Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

Hazrat Bulle Shah ki urdu shaeri

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Hazrat Bulle Shah ki urdu shaeri


    حضرت بلھے شاہ قصوری کی اردو شاعری

    محبوب عالم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قصور

    قصور جہاں اپنی قدامت اور مخصوص ثقافت کے حوالہ سے اپنی پہچان رکھتا ہے وہاں اپنی الگ سے تاریخی حثیت بھی رکھتا ہے۔ شہزادہ کسو‘ امیر خسرو‘ اخوند سعید‘ راجہ ٹوڈر‘ مل شہزادہ سلیم عرف شیخو وغیرہ کی اس شہر سے نسبت رہی ہے۔ استاد امانت علی اور نور جہاں کو کیوں کر فراموش کیا جا سکے گا۔ کھانے کے شوقین حضرات کے لیے اندرسے‘ قصوری میتھی‘ فالودہ خاص دل چسپی کا سامان ہیں۔ لو قصوری جتی کو تو میں بھول ہی رہا تھا۔
    ان تمام چیزوں سے ہٹ کر‘ وراث شاہ اور بلھے شاہ تو ادبی دنیا میں کسی بھی سطح پر فراموش نہیں کیے جا سکتے۔ ان ادبی شخصیتوں سے تحقیقی حوالہ سے وابستہ لوگ بھی کبھی فراموش نہ کیے جا سکیں گے۔ قصور کی ادب روایت کم زور نہیں یہ الگ بات ہے کہ اس جانب کسی کی خصوصی توجہ نہیں گئی۔ ایک سے ایک بڑھ کر علمی اور ادبی شخصیات پڑی ہیں۔
    قصور حضرت بلھے شاہ قصوری کی وجہ سے دنیا بھر میں شہرت رکھتا ہے۔ صوفیا اور بھی ہیں لیکن حضرت بلھے شاہ قصوری اپنے صوفیانہ کلام کی وجہ سے معروف ہیں۔ انھوں نے اپنے کلام میں جہاں صوفیانہ معاملات کو پیش کیا ہے وہاں سماجی امور کو بھی نظرانداز نہیں کیا۔ سماجی رویوں کی بھی عکاسی کی ہے۔ عصری سیاسی قوتوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کا کلام علامتوں استعاروں کے ذریعے ہی سہی اپنے عہد کی عکاسی کرتا ہے۔ بعض جگہ کھل کر بھی تنقید کرتے ہیں۔ غالبا یہی وجہ رہی ہو گی کہ ان کے عہد کے مخصوص طبقے ان سے نالاں تھے۔
    حضرت شاہ حسین لاہوری نے پنجابی شاعری میں کافی کو متعارف کرایا اور اسے عروج دیا۔ ان کی کافیاں راگ پر لکھی گئیں۔ ہر کافی کسی نہ کسی راگ پر ہے۔ حضرت شاہ حسین لاہوری نے کافی کو جو مقام بخشا اسے حضرت بلھے شاہ قصوری شہرت کی بلندیوں پر لے گیے۔ ان کی کافیاں راگ کے علاوہ مروجہ میٹر پر ہیں۔ ان میں غنائیت کا عنصر بدرجہ اتم موجود ہے۔ حضرت بلھے شاہ قصوری کی کافیوں کو ملک کے ممتاز گلوکاروں نے گا کر شہرت اور عزت حاصل کی۔ عابدہ پروین‘ حامد علی بیلا‘ نصرت فتح علی خاں‘ پٹھانے خاں وغیرہ ان میں شامل ہیں۔ یہاں تک کہ بھارتی گلوکاروں نے بھی ان کی کافیوں کو شوق اور عقیدت سے گایا ہے۔ بعض بول تو عوامی سطح پر محاورے کا درجہ اختیار کر گیے ہیں۔
    ڈاکٹر فقیر محمد فقیر نے بڑی محنت‘ لگن اور دیانت داری سے ان کا کلام اکھٹا کیا اور اسے کلیات کی شکل دے کر زبان و ادب پر بہت بڑا احسان کیا۔ بلاشبہ ان کی کوشش عوامی سطح پر مقبولیت کے درجے پر فائز ہوئی۔ اسے آج بھی اساسی ماخذ کا درجہ حاصل ہے۔ باباجی مقصود حسنی کے خصوصی مطالعہ میں حضرت بلھے شاہ قصوری رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے مقالہ۔۔۔۔۔بلھے شاہ کی شاعری کا لسانی مطالعہ۔۔۔۔ میں ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کے مرتب کردہ کلیات کو ہی اساسی ماخذ کے طور پر استعمال کیا ہے۔
    باباجی مقصود حسنی نے اس لسانیاتی مطالعے سے یہ بات واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ پنجابی کلام میں حضرت بلھے شاہ قصوری کے اردو کلام کو بھی شامل کر دیا گیا ہے۔ ان کے اس مطالعے سے حافظ شیرانی کے نظریے۔۔۔۔ پنجاب میں اردو۔۔۔۔ کو تقویت ملتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ باباجی مقصود حسنی اس نظریے سے قطعی متفق نہیں۔ اردو کے حوالہ سے ان کا اپنا الگ سے نقطہءنظر ہے۔ انھوں نے ۔۔۔۔۔اردو ہے جس کا نام۔۔۔۔۔ میں اپنا نظریہ پیش کر دیا ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے حضرت بلھے شاہ قصوری کے کلام میں اردو شاعری کی نشاندہی کی تھی۔ باباجی مقصود حسنی نے اسے عملی شکل دے کر اردو والوں کو خوشخبری کا سندیسہ دیا ہے۔
    انھوں نے اپنے اس لسانیاتی مطالعہ میں اس کی پانچ صورتیں بتائی ہیں۔
    ١
    - مکمل اردو کلام
    ٢
    - پنجابی کلام میں اردو کلام کی آمیزش
    ٣
    - ہندی نما اردو کلام
    ٤
    - پنجابی کلام میں اردو مصرعے
    ٥
    - ا اردو نما پنجابی کلام
    ب مکمل پنجابی کلام
    ڈاکٹر ریاض شاہد نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں باباجی کے مقالے کو بنیادی ماخذ کے طور پر استعمال کیا ہے اور ان کے موقف کو دہرایا ہے۔

    باباجی نے اپنے اس تحقیقی کام کو بڑی باریک بینی سے انجام دیا ہے۔ سارے کلام کو الگ الگ جزیات میں تقسیم کرکے دیکھنا واقعی بڑے دل گردے اور محنت کا کام ہے۔ ان کی اس محنت کو قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا تاہم اس تحقیقی کاوش کو اس کا جائز مقام حاصل نہیں ہو سکا۔ شاید اس کی وجہ بھی ہے کہ وہ اشتہاربازی نہیں کرتے۔ ایک کام کی تکمیل کے بعد کسی دوسرے کام میں جھٹ جاتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد امین کا کہنا ہے
    یہ پہلی کتاب ہے جس میں کسی کا باقاعدہ ساجتیاتی مطالعہ کیا گیا ہے۔
    اردو شعر فکری و لسانی رویے ص: ١١٥
    انھوں نے اپنے اس مطالعے کو سات حصوں میں تقسیم کیا ہے
    ١
    - مذکر اسما کے خاتمے کی آواز
    اردو میں جمع بنانے کے اصول
    فعلی صورتیں
    حاصل مصدر بنانے کے اصول
    فعلی مادوں کے مختلف اصول
    یو اور ئیو کا لاحقہ چند مخصوص مرکبات
    ضمائر کا استعمال
    ٢
    - اسم صفت
    حروف
    حروف عطف‘ حروف اضافت‘ حرف استفہام‘ حرف استثنی‘ حرف شرط‘ حروف جار‘ حروف تردید
    ٣
    - آوازوں کا ہیر پھیر
    نوں غنہ کا حشوی استعمال
    نوں غنہ کا حذف
    قدیم اردو املا
    تلمیحات
    لفظوں کے نئے روپ
    چند اردو مصادر
    ٤
    - قدیم اردو پر مقامی زبانوں کی چھاپ
    ٥
    - تجزیاتی مطالعہ
    ٦
    - چند الفاظ
    ٧
    - اردو کلام
    جو کتاب میں شامل نہیں‘ باباجی کے پاس مسودے کی صورت میں موجود ہے۔
    باباجی نے اپنے موقف کی تائید میں اردو جدید و قدیم کلام سے مثالیں پیش کی ہیں ساتھ حضرت بلھے شاہ قصوری کے کلام سے بھی مثالیں دی ہیں۔ اس طرح ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ پنجابی کلام میں اردو کلام بھی شامل ہے۔
    انھوں نے اس مطالعے کے لیے بائیس کتب سے استفادہ کیا ہے۔
Working...
X