر جانا ہے سو جب تک یہاں رہنا ہے اندھیرے میں نہیں اُجالے میں رہنا ہے ...کیونکه یہ زندگی الله کی نعمت ہے ...اسے جانے والوں کے ساتھ ضایع نہیں کرنا ....ہاں ....تمھیں اُن سے بہت پیار ہے بلکل ہے ...تو اپنے پیار کا اظہار آنسووں سے نہیں بلکہ اُن کے لئے دعا سے کرو ....."
"کہاں جا رہی ہو؟؟؟"
"اپنی امی کے پاس....وہ مجھے یہاں چھوڑ کر چلی گئی ہیں"
"ابھی نہیں....تم ابھی نہیں جا سکتی...صحیح وقت پر تمھیں خود وہاں بھیج دیا جائے گا"
اس کی آنکھ کھلی وہ بری طرح سے گھبرائی ہوئی تھی ...اس کی سانس پھولی ہوئی تھی...یوں لگ رہا تھا کہ جیسے وه واقعی اتنا بھاگی ہو...وہ بنا کچھ سوچے اپنے بستر سے کودی اور دروازے کی طرف لپکی...اس نے دروازہ کھولا اور باہر چلی گئی .......اتنا اندھیرا......ایک عجیب سا سناٹا....اس کے رونگھٹے کھڑے ہوگئے...مگر یہ خوف اس خوف کے سامنے کچھ نہ تھا...وہ اس سب کو نظرانداز کر کے کچھ سوچتے ہوئے تیز مگر گھبرائے ہوئے قدموں سے آگے بڑھی...کچھ ہی لمحوں میں وہ اپنی امی کے کمرے کے باہر کھڑی تھی ...اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا...اس نے دروازہ کھولنا چاہا مگر پھر پیچھے ہٹ گئی کہ کہیں اس کا خوف سچ نہ ہوجائے ...کچھ دیر رکی رہی مگر پھر اس سناٹے میں ایک عجیب سی آواز سن کر وہ ڈر سی گئی ....اس نے فورا اگے بڑھ کر دروازہ کھولا اور اندر چلی گئی...دوبارہ سے دروازہ بند کر کہ اس نے دروازے پر اپنا منہ رکھ دیا وہ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا چاہتی تھی...شاید اس کی ہمت ہی نہیں ہو پا رہی تھی...کچھ دیر وہ ویسے ہی کھڑی رہی بہت ساری سوچیں اس کے ذھن میں گھومنے لگیں ...اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے مگر وہ رونا بھی نہیں چاہتی تھی ....اس نے منہ ہی منہ میں کچھ پڑھنا شروع کر دیا....شاید الله کا ذکر یا کوئی دعا.....پتہ نہیں..."اپنی امی کے پاس....وہ مجھے یہاں چھوڑ کر چلی گئی ہیں"
"ابھی نہیں....تم ابھی نہیں جا سکتی...صحیح وقت پر تمھیں خود وہاں بھیج دیا جائے گا"
وہ آخر پیچھے مڑی اور اس نے دیکھا کہ اس کی امی کا بستر خالی پڑا ہے...اس کی آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہوگئے....
"نہیں، نہیں " وہ خود کو سمجھانے لگی "لیلیٰ نے جو کہا وہ سچ تو نہیں ہوسکتا...میں نہیں مانتی ...بلکل بھی نہیں مانتی.....امی......امی.......امی...."
مگر اس کی ان نداؤں کا جواب تھا صرف وہ خاموشی...بہت ہی گہری خاموشی ...کچھ بےھنگم سے خیالات اس کے ذھن میں آنے لگے ...ان کو اپنے ذھن سے جھٹکتے ہوئے وہ پھر سے اپنی امی کو آوازیں دینے لگی....کہ اچانک اسے وہ آدمی یاد آگیا ...وہ مضبوط جسامت والا...بڑی بڑی مونچھیں ....شعلے اگلتی آنکھیں...گرجدار آواز....
"تم ابھی نہیں جا سکتی ....ابھی وقت نہیں آیا تمہارا....جب صحیح وقت آئے گا تم کو خود راستہ نظر آجائے گا اپنی امی کے پاس جانے کا"
"وقت....لیلیٰ بھی تو کچھ بتا رہی تھی وقت کے بارے میں ...صحیح وقت....ہاں....اس نے بھی تو کہا تھا کہ ہر ایک کے جانے کا صحیح وقت مقرر ہے ...اس کے آگے پیچھے کوئی چاہے تو جا نہیں سکتا اور نہ چاہے تو رک نہیں سکتا ....."مگر لیلیٰ کو یہ سب کیسے پتہ چلا .......وہ سوچنے لگی...."ہاں شاید جب اس کے ابّو چلے گئے تھے تب وہ بھی ان کے پیچھے بھاگی تھی تبھی شاید اس آدمی نے اس کو بھی بتایا ہوگا یہ سب"
وہ اپنی امی کو بھول کر ان سوچوں میں گم ہوچکی تھی کہ اچانک تیز ہوا سے کھڑکی کھلی اور اس کی آواز سے وہ واپس اس اندھیر اور خاموش کمرے میں لوٹ آئی تھی.....اس نے آگے بڑھ کر کھڑکی بند کی اور واپس آکر اپنی امی کے بستر پر بیٹھ گئی ....بستر بلکل ٹھنڈا پڑ چکا تھا اور ٹھنڈا ہوتا بھی کیوں نہیں....آخر اتنا عرصہ جو بیت چکا تھا.....لیکن اتنے عرصے میں کسی نے اس کو یہ بات نہ سمجهائی تھی ....جو آج لیلیٰ اور اس آدمی نے سمجهائی...اب اسے یقین ہوچلا تھا کہ اس کا وہ خوف حقیقت میں بدل چکا ہے....
یہ اپنی امی کو اتنا زیادہ پیار کرتی تھی مگر "مقررہ وقت" اس کی محبّت سے کہیں زیادہ طاقتور تھا....اس کی امی کو لے کر چلا گیا...اور یہ کچھ نہ کر سکی...کوئی کچھ نہیں کر سکتا ....یہی قدرت کا نظام ہے...
یہ سب سمجھنے کے بعد اس نے اپنے آنسو پونچھے اور اٹھ کر لائیٹ اون کی اور آیئنے کے سامنے کھڑی ہوگئی اور اپنے عکس سے کہنے لگی ..."ہر ایک کے جانے کا وقت مقرر ہے سو وہ اپنے وقت پر چلے گئے اور تمھیں اپنے وقت پر جانا ہے سو جب تک یہاں رہنا ہے اندھیرے میں نہیں اُجالے میں رہنا ہے ...کیونکه یہ زندگی الله کی نعمت ہے ...اسے جانے والوں کے ساتھ ضایع نہیں کرنا ....ہاں ....تمھیں اُن سے بہت پیار ہے بلکل ہے ...تو اپنے پیار کا اظہار آنسووں سے نہیں بلکہ اُن کے لئے دعا سے کرو ....."
"یا الله تمام جانے والوں کی مغفرت فرما اور ان کو اپنے اپنی رحمت کے سائے میں رکھ .....آمین ....."
Comment