اس کے بال بکھرگئے
تفسیراحمد
میں فرنٹ آفس میں داخل ہوا۔
آفس میں داخل ہوکر میں نے اپنےاسکیجول پرنگاہ ڈالی۔ اگلی کلاس آدھا گھنٹے بعد اسی فلور پر پڑھانا تھی۔ میں نےاندازہ لگایا، دس منٹ کلاس روم تک پہنچنے کے، دس منٹ نوٹس اور لیکچر کے کاغذات کواکٹھے کرنے کے۔ میرے پاس اس لڑکی کے لیےصرف دس منٹ بچتے تھے۔
دروزاہ کھلا اور وہ خاموشی سےآ کر ڈیسک کے قریب کھڑی ہوگی۔ وہ چھوٹے قد کی ایک قبول صورت لڑکی تھی ۔جس کے کمر تک کالےلمبے بال ایک ربر بینڈ کی مدد سے پونی ٹیل بنے ہوئے تھے۔
اس نےایک پرچہ میرے سامنے رکھ دیا۔
اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے ۔وہ خاموشی سے مڑی اور دروازہ کھول کر کمرے سے باہرنکل گئی۔
میں نےاپنے پڑھانے کے کاغذات جمع کر کے بریف کیس میں رکھےاور آنکھ بند کرکے آرام کرنےلگا۔ جب میں نے آنکھ کھولی توگھڑی کےمطابق اب میرے پاس دس منٹ رہ گئےتھے۔ میں ڈسیک پر رکھے ہوئے پرچے کو بھول چکا تھا۔
دروازہ کی طرف بڑھتے ہوے مجھےخیال آیا کہ وہ لڑکی باہر بیٹھی ہوگی۔ایک سیکنڈ کے لیےمیں نےسوچا کہ بازو کےدروازے سےنکل جاؤں وہ دیکھ نہ پائےگی۔ مگرشرم محسوس ہوئ ۔ میں نے پرچے کواُٹھایا اورصوفے پربیٹھ کر پڑھنا شروع کیا۔
کچھ عرصہ گزرا اور ایک میچ ملانے والی ہمارےگھرآئیں۔ انہوں نےماں کو بتایا کہ ایک عزت دار اور مالدارگھرانا اپنے لڑکے کے لیے ایک قبول صورت ،گھریلو، کم پڑھی لکھی لڑکی کی تلاش میں ہے ۔ تمہاری لڑکی ایسی ہی ہے۔ لڑکا ماشا اللہ خوبصورت ہے اور جلد ہی تعلیم ختم کر کے باپ کے ساتھ بزنس میں شرکت کرے گا۔ ماں نےمجھ سے پوچھا۔ میں نےماں سے کہا میں ابھی شادی نہیں کروں گی۔ میں کالج کی تعلیم مکمل کرنا چاہتی ہوں۔
میں اُچھل کر کھڑا ہوگیا۔
وہ فرنٹ آفس میں نہیں تھی ۔
لفٹ کےقریب کوئ نہیں تھا۔ سیدھے ہاتھ پردوسری منزل کا بیس فٹ چوڑا کھلا برآمدہ تھا۔میں اس طرف دوڑا۔ وہ برآمدہ کی تین فٹ دیوار پر کھڑی تھی۔
دیوار کے پاس پہنچ کر میں نے نیچے دیکھا۔ وہ منہ کے بل زمیں پرتھی اس کی بانہیں دونوں طرف اُڑتے پرندے کی طرح پھیلی ہوئ تھیں۔ اس کے لمبے بال بکھرگے اور بالوں نےاُسکے اوپری جسم کو ڈھانپ لیا ۔
سامنے کے درخت پر ایک چیل نے چیغ ماری اور محو پرواز ہوئ ۔
میرا دل چیغا ۔ مگرمیری زبان نےساتھ نہ دیا۔
میرے دل رویا۔ مگر میری آنکھوں نےانکار کردیا۔
صرف ہاتھوں نےساتھ دیا وہ فضا میں بلند ہوئےاور میں اپنا سر پکڑ کرفرش پر بیٹھ گیا۔
Comment