کوئی آنسو تیرے دامن پر گرا کر
بوند کو موتی بنانا چاہتی ہوں
بارش کے قطرے جب کچی زمین پر پڑتے ہیں اور زمین کسی پیاسے کی طرح ان سے اپنا وجود سیراب کرتی ہے تب اس سیرابی کی سرشاری کو سوندھی خوشبو کی صورت فضائوں میں بکھیر دیتی ہے۔ ایسے میں یہ کیفیت رگ و پے پر ایک عجب سی کیفیت طاری کر دیتی ہے زمین پر پڑنے والا ہر قطرہ آپ کو آپ کے وجود پہ گرتے محسوس ہوتے ہیں یہ قطرے زمین کے ساتھ ساتھ آپ کو بھی اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں اور مجبور کر دیتے ہیں کہ آپ ان سے اپنی وابستگی کو ظاہر کریں۔۔۔ آپ لاکھ چاہیں ان قطروں سے بیزار ہونا یہ اپنا اثر آپ پہ لازماً کرتے چلے جاتے ہیں۔۔۔
میری لیے یہ بارشیں ایسی ہیں کہ ان میں روح بھیگتی محسوس ہوتی ہے۔۔ چاہے نیند کا عالم ہو تب بھی یہ بارش میرے کان میں سرگوشی کرتی ہے اور مجھے بلاتی ہے۔۔ اپنی طرف۔۔ اس کی طرف۔۔
جب میں ان بارشوں کی سرگوشیوں پہ لبیک کہہ کر چل پڑتی ہوں اور اپنی کھڑکی پہ ان بوندوں کی دستک سُنتی ہوں تو یہ بوندیں مجھے وہ لمحے عطا کرتی ہیں جو اس شور و غل میں نصیب ہونا محال ہیں۔۔۔ ابھی کی بات ہے زیادہ دور بھی کیا جائیں۔۔ بالکل ابھی۔۔۔ بارش نے وہ لمحے دان کرے جن سے ہوتے ہوئے آپ اپنی ہی ذات میں ایک نیا وجود ہوتے ہیں۔۔۔ کہیں کسی ٹین پر گرتے بارش کے قطروں کا ساز اور ہوا کی جگل بندیاں انسان کو کسی اور ہی مقام پر لے جاتی ہیں۔۔۔ بالکل یہاں اس مقام پر میں نے تمہیں پایا ہے۔۔
اپنی آنکھوں کو بند کر کے اپنا سر کرسی کی پشت سےٹکا کر تخیل کے ہر موڑ پر تمہارا وجود پایا ہے۔۔۔ جس کی میں نے برسوں تلاش کی ہے۔۔ جس کے لیے میں نے بہت دعائیں مانگی۔۔ اس لمحہ وصل میں جب میں اپنی ذات سے ملی تب میں نے تمہیں وہاں پایا۔۔۔ پھر ایک عجب سکون میں نے اپنے رگ و پے میں اترتا محسوس کیا یوں لگا میں بھی مٹی ہوں اور میری مٹی تمہارے وجود کے احساس سے سیراب ہونے لگی ۔۔۔ ان بارشوں نے محبت کی نشانی پہ اپنی پھواروں کی صورت یوں بوسہ دیا گویا تمہارے ہونٹوں نے مجھے چھوا ہو۔۔ دل کی شدید خواہش تھی کہ یہ لمحے یہاں بالکل اسی پل میں تھم جائیں وقت کبھی آگے نہ بڑھے۔۔ لیکن۔۔ بارش کی سرگوشیاں ذات سے اٹکھلیاں کرتی ہوئی دھیرے دھیرے واپس جانے لگیں۔۔ دھیرے دھیرے میرے چہرے سے مٹتی چلی گئیں۔۔ بارش کی آخری سرگوشی میرے کانوں میں گونجی۔۔ ہوا تھم گئی۔۔ بوندیں ختم ہو گئیں۔۔۔ ملاقات کا وقت ختم ہو گیا کا اعلان کرتی وی۔۔۔ میں نے تمہیں خود سے دور جاتے دیکھا اور گھبرا کر آنکھیں کھول دیں۔۔ میرے سامنے ہر چیز بارش کی آمد اور پلٹ جانے کی خبر دے رہی تھی۔۔ میں نے بے چین ہو کر ہر طرف ایک نگاہ ڈالی ۔۔۔ لیکن۔۔ ذات کا لمحہ جا چکا تھا۔۔ وہ لمحہ پلٹ گیا اور میرا آنسو موتی نہ بن سکا۔۔۔
بوند کو موتی بنانا چاہتی ہوں
بارش کے قطرے جب کچی زمین پر پڑتے ہیں اور زمین کسی پیاسے کی طرح ان سے اپنا وجود سیراب کرتی ہے تب اس سیرابی کی سرشاری کو سوندھی خوشبو کی صورت فضائوں میں بکھیر دیتی ہے۔ ایسے میں یہ کیفیت رگ و پے پر ایک عجب سی کیفیت طاری کر دیتی ہے زمین پر پڑنے والا ہر قطرہ آپ کو آپ کے وجود پہ گرتے محسوس ہوتے ہیں یہ قطرے زمین کے ساتھ ساتھ آپ کو بھی اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں اور مجبور کر دیتے ہیں کہ آپ ان سے اپنی وابستگی کو ظاہر کریں۔۔۔ آپ لاکھ چاہیں ان قطروں سے بیزار ہونا یہ اپنا اثر آپ پہ لازماً کرتے چلے جاتے ہیں۔۔۔
میری لیے یہ بارشیں ایسی ہیں کہ ان میں روح بھیگتی محسوس ہوتی ہے۔۔ چاہے نیند کا عالم ہو تب بھی یہ بارش میرے کان میں سرگوشی کرتی ہے اور مجھے بلاتی ہے۔۔ اپنی طرف۔۔ اس کی طرف۔۔
جب میں ان بارشوں کی سرگوشیوں پہ لبیک کہہ کر چل پڑتی ہوں اور اپنی کھڑکی پہ ان بوندوں کی دستک سُنتی ہوں تو یہ بوندیں مجھے وہ لمحے عطا کرتی ہیں جو اس شور و غل میں نصیب ہونا محال ہیں۔۔۔ ابھی کی بات ہے زیادہ دور بھی کیا جائیں۔۔ بالکل ابھی۔۔۔ بارش نے وہ لمحے دان کرے جن سے ہوتے ہوئے آپ اپنی ہی ذات میں ایک نیا وجود ہوتے ہیں۔۔۔ کہیں کسی ٹین پر گرتے بارش کے قطروں کا ساز اور ہوا کی جگل بندیاں انسان کو کسی اور ہی مقام پر لے جاتی ہیں۔۔۔ بالکل یہاں اس مقام پر میں نے تمہیں پایا ہے۔۔
اپنی آنکھوں کو بند کر کے اپنا سر کرسی کی پشت سےٹکا کر تخیل کے ہر موڑ پر تمہارا وجود پایا ہے۔۔۔ جس کی میں نے برسوں تلاش کی ہے۔۔ جس کے لیے میں نے بہت دعائیں مانگی۔۔ اس لمحہ وصل میں جب میں اپنی ذات سے ملی تب میں نے تمہیں وہاں پایا۔۔۔ پھر ایک عجب سکون میں نے اپنے رگ و پے میں اترتا محسوس کیا یوں لگا میں بھی مٹی ہوں اور میری مٹی تمہارے وجود کے احساس سے سیراب ہونے لگی ۔۔۔ ان بارشوں نے محبت کی نشانی پہ اپنی پھواروں کی صورت یوں بوسہ دیا گویا تمہارے ہونٹوں نے مجھے چھوا ہو۔۔ دل کی شدید خواہش تھی کہ یہ لمحے یہاں بالکل اسی پل میں تھم جائیں وقت کبھی آگے نہ بڑھے۔۔ لیکن۔۔ بارش کی سرگوشیاں ذات سے اٹکھلیاں کرتی ہوئی دھیرے دھیرے واپس جانے لگیں۔۔ دھیرے دھیرے میرے چہرے سے مٹتی چلی گئیں۔۔ بارش کی آخری سرگوشی میرے کانوں میں گونجی۔۔ ہوا تھم گئی۔۔ بوندیں ختم ہو گئیں۔۔۔ ملاقات کا وقت ختم ہو گیا کا اعلان کرتی وی۔۔۔ میں نے تمہیں خود سے دور جاتے دیکھا اور گھبرا کر آنکھیں کھول دیں۔۔ میرے سامنے ہر چیز بارش کی آمد اور پلٹ جانے کی خبر دے رہی تھی۔۔ میں نے بے چین ہو کر ہر طرف ایک نگاہ ڈالی ۔۔۔ لیکن۔۔ ذات کا لمحہ جا چکا تھا۔۔ وہ لمحہ پلٹ گیا اور میرا آنسو موتی نہ بن سکا۔۔۔
Comment