سکول
اُس نے دوازے سے داخل ہوتے ہی اُونچی آواز میں پکارا Good Morning میں نے جواب میں کہا How are You?
اور مائیکل نے چیختے ہوئے کہا Very Fired وجہ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ سکول نے تھکا دیا ہے۔میں نے حیرانگی سے پوچھا اس عمر میں سکول؟ میں نے حیرانگی سے پوچھا تو اُس نے ہاں میں سر ہلایا۔میں نے پوچھا کہ کیا بننا چاہتے ہو؟۔۔۔۔اس نے وضاحت کرت ہوئے کہا کہ ٹرک ڈرائیور۔میں نے حیرت سے پوچھا تو اس میں کیا مشکل کام ہے؟ ۔۔اس نے جواب دینا مناسب نہیں سمجھا اور اپنا سامان اُٹھاتے ہوئے باہر کی راہ لی۔۔۔اس کے جانے کے بعد میں نے سوچا کہ یہ ایک طرف سے امریکہ کا مائیکل ہے جو ٹرک ڈرائیور بننے کے لیے بھی سکول کو لازمی سمجھتا ہے۔اور دوسری طرف ہمارے پاکستان کے ساجے اور گامے سکول کے رستے میں ہی ٹرین کی پٹری پر بیٹھ کر سگریٹ کو ترجیح دیتے ہیں اور بغیر سکول کے ٹرک اور رکشہ ڈرائیور بن جاتے ہیں۔لیکن ان دونوں میں اگر فرق ہے تو ان کی سوچ کا فرق ہے تو ملک کے لیے کچھ کر جانے کا۔لیکن بدقسمتی سے ہماری آج کی نوجوان نسل سوئی ہوئی ہے۔اور ان جیسے کئی مائیکل امریکہ کو ترقی کے جانب لے جا رہے ہیں۔اور ہمارے کئی ساجھے اور ماجھے پیارے پاکستان کو ڈوبونے پر تُلے ہوئے ہیں۔اور اگر ہر ساجھا اور ماجھا مائیکل بن جائے تو پاکستان کی بھی چیز کے لیے کسی کا محتاج نہیں رہے گا۔
پاکستان میں زیادہ تر طالبعلم پیسے نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم کو خیر آباد کہہ دیتے ہیں اپنے کھیتوں میں کام کرنا شروع کردیتے ہیں یا پھر ٹرک ڈرائیور بن جاتے ہیں۔ جب کے دوسری جانب امریکہ میں جو تعلیم کا خرچہ برداشت نہیں کر سکتا حکومت اس کے مدد کرتی ہے اور دوسری بات یہ کہ امریکہ کا ہر شہری تعلیم کو اپنی لازمی اور زندگی کا حصہ سمجھتا ہے چاہے اسے ٹرک ڈرائیور ہی کیوں نہ بننا ہو۔میری دُعا ہے کہ پاکستان کا ہر بچہ تعلیم حاصل کرے۔اور علامہ محمد اقبال کے اس مصرعے پر پورا اُترے۔۔ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔
اور آخر میں حضرت سلطان باہو کے شعر سے اجازت چاہوں گا۔
مُرشد مکّہ طالب حاجی کعبہ عشق بنایا ہُو
وچ حضور سدا ہی ویلے کرئیں حج سدا یا ہُو
NOTORIOUS GUJJAR
اور مائیکل نے چیختے ہوئے کہا Very Fired وجہ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ سکول نے تھکا دیا ہے۔میں نے حیرانگی سے پوچھا اس عمر میں سکول؟ میں نے حیرانگی سے پوچھا تو اُس نے ہاں میں سر ہلایا۔میں نے پوچھا کہ کیا بننا چاہتے ہو؟۔۔۔۔اس نے وضاحت کرت ہوئے کہا کہ ٹرک ڈرائیور۔میں نے حیرت سے پوچھا تو اس میں کیا مشکل کام ہے؟ ۔۔اس نے جواب دینا مناسب نہیں سمجھا اور اپنا سامان اُٹھاتے ہوئے باہر کی راہ لی۔۔۔اس کے جانے کے بعد میں نے سوچا کہ یہ ایک طرف سے امریکہ کا مائیکل ہے جو ٹرک ڈرائیور بننے کے لیے بھی سکول کو لازمی سمجھتا ہے۔اور دوسری طرف ہمارے پاکستان کے ساجے اور گامے سکول کے رستے میں ہی ٹرین کی پٹری پر بیٹھ کر سگریٹ کو ترجیح دیتے ہیں اور بغیر سکول کے ٹرک اور رکشہ ڈرائیور بن جاتے ہیں۔لیکن ان دونوں میں اگر فرق ہے تو ان کی سوچ کا فرق ہے تو ملک کے لیے کچھ کر جانے کا۔لیکن بدقسمتی سے ہماری آج کی نوجوان نسل سوئی ہوئی ہے۔اور ان جیسے کئی مائیکل امریکہ کو ترقی کے جانب لے جا رہے ہیں۔اور ہمارے کئی ساجھے اور ماجھے پیارے پاکستان کو ڈوبونے پر تُلے ہوئے ہیں۔اور اگر ہر ساجھا اور ماجھا مائیکل بن جائے تو پاکستان کی بھی چیز کے لیے کسی کا محتاج نہیں رہے گا۔
پاکستان میں زیادہ تر طالبعلم پیسے نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم کو خیر آباد کہہ دیتے ہیں اپنے کھیتوں میں کام کرنا شروع کردیتے ہیں یا پھر ٹرک ڈرائیور بن جاتے ہیں۔ جب کے دوسری جانب امریکہ میں جو تعلیم کا خرچہ برداشت نہیں کر سکتا حکومت اس کے مدد کرتی ہے اور دوسری بات یہ کہ امریکہ کا ہر شہری تعلیم کو اپنی لازمی اور زندگی کا حصہ سمجھتا ہے چاہے اسے ٹرک ڈرائیور ہی کیوں نہ بننا ہو۔میری دُعا ہے کہ پاکستان کا ہر بچہ تعلیم حاصل کرے۔اور علامہ محمد اقبال کے اس مصرعے پر پورا اُترے۔۔ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔
اور آخر میں حضرت سلطان باہو کے شعر سے اجازت چاہوں گا۔
مُرشد مکّہ طالب حاجی کعبہ عشق بنایا ہُو
وچ حضور سدا ہی ویلے کرئیں حج سدا یا ہُو
NOTORIOUS GUJJAR
Comment