میں عجیب شش وپنج میں مبتلا تھا.بڑے بڑے لوگوں کے فون آچکے تھے کہ صبح ہونے والی پیشی میں مجھے مجرم کو ہر حال میں باعزت بری کرنا ہے. عینی شاہدین اور تمام تر ثبوت کے ہوتے ہوئے ایک مجرم کو سزا نہ دینا میرے نزدیک ناقابل معافی جرم ہے. لیکن ایک طرف میری نوکری اور اہل و عیال اور دوسری طرف انصاف۔ میری بے چینی عروج پر تھی. ملک کی اعلٰی عدالت کا جج ہونا کوئی آسان بات نہیں. آدھی رات کے بعد بھی نیند مجھ سے کوسوں دور تھی. میں اٹھا اور میز کی دراز سے نیند کی گولیاں تلاش کرنے لگا. اچانک میری آنکھوں کے سامنے ایک سو روپے کا نوٹ گردش کرنے لگا اور مجھے میرے لڑکپن میں لے گیا. ٭--٭ ..علی اعتماد سے چلتے ہوئے تختہ سیاہ تک آیا اور اس نے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں ریاضی کا ایک پیچیدہ سوال حل کر لیا. سر طاہر نے علی کو خوب شاباش دی. "لیکن سر!" میں نے تھوڑا ڈرتے ڈرتے کہا.یہ جماعت ہفتم تھی اور میرا شمار اوسط درجے کے طلبہ میں ہوتا تھا. جبکہ علی ہر سال اول آتاتھا. اس لیے میں تھوڑا گبھرا سا گیا تھا. "جی اسامہ آپ نے کچھ کہنا ہے؟" سر نے اطمینان سے پوچھا تو میرا حوصلہ بڑھا. "جی سر ! علی نے سوال میں غلطی کی ہے تیسری لائن میں. اس لیے جواب بھی شاید غلط ہے۔" سر نے ایک نظر بورڈ پر ڈالی اور باقی طلبہ سے مخاطب ہوئے،ک"یوں بھئی بچو! آپ کو کوئی غلطی نظر آرہی ہے؟" تمام طلبہ نے نفی میں سر ہلا دیا. نہ جانےاس کی وجہ یہ تھی کہ علی کلاس کا ہونہار طالب علم تھا یا جواب میں واقعی کوئی غلطی نہ تھی." اور علی آپ! آپ کیا کہتے ہیں." سر نے رخ علی کی طرف کرتے ہوئے کہا" سرمیں نے سوال بالکل ٹھیک حل کیا ہے." علی کے پر اعتماد لہجے سے میرا دل بھی ڈگمگانے لگا. اب سر سوالیہ نظروں سے میری جانب دیکھ رہے تھے. "جی اسامہ اب آپ کا کیا خیال ہے؟" سر نے مجھے بغور دیکھتے ہوئے پوچھا .میں نے ایک لمحے میں دوبارہ جائزہ لیا تو اسی نتیجے پر پہنچا کہ غلطی موجود ہے." سر تیسری لائن میں غلطی موجود ہے.آپ غور سے دیکھیں." لیکن سر نے بورڈ کی طرف بالکل نہ دیکھا بلکہ مجھ سے کہنے لگے ، "ٹھیک ہے بیٹا آپ آکرغلطی درست کر لیں." میں اٹھا اور بورڈ کی طرف بڑھا. واضح طور پر میں نے محسوس کیا کہ میرے ہاتھ پاؤں میں لرزش تھی. خواہ مخواہ میں نے غلطی کا بتایا، اگر میں ہی غلط ہوا تو کتنی سبکی ہوگی. ایسی سوچوں سے میرا دماغ اَٹ گیا بہرحال میں نے اپنی دانست میں غلطی درست کر دی اور اپنی سیٹ پر آکر بیٹھ گیا. دفعتاً سر طاہر اٹھے اور میری سیٹ تک آئے . میں ادب سے کھڑا ہوگیا۔ فوراً ہی انہوں نے جیب سے سو روپے کا ایک نوٹ نکالا اور میرے ہاتھ میں تھما دیا. میں کیا! تمام طالب علم ہکا بکا رہ گئے. سر نے میرے شانے پر تھپکی دیتے ہوئے کہا: "یہ سو روپے میری طرف سے انعام ہیں.اس بات پر نہیں کہ آپ نے غلطی درست کر دی بلکہ اس بات پر کہ آپ ہر کسی کی مخالفت کے باوجود حق پر ثابت قدم رہے." ان کی اس بات سے مجھے اپنے دل میں ہمت اور حوصلے کا ایک دریا ٹھاٹھیں مارتا محسوس ہونے لگا.. ٭--٭ لمحوں میں فیصلہ ہوگیا تھا.میرا دل سکون اور اطمینان سے بھر گیا. ایک دلکش مسکراہٹ میرے لبوں پر بکھر گئی. میرے تنے ہوئے اعصاب نارمل ہو گئے .اس مشکل گھڑی میں حق پر ثابت قدم رکھنے کے لیے مجھے اللہ کا شکر ادا کرنا تھا.میں رب کے حضور سجدہ ریز ہونے کے لیے ٹھنڈے ٹھنڈے پانی سے وضو کرنے چل پڑا. اور میرے دل و دماغ میں اقبال کا یہ شعر گونجنے لگا.. اگر چہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں مجھے ہے حکمِ اذاں۔ لا الہ الا اللہ ~ اموز قرنی
Announcement
Collapse
No announcement yet.
Unconfigured Ad Widget
Collapse
مجھے ہے حکمِ اذاں ۔
Collapse
X
Comment