خواب محرومیوں کو جگاتے ہیں ، میری آرزویں اب تمہارے نام سے منسوب ہیں۔ رات کے آخری پہر کسی دوسرے کے موجود نہ ہونے پر ہم کتنے ملول ہو جاتے ہیں۔ ہر صبح ، میں تمہیں رات کی کہانی سناتا ہوں، آج ہماری محبت اپنا پہلا سال مکمل کرچکی ہے۔
ہم ایک دوسرے کو جتنا جان چکے ہیں، اس کے لیے صدیوں کا جنم بھی ناکافی تھا ، رات اور دن کے درمیان گزرتا وقت ان لمحوں کو یادگار بنا رہا ہے، جب ہم شام کے کناروں پر ملتے تھے۔
جب ہم ایک دوسرے سے سامنے ہوتے ہیں، بہت سے سوالوں کے ساتھ
تو انجام سے بے خبر ہوتے ہیں ، مگر محبت انجام سے وابستہ نہیں ، اور رقص کے درمیان جب ہم گیت گاتے ہیں اور خوشیوں کو اپنے اندر اترتا ہو ا محسوس کرتے ہیں، تو جدائی کی گھڑی آجاتی ہے۔
ہر بار ملنے اور جدا ہونے کے بعد گزری یادوں کی قندیلیں ،ہماری اندھری راتوں کو اجالوں سے بھر دیتی ہیں۔ جب ہم بھیگ جاتے ہیں تو موسم بدلنے سے پہلے رات کی پیاس کو اپنے اندر دور تک جذب کر لیتے ہیں، تاکہ ادھورے پن کی ہر خواہش بے نام ہو جائے۔
لوگوں کے درمیان، تمہارا چہرہ کبھی گم نہیں ہوتا۔
اجنبی آوازوں کے درمیان تمہاری آواز ایک گیت کی طرح سنائی دیتی ہے،
ہم اپنی ادھوری خواہشوں کو دعا کی صورت ساحل پر لکھ دیتے ہیں
میں نے اپنی ایک نظم میں لکھا تھا
“ہم ایک ایسی کہانی میں موجود ہیں جو لکھی نہیں جا سکتی”
Author:unknown
Comment