اگلے مہینے میری بیٹی کی رخصتی ھے، پتہ ھی نہیں چلا وہ پل بھر میں بڑی ھوگئی، کل کے بارے میں سوچتا ھوں جب وہ ایک ننھی سی گڑیا تھی، فروری 1984 کا زمانہ تھا اور میں راولپنڈی میں اپنی نوکری کے سلسلے میں موجود تھا، بیگم ھماری دوسرے بچے کی پیدائش کے سلسلے میں کراچی گئی ھوئی تھیں، 5 فروری کو مجھے بیٹی کی پیدائش کی مبارکباد کا پیغام ملا، میں تو خوشی سے پھولا نہیں سما رھا تھا، کیونکہ مجھے بیٹی کی ھی خواھش تھی، اس سے پہلے اس وقت میرا دو سال کا بیٹا تھا،!!!!!!
میرا دل تو چاہ رھا تھا کہ میرے پر لگ جائیں اور میں اڑ کر کراچی پہنچ جاؤں، لیکن مجبوری تھی کہ کام کی زیادتی کی وجہ سے مجھے چھٹی نہیں مل رھی تھی، اور میں اپنی بیٹی کو دیکھنے کیلئے پہت بےچین بےقرار تھا، کوئی بھی صورت نظر نہیں آرھی تھی، اسی طرح پہلے بیٹے کی پیدائش کے موقع پر میں دھران، سعودی عرب میں تھا، اور اسی طرح مجھے چھٹی نہیں مل رھی تھی، مگر میں تو اپنے پہلے بیٹے کو دیکھنے کیلئے بالکل بضد تھا کہ نوکری چھوڑدوں گا لیکن پاکستان ایمرجنسی چھٹی ضرور جاوں گا، چاھے ایک ھفتے کیلئے ھی کیوں نہ جاؤں،!!!!!
اور آج بھی یہی سچیویشن تھی، کہ بیٹی کی پیدائش پر میں بہت ھی زیادہ بےچین تھا، لیکن واقعی کام کو دیکھتے ھوئے میں بہت ھی مجبور تھا، حتیٰ کہ میں بہت سخت بیمار ھو گیا، اور ادھر ھمارے خالو جو پنڈی میں رھتے تھے انہوں نے میری حالت دیکھتے ھوئے کراچی میں میری بیگم کو یہ اطلاع پہنچادی کہ فوراً پہنچو، ورنہ تمھارے میاں جی کا تو اللٌہ ھی حافظ ھے،!!!!!!
فوراً ھی ھماری بیگم نے بوریہ بسترا لپیٹا اور بچی کے پیدائیش کے دس دنوں بعد ھی بمعہ دونوں بچوں کے، کراچی سے بذریعہ تیز گام پنڈی کیلئے روانہ ھوگئیں، ان کے ساتھ دیکھ بھال کیلئے ان کا چھوٹا بھائی بھی ساتھ ھمسفر تھا، بیٹی کی پیدائش کی خبر کے بعد مجھ میں تو بالکل حوصلہ ھی نہیں تھا، بس اسکو دیکھنے کیلئے تڑپ رھا تھا، جیسے ھی مجھے خبر ملی کہ ھماری بیگم دو سال کے بیٹے اور 10 دن کی بیٹی دونوں بچوں اور اپنے چھوٹے بھائی کو ساتھ لئے کل تیزگام سے راولپنڈی پہنچ رھی ھیں، پھر تو مزید انتظار کا حوصلہ بھی ختم ھو گیا اور مجھ سے صبر نہ ھوسکا، میں بذریعہ فلائنگ کوچ راولپنڈی سے رات کو ھی لاھور کیلئے روانہ ھوگیا،!!!!اور صبح صبح لاھور کے ریلوے اسٹیشن پر موجود تھا اور وہاں پر کراچی سے تیزگام کے آنے میں ابھی شاید دو گھنٹے باقی تھے، اور میرے لئے ایک ایک منٹ ایک گھنٹے سے کم نہیں لگ رھا تھا،!!!!!!
دو گھنٹے لاھور اسٹیشن پر بہت ھی مشکل سے گزرے، اس سے پہلے میں نے اپنے لئے سلیپر کا ایک ٹکٹ راولپنڈی کا لے لیا تھا، کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ وہ لوگ سلیپر میں ھی سفر کررھے ھیں، جیسے ھی تیزگام اپنے مقررہ وقت صبح کے تقریباً آٹھ بجے پلیٹ فارم پر آکے رکی، میں نے انہیں سلیپر کی بوگی میں تلاش کرنا شروع کیا، بڑی مشکل سے ایک سلیپر کے دروازے سے جھانکا تو دیکھا بیگم صاحبہ دونوں بچوں کے ساتھ بیٹھی تھیں، اور سردی کی وجہ سے وہ بچوں کو اپنی گود میں شاید گرم شال میں لپیٹے ھوئے اتنی مگن تھیں کہ میری طرف دھیان کافی دیر بعد ھی گیا، اور مجھے دیکھ کر تو حیران اور پریشان ھو گئں، انہیں ایک دم شک ھوا کہ کیا یہ راولپنڈی اسٹیشن ھے، یا ان کی آنکھیں دھوکہ کھا رھی ھیں، وہاں پر مجھے ان کا بھائی بھی دکھائی نہیں دیا،؟؟؟؟؟
اتنے میں ان کا بھائی بھی آگیا، وہ بھی سمجھا کہ میں کوئی اجنبی ھوں، اسکی شاید مجھ سے تکرار ھوجاتی لیکن شکر ھے کہ وہ مجھے پہچان گیا، کیونکہ کوئی بھی یہ سوچ ھی نہیں سکتا تھا کہ میں راولپنڈی کے بجائے لاھور اسٹیشن پر ملوں گا، ان کو بہت ھی حیرانگی ھوئی اور ھماری بیگم تو مجھے دیکھ کر خوشی سے پھولی نہیں سما رھی تھیں، بس میں نے اپنی بیٹی کو گود میں لیا، اور خوب پیار کیا، اور ساتھ ھی اپنے بیٹے کو بھی گلے سے لگایا، وہ کچھ شرما سا رھا تھا، میں پہلے تو بیٹے سے ھی بہت خوش تھا لیکن میری بڑی بیٹی کے آتے ھی میری دنیا ھی بدل گئی، وہ فروری 1984 کا زمانہ تھا، اور اب اسی بیٹی کی رخصتی فروری 2008 میں ھونے والی ھے، !!!!
میں دونوں بچوں میں اتتنا مگن تھا کہ لاھور سے پنڈی کے سفر کا پتہ ھی نہیں چلا اور تیزگام راولپنڈی اسٹیشن پر پہنچ گئی، سردی اچھی خاصی تھی، فوراً ھی سامان سمیٹا اور اسٹیشن سے ٹیکسی لی اور اپنے محلے چوھڑ چوک پہنچ گئے، گھر کے سامنے والی گلی میں ٹیکسی کو رکوایا اور سامان ڈگی سے نکال کر گھر کی طرف چل دئے، سردی کی وجہ سے ھاتھ پیر کانپ رھے تھے گھر پر پہنچتے ھی کمروں کے تمام گیس کے ھیٹر آن کردیئے، کچھ دیر بعد سکون ملا، میں تو اپنی ننھی منی گڑیا کے ساتھ ھی مگن تھا، پڑوس سے گرما گرم کھانا بھی آگیا، کھانا کھا کر جیسے ھی فارغ ھوئے تو آس پاس کے جاننے والوں کا تو تانتا ھی بن گیا، سب فیملیز اور بچے ننھی مہمان کو دیکھنے اور مبارکباد دینے چلے آرھے تھے،!!!!!
میں فوراً ھی کچھ ضرورت کی چیزیں لینے بازار چلا گیا، مگر دل ھی دل میں بیٹی کے بارے میں سوچتا ھی جارھا تھا اور ایک عجیب سی خوشی ھو رھی تھی، پہلے تو ایک بیٹے کا باپ تھا اب تو ایک بیٹی بھی اللٌہ نے دے دی تھی، بس ھر وقت بیٹی کو ھی دیکھتا رھتا تھا، اور خوب اس سے باتیں کرتا، بڑا بیٹا تو کبھی کبھی ناراض بھی ھو جاتا کہ اس پر ابھی کوئی توجہ نہیں دی جارھی، وہ غصہ میں آکر اپنی چھوٹی بہن کو تنگ بھی کرتا تھا، مگر پھر ڈانٹ بھی کھاتا تھا، بچوں میں بھی قدرتی اس وقت حسد کا مادہ پیدا ھوجاتا ھے جب اس کے بجائے زیادہ تر اس سے چھوٹے بچے کی طرف والدین کا رجحان ھوجاتا ھے اور پھر اس کے مزاج میں چڑچڑا پن آجاتا ھے، جس کا ھم اکثر خیال نہیں کرتے، جس سے آگے چل کر اس پچے کے ذہن پر برا اثر پڑسکتا ھے، اور اکثر یہی دیکھا بھی گیا ھے کہ اکثر اسی وجہ سے بہن بھائیوں میں سنجیدگی پائی گئی ھے اور بعض تو ایک دوسرے سے بات بھی کرنا پسند نہیں کرتے، جس کے لئے بہت ھی ضروری ھے کہ ھر بچے کے ساتھ بالکل ایک جیسا ھی سلوک روا رکھا جائے، تاکہ کسی بھی بچے کو آپس میں کوئی تفریق محسوس نہ ھو، مگر یہ تو قدرتی بات ھے کہ گھر میں ننھے مہمان کی خوب آؤ بھگت ھوتی ھے، بہرحال پھر بھی احتیاط ضروری ھے !!!!!!
خیر میں بات کررھا تھا اپنی بڑی بیٹی کی جیسے جیسے وہ بڑی ھوتی گئی، اس سے اور زیادہ لگاؤ اور چاھت بھی بڑھتی گئی، بیٹے کے ساتھ بھی میں اسی طرح کا سلوک رکھتا تھا لیکن وہ بہت ھی شرارت تھا، وہ بھی اپنی بہن سے خوب کھیلتا رھتا اور جب وہ روتی تو پھر ڈانٹ بھی کھاتا تھا، بیٹی جب سمجھدار ھوئی تو اپنی والدہ کے چھوٹے موٹے کام میں ھاتھ بٹانے لگی، بعد میں دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کا مزید اضافہ بھی ھوگیا تھا لیکن بڑی بیٹی کا رکھ رکھاؤ سب سے مختلف تھا، وہ سب کا بہت خیال رکھتی اور ساتھ ھی اسے ھر ایک کی ضرورت کا علم بھی رھتا تھا، چھوٹے بہن بھائیوں کو نہلانا دھلانا، اچھے اچھے کپڑے پہنانا، گھر کی صفائی کا تو وہ خاص خیال رکھتی تھی، بچپن سے ھی ھر چیز کو قرینہ سے رکھتی، جس گھر میں بھی ھم رھے اس گھر کو خوب سجا کر رکھتی تھی، اس کے علاؤہ پڑھائی میں وہ بچپن سے ھی کلاس میں اوٌل پوزیشن لیتی رھی، آج بھی اس نے اسکے تمام انعامات اور شیلڈز کو حفاظت سے شوکیس میں سجا کر رکھے ھوئے ھے، گھر پر اس نے چھوٹے بچوں کیلئے ڈے کیئرسینٹر بھی کھولا ھوا ھے، جہاں تقریباً چھ سات بچوں کی تعلیم اور تربیت کا انتطام ایک کمرے میں کیا ھوا ھے جہاں اس نے بچوں کی تفریح کیلئے مختلف کھلونے اور ایک چھوٹا سا دو بچوں کا جھولا بھی رکھا ھوا ھے، اپنی چھوٹی بہنوں کی مدد سے ان تمام بچوں کی دیکھ بھال بھی کرتی رھی ھے، پانچ سال سے آتے ھوئے گود کے بچے بھی اب بڑے بھی ھوگئے ھیں، ایک ہفتہ پہلے سے ھی اب یہ ڈے کیئر سینٹر بھی ویران ھوگیا ھے، اب تمام آنے والے بچے اپنے اپنے گھروں میں افسردہ بھی ھیں، اور ضد کررھے ھیں کہ ھمیں باجی کے پاس جانا ھے، اسے ھمیشہ سے ھی چھوٹے بچوں سے بہت ھی زیادہ پیار رھا ھے،!!!!!
آج بھی وہ اسی طرح گھر کا بہت خیال رکھتی ھے، میری دوائیوں کے وقت پر مجھے دوائی دیتی ھے، اپنی والدہ کو تو اس نے بالکل ھی آرام دے دیا ھے، وہ بالکل اب والدہ کی ھی طرح ان کے نقش و قدم پر چلتے ھوئے تمام گھر کی صفائی ستھرائی سے لے کر سب کے کپڑے دھونے، کچن میں کھانے پکانے کے ساتھ تمام کچن کی صفائی، برتن دھونے تک سارے کام خود ھی انجام دیتی ھے، ساتھ اپنی چھوٹی بہنوں کی بھی مدد لیتی ھے،اور انہیں ڈانٹتی بھی رھتی ھے، اور سارے کام سکھاتی اور سمجھاتی بھی رھتی ھے کہ اس کے اس گھر سے رخصت ھونے پر کسی کو بھی کوئی پریشانی نہ ھو، اور گھر کا تمام سودا لانے اور اس کا حساب کتاب رکھنے میں خاص طور سے اپنی والدہ کی مدد بھی کرتی ھے، اور میں اپنی بیٹی کی کیا تعریف کروں کچھ سمجھ میں نہیں آرھا، اس میں یہ تمام خوبیاں زیادہ تر اس کی والدہ کی ھی بہترین تربیت کا نتیجہ ھیں، اور اللٌہ کی دین ھے، اس کے علاوہ وہ باقائدہ نماز اور روزے کی پابند بھی ھے اور ساتھ ھی ھر سال گھر میں رمضان کے بابرکت مہینے میں آخری عشرے میں اعتکاف میں بھی بیٹھتی ھے، اور اب تک مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ جانے کے لئے تمام پروگرام بھی وہ خود ھی ترتیب دیتی رھی ھے،!!!!!!!!!
یہ سوچتے ھی کلیجہ منہ کو آجاتا ھے کہ کچھ دنوں بعد وہ اس گھر سے رخصت ھو جائے گی، آنکھوں میں آنسو آجاتے ھیں، والدین کتنے ارمانوں سے اپنی بیٹیوں کی پرورش کرتے ھیں ساتھ بیٹوں کی بھی تربیت میں کسر نہیں چھوڑتے، لیکن بیٹیوں کے لئے تو خاص طور سے خیال رکھا جاتا ھے، اس کی تعلم و تربیت اور گھر کے تمام کام کاج کے علاؤہ رکھ رکھاؤ ھر طریقے سے بہتر سے بہتر کرتے ھیں، وہ صرف اس لئے کہ جب وہ دوسرے گھر جائے تو کسی بھی اچھی تربیت کی کمی نہ رہ جائے، اور وہاں پر ان کی بیٹی کی واہ واہ ھو اور وہ اتنے خوش ھوں کہ اسے وھاں پر بھی اسکے تمام سسرال والے اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں سے بھی بڑھ کر اسے پیار دیں،!!!!
اللٌہ تعالیٰ سے بس یہی دعاء کرتا ھوں کہ ھر بہن اور بیٹی کو اسکے اپنے گھر یعنی سسرال میں اتنی زیادہ محبت ملے کہ وہ اپنے میکے کی چاھت کو ھی بھول جائے، آمین،!!!!
Abdul Rehman Syed,
http://www.armansyed.amisun.pk/
میرا دل تو چاہ رھا تھا کہ میرے پر لگ جائیں اور میں اڑ کر کراچی پہنچ جاؤں، لیکن مجبوری تھی کہ کام کی زیادتی کی وجہ سے مجھے چھٹی نہیں مل رھی تھی، اور میں اپنی بیٹی کو دیکھنے کیلئے پہت بےچین بےقرار تھا، کوئی بھی صورت نظر نہیں آرھی تھی، اسی طرح پہلے بیٹے کی پیدائش کے موقع پر میں دھران، سعودی عرب میں تھا، اور اسی طرح مجھے چھٹی نہیں مل رھی تھی، مگر میں تو اپنے پہلے بیٹے کو دیکھنے کیلئے بالکل بضد تھا کہ نوکری چھوڑدوں گا لیکن پاکستان ایمرجنسی چھٹی ضرور جاوں گا، چاھے ایک ھفتے کیلئے ھی کیوں نہ جاؤں،!!!!!
اور آج بھی یہی سچیویشن تھی، کہ بیٹی کی پیدائش پر میں بہت ھی زیادہ بےچین تھا، لیکن واقعی کام کو دیکھتے ھوئے میں بہت ھی مجبور تھا، حتیٰ کہ میں بہت سخت بیمار ھو گیا، اور ادھر ھمارے خالو جو پنڈی میں رھتے تھے انہوں نے میری حالت دیکھتے ھوئے کراچی میں میری بیگم کو یہ اطلاع پہنچادی کہ فوراً پہنچو، ورنہ تمھارے میاں جی کا تو اللٌہ ھی حافظ ھے،!!!!!!
فوراً ھی ھماری بیگم نے بوریہ بسترا لپیٹا اور بچی کے پیدائیش کے دس دنوں بعد ھی بمعہ دونوں بچوں کے، کراچی سے بذریعہ تیز گام پنڈی کیلئے روانہ ھوگئیں، ان کے ساتھ دیکھ بھال کیلئے ان کا چھوٹا بھائی بھی ساتھ ھمسفر تھا، بیٹی کی پیدائش کی خبر کے بعد مجھ میں تو بالکل حوصلہ ھی نہیں تھا، بس اسکو دیکھنے کیلئے تڑپ رھا تھا، جیسے ھی مجھے خبر ملی کہ ھماری بیگم دو سال کے بیٹے اور 10 دن کی بیٹی دونوں بچوں اور اپنے چھوٹے بھائی کو ساتھ لئے کل تیزگام سے راولپنڈی پہنچ رھی ھیں، پھر تو مزید انتظار کا حوصلہ بھی ختم ھو گیا اور مجھ سے صبر نہ ھوسکا، میں بذریعہ فلائنگ کوچ راولپنڈی سے رات کو ھی لاھور کیلئے روانہ ھوگیا،!!!!اور صبح صبح لاھور کے ریلوے اسٹیشن پر موجود تھا اور وہاں پر کراچی سے تیزگام کے آنے میں ابھی شاید دو گھنٹے باقی تھے، اور میرے لئے ایک ایک منٹ ایک گھنٹے سے کم نہیں لگ رھا تھا،!!!!!!
دو گھنٹے لاھور اسٹیشن پر بہت ھی مشکل سے گزرے، اس سے پہلے میں نے اپنے لئے سلیپر کا ایک ٹکٹ راولپنڈی کا لے لیا تھا، کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ وہ لوگ سلیپر میں ھی سفر کررھے ھیں، جیسے ھی تیزگام اپنے مقررہ وقت صبح کے تقریباً آٹھ بجے پلیٹ فارم پر آکے رکی، میں نے انہیں سلیپر کی بوگی میں تلاش کرنا شروع کیا، بڑی مشکل سے ایک سلیپر کے دروازے سے جھانکا تو دیکھا بیگم صاحبہ دونوں بچوں کے ساتھ بیٹھی تھیں، اور سردی کی وجہ سے وہ بچوں کو اپنی گود میں شاید گرم شال میں لپیٹے ھوئے اتنی مگن تھیں کہ میری طرف دھیان کافی دیر بعد ھی گیا، اور مجھے دیکھ کر تو حیران اور پریشان ھو گئں، انہیں ایک دم شک ھوا کہ کیا یہ راولپنڈی اسٹیشن ھے، یا ان کی آنکھیں دھوکہ کھا رھی ھیں، وہاں پر مجھے ان کا بھائی بھی دکھائی نہیں دیا،؟؟؟؟؟
اتنے میں ان کا بھائی بھی آگیا، وہ بھی سمجھا کہ میں کوئی اجنبی ھوں، اسکی شاید مجھ سے تکرار ھوجاتی لیکن شکر ھے کہ وہ مجھے پہچان گیا، کیونکہ کوئی بھی یہ سوچ ھی نہیں سکتا تھا کہ میں راولپنڈی کے بجائے لاھور اسٹیشن پر ملوں گا، ان کو بہت ھی حیرانگی ھوئی اور ھماری بیگم تو مجھے دیکھ کر خوشی سے پھولی نہیں سما رھی تھیں، بس میں نے اپنی بیٹی کو گود میں لیا، اور خوب پیار کیا، اور ساتھ ھی اپنے بیٹے کو بھی گلے سے لگایا، وہ کچھ شرما سا رھا تھا، میں پہلے تو بیٹے سے ھی بہت خوش تھا لیکن میری بڑی بیٹی کے آتے ھی میری دنیا ھی بدل گئی، وہ فروری 1984 کا زمانہ تھا، اور اب اسی بیٹی کی رخصتی فروری 2008 میں ھونے والی ھے، !!!!
میں دونوں بچوں میں اتتنا مگن تھا کہ لاھور سے پنڈی کے سفر کا پتہ ھی نہیں چلا اور تیزگام راولپنڈی اسٹیشن پر پہنچ گئی، سردی اچھی خاصی تھی، فوراً ھی سامان سمیٹا اور اسٹیشن سے ٹیکسی لی اور اپنے محلے چوھڑ چوک پہنچ گئے، گھر کے سامنے والی گلی میں ٹیکسی کو رکوایا اور سامان ڈگی سے نکال کر گھر کی طرف چل دئے، سردی کی وجہ سے ھاتھ پیر کانپ رھے تھے گھر پر پہنچتے ھی کمروں کے تمام گیس کے ھیٹر آن کردیئے، کچھ دیر بعد سکون ملا، میں تو اپنی ننھی منی گڑیا کے ساتھ ھی مگن تھا، پڑوس سے گرما گرم کھانا بھی آگیا، کھانا کھا کر جیسے ھی فارغ ھوئے تو آس پاس کے جاننے والوں کا تو تانتا ھی بن گیا، سب فیملیز اور بچے ننھی مہمان کو دیکھنے اور مبارکباد دینے چلے آرھے تھے،!!!!!
میں فوراً ھی کچھ ضرورت کی چیزیں لینے بازار چلا گیا، مگر دل ھی دل میں بیٹی کے بارے میں سوچتا ھی جارھا تھا اور ایک عجیب سی خوشی ھو رھی تھی، پہلے تو ایک بیٹے کا باپ تھا اب تو ایک بیٹی بھی اللٌہ نے دے دی تھی، بس ھر وقت بیٹی کو ھی دیکھتا رھتا تھا، اور خوب اس سے باتیں کرتا، بڑا بیٹا تو کبھی کبھی ناراض بھی ھو جاتا کہ اس پر ابھی کوئی توجہ نہیں دی جارھی، وہ غصہ میں آکر اپنی چھوٹی بہن کو تنگ بھی کرتا تھا، مگر پھر ڈانٹ بھی کھاتا تھا، بچوں میں بھی قدرتی اس وقت حسد کا مادہ پیدا ھوجاتا ھے جب اس کے بجائے زیادہ تر اس سے چھوٹے بچے کی طرف والدین کا رجحان ھوجاتا ھے اور پھر اس کے مزاج میں چڑچڑا پن آجاتا ھے، جس کا ھم اکثر خیال نہیں کرتے، جس سے آگے چل کر اس پچے کے ذہن پر برا اثر پڑسکتا ھے، اور اکثر یہی دیکھا بھی گیا ھے کہ اکثر اسی وجہ سے بہن بھائیوں میں سنجیدگی پائی گئی ھے اور بعض تو ایک دوسرے سے بات بھی کرنا پسند نہیں کرتے، جس کے لئے بہت ھی ضروری ھے کہ ھر بچے کے ساتھ بالکل ایک جیسا ھی سلوک روا رکھا جائے، تاکہ کسی بھی بچے کو آپس میں کوئی تفریق محسوس نہ ھو، مگر یہ تو قدرتی بات ھے کہ گھر میں ننھے مہمان کی خوب آؤ بھگت ھوتی ھے، بہرحال پھر بھی احتیاط ضروری ھے !!!!!!
خیر میں بات کررھا تھا اپنی بڑی بیٹی کی جیسے جیسے وہ بڑی ھوتی گئی، اس سے اور زیادہ لگاؤ اور چاھت بھی بڑھتی گئی، بیٹے کے ساتھ بھی میں اسی طرح کا سلوک رکھتا تھا لیکن وہ بہت ھی شرارت تھا، وہ بھی اپنی بہن سے خوب کھیلتا رھتا اور جب وہ روتی تو پھر ڈانٹ بھی کھاتا تھا، بیٹی جب سمجھدار ھوئی تو اپنی والدہ کے چھوٹے موٹے کام میں ھاتھ بٹانے لگی، بعد میں دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کا مزید اضافہ بھی ھوگیا تھا لیکن بڑی بیٹی کا رکھ رکھاؤ سب سے مختلف تھا، وہ سب کا بہت خیال رکھتی اور ساتھ ھی اسے ھر ایک کی ضرورت کا علم بھی رھتا تھا، چھوٹے بہن بھائیوں کو نہلانا دھلانا، اچھے اچھے کپڑے پہنانا، گھر کی صفائی کا تو وہ خاص خیال رکھتی تھی، بچپن سے ھی ھر چیز کو قرینہ سے رکھتی، جس گھر میں بھی ھم رھے اس گھر کو خوب سجا کر رکھتی تھی، اس کے علاؤہ پڑھائی میں وہ بچپن سے ھی کلاس میں اوٌل پوزیشن لیتی رھی، آج بھی اس نے اسکے تمام انعامات اور شیلڈز کو حفاظت سے شوکیس میں سجا کر رکھے ھوئے ھے، گھر پر اس نے چھوٹے بچوں کیلئے ڈے کیئرسینٹر بھی کھولا ھوا ھے، جہاں تقریباً چھ سات بچوں کی تعلیم اور تربیت کا انتطام ایک کمرے میں کیا ھوا ھے جہاں اس نے بچوں کی تفریح کیلئے مختلف کھلونے اور ایک چھوٹا سا دو بچوں کا جھولا بھی رکھا ھوا ھے، اپنی چھوٹی بہنوں کی مدد سے ان تمام بچوں کی دیکھ بھال بھی کرتی رھی ھے، پانچ سال سے آتے ھوئے گود کے بچے بھی اب بڑے بھی ھوگئے ھیں، ایک ہفتہ پہلے سے ھی اب یہ ڈے کیئر سینٹر بھی ویران ھوگیا ھے، اب تمام آنے والے بچے اپنے اپنے گھروں میں افسردہ بھی ھیں، اور ضد کررھے ھیں کہ ھمیں باجی کے پاس جانا ھے، اسے ھمیشہ سے ھی چھوٹے بچوں سے بہت ھی زیادہ پیار رھا ھے،!!!!!
آج بھی وہ اسی طرح گھر کا بہت خیال رکھتی ھے، میری دوائیوں کے وقت پر مجھے دوائی دیتی ھے، اپنی والدہ کو تو اس نے بالکل ھی آرام دے دیا ھے، وہ بالکل اب والدہ کی ھی طرح ان کے نقش و قدم پر چلتے ھوئے تمام گھر کی صفائی ستھرائی سے لے کر سب کے کپڑے دھونے، کچن میں کھانے پکانے کے ساتھ تمام کچن کی صفائی، برتن دھونے تک سارے کام خود ھی انجام دیتی ھے، ساتھ اپنی چھوٹی بہنوں کی بھی مدد لیتی ھے،اور انہیں ڈانٹتی بھی رھتی ھے، اور سارے کام سکھاتی اور سمجھاتی بھی رھتی ھے کہ اس کے اس گھر سے رخصت ھونے پر کسی کو بھی کوئی پریشانی نہ ھو، اور گھر کا تمام سودا لانے اور اس کا حساب کتاب رکھنے میں خاص طور سے اپنی والدہ کی مدد بھی کرتی ھے، اور میں اپنی بیٹی کی کیا تعریف کروں کچھ سمجھ میں نہیں آرھا، اس میں یہ تمام خوبیاں زیادہ تر اس کی والدہ کی ھی بہترین تربیت کا نتیجہ ھیں، اور اللٌہ کی دین ھے، اس کے علاوہ وہ باقائدہ نماز اور روزے کی پابند بھی ھے اور ساتھ ھی ھر سال گھر میں رمضان کے بابرکت مہینے میں آخری عشرے میں اعتکاف میں بھی بیٹھتی ھے، اور اب تک مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ جانے کے لئے تمام پروگرام بھی وہ خود ھی ترتیب دیتی رھی ھے،!!!!!!!!!
یہ سوچتے ھی کلیجہ منہ کو آجاتا ھے کہ کچھ دنوں بعد وہ اس گھر سے رخصت ھو جائے گی، آنکھوں میں آنسو آجاتے ھیں، والدین کتنے ارمانوں سے اپنی بیٹیوں کی پرورش کرتے ھیں ساتھ بیٹوں کی بھی تربیت میں کسر نہیں چھوڑتے، لیکن بیٹیوں کے لئے تو خاص طور سے خیال رکھا جاتا ھے، اس کی تعلم و تربیت اور گھر کے تمام کام کاج کے علاؤہ رکھ رکھاؤ ھر طریقے سے بہتر سے بہتر کرتے ھیں، وہ صرف اس لئے کہ جب وہ دوسرے گھر جائے تو کسی بھی اچھی تربیت کی کمی نہ رہ جائے، اور وہاں پر ان کی بیٹی کی واہ واہ ھو اور وہ اتنے خوش ھوں کہ اسے وھاں پر بھی اسکے تمام سسرال والے اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں سے بھی بڑھ کر اسے پیار دیں،!!!!
اللٌہ تعالیٰ سے بس یہی دعاء کرتا ھوں کہ ھر بہن اور بیٹی کو اسکے اپنے گھر یعنی سسرال میں اتنی زیادہ محبت ملے کہ وہ اپنے میکے کی چاھت کو ھی بھول جائے، آمین،!!!!
Abdul Rehman Syed,
http://www.armansyed.amisun.pk/
Comment