ہم اپنے اللہ کے سامنے کیاپیش کریں۔ نامہ اعمال تو پیش کرنے کے قابل نہ رہا، دفترِ عمل میں کیا دھرا ہے۔ رہی عبادت۔ منظور ہو کہ نہ ہو، کیا کہہ سکتے ہیں ۔۔۔۔ ابلیس کی کروڑوں سال کی عبادت ایک انکار سے رائیگاں ہو گئی ۔۔۔۔۔ ہم تو کتنے احکامات سے روگردانیاں کرتے ہیں، من مانیاں کرتے ہیں، ہم نادان انسان کیا پیش کریں ۔۔۔۔۔۔ ٹوٹے ہوئے دل اور بہتے ہوئے اشکوں کے ساتھ ہم اس کے سامنے سربسجود ہیں کہ اے اللہ ! یہ حقیر سرمایہ ہی ہم اس زندگی سے حاصل کر سکے ہیں۔ یہ ندامت اور شرمساری کے نذرانے تیرے سامنے حاضر ہیں ۔۔۔۔۔ قبول فرما ۔۔۔۔۔۔ اپنی بارگاہِ بے نیازی میں۔ اپنی شانِ غفاری دکھا اور عطا کر ہمیں اسلاف کا سوزِدروں اور جذبہ صداقت۔ ہماری التجا اور فریاد اور مدعا صرف یہی ہے کہ ہمارے ان موتیوں کو اپنی شانِ کریمی کی تابعداری عطا فرما ۔۔۔۔۔ تو جانتا ہے کہ ہم بے کس و بے بس ہیں ۔۔۔۔۔۔ تیرے حبیب کے نام لیوا ہیں اور ہماری بساط کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ قبول فرما لے مولا، ہماری فریاد جو صرف آنسوؤں کی زبان میں ہم بیان کرتے ہیں۔ تو اور تو ہی ہمارا آخری سہارا ہے ۔۔۔۔۔۔ تو قبول کر لے تو یہ موتی انمول ہیں۔ تجھے موتی پسند ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ہم تیری بارگاہ میں یہ موتی پیش کرتے ہیں۔ تجھے دُرِیتیم اور دُرِنجف کا واسطہ، ہمارے موتی قبول فرما !
واصف علی واصف "قطرہ قطرہ قلزم" سے ایک اقتباس
Comment