ہندوستان کے وزیر اعظم "نہرو "کے نام "منٹو کے خط سے انتخاب ""
پنڈت جی
یہ میرا پہلا خط ہے جو میں آپ کی خدمت میں ارسال کر رہا ہوں ۔’’آپ ماشاء اللہ امریکیوں میں بڑے حسین تصور کئے جاتے ہیں لیکن میں کہتا ہوں کہ میرے خد و خال کچھ ایسے برے نہیں کہ اگر میں امریکہ جائوں تو شاید مجھے بھی حسن کا رتبہ عطا ہو جائے گا لیکن آپ ہندوستان کے وزیر اعظم ہیں اور میں پاکستان کا عظیم افسانہ نگار ۔
آپ نے ہمارے دریائوں کا پانی بند کردیا۔ آپ کی دیکھا دیکھی آپ کی راج دھانی کے پبلشرز نے میری رائیلٹی بند کردی اور مجھ سے پوچھے بنا دھڑا دھڑ میری کتابیں خود ہی چھاپے جا رہے ہیں۔ یہ بھی کوئی شرافت ہے۔‘‘
میں تو یہ سمجھتا تھا کہ آپ کی وزارت میں بے ہودہ حرکت ہو ہی نہیں سکتی مگر آپ کو فورا معلوم ہو سکتا ہے کہ دہلی لکھنو اور جالندھر میں کتنے پبلشروں نے میری کتابیں جائز طور پر چھاپی ہیں ۔ فحش نگاری کے الزام میں مجھ پر کئی مقدمے چل چکے ہیں مگر یہ کتنی بڑی زیادتی ہے کہ دلی میں آپ کی ناک کے عین نیچے وہاں کا ایک پبلشر میرے افسانوں کا مجموعہ’’ منٹو کے فحش افسانے‘‘ کے نام سے چھاپتا ہے ۔ میں نے کتاب’’گنجے فرشتے‘‘ لکھی اس کو آپ کے بھارت کے پبلشر نے ’’پردے کے پیچھے‘‘ کے عنوان سے شائع کر دیا ۔
"آرہاہوں آپ کے پاس"
میں نے یہ نئی کتاب لکھی ہے اس کا دیباچہ یہی خط ہے جو میں نے آپ کے نام لکھا ہے ۔ اگر یہ کتاب بھی آپ کے یہاں نا جائز طور پر چھپ گئی تو خدا کی قسم میں کسی نہ کسی دن دلی پہنچ کر آپ کو گریباں سے پکڑ لوں گا پھر چھوڑوں گا نہیں آپ کو ۔آپ کے ساتھ ایسا چمٹوں گا کہ آپ ساری عمر یاد رکھیں گے ۔ ہر روز صبح آپ سے کہوں گا کہ نمکین چائے پلائیں ، ساتھ ایک کلچہ ہو ، شلجموں کی شب دیگ تو خیر ہر ہفتے کے بعد ضرور ہو گی ۔ یہ کتاب چھپ جائے تو اس کا نسخہ آپ کو بھیجوں گا ۔ امید ہے کہ آپ اس کی رسید سے مجھ کو ضرور آگاہ کریں گے
دستخط
سعادت حسن منٹو
27اگست 1954
پنڈت جی
یہ میرا پہلا خط ہے جو میں آپ کی خدمت میں ارسال کر رہا ہوں ۔’’آپ ماشاء اللہ امریکیوں میں بڑے حسین تصور کئے جاتے ہیں لیکن میں کہتا ہوں کہ میرے خد و خال کچھ ایسے برے نہیں کہ اگر میں امریکہ جائوں تو شاید مجھے بھی حسن کا رتبہ عطا ہو جائے گا لیکن آپ ہندوستان کے وزیر اعظم ہیں اور میں پاکستان کا عظیم افسانہ نگار ۔
آپ نے ہمارے دریائوں کا پانی بند کردیا۔ آپ کی دیکھا دیکھی آپ کی راج دھانی کے پبلشرز نے میری رائیلٹی بند کردی اور مجھ سے پوچھے بنا دھڑا دھڑ میری کتابیں خود ہی چھاپے جا رہے ہیں۔ یہ بھی کوئی شرافت ہے۔‘‘
میں تو یہ سمجھتا تھا کہ آپ کی وزارت میں بے ہودہ حرکت ہو ہی نہیں سکتی مگر آپ کو فورا معلوم ہو سکتا ہے کہ دہلی لکھنو اور جالندھر میں کتنے پبلشروں نے میری کتابیں جائز طور پر چھاپی ہیں ۔ فحش نگاری کے الزام میں مجھ پر کئی مقدمے چل چکے ہیں مگر یہ کتنی بڑی زیادتی ہے کہ دلی میں آپ کی ناک کے عین نیچے وہاں کا ایک پبلشر میرے افسانوں کا مجموعہ’’ منٹو کے فحش افسانے‘‘ کے نام سے چھاپتا ہے ۔ میں نے کتاب’’گنجے فرشتے‘‘ لکھی اس کو آپ کے بھارت کے پبلشر نے ’’پردے کے پیچھے‘‘ کے عنوان سے شائع کر دیا ۔
"آرہاہوں آپ کے پاس"
میں نے یہ نئی کتاب لکھی ہے اس کا دیباچہ یہی خط ہے جو میں نے آپ کے نام لکھا ہے ۔ اگر یہ کتاب بھی آپ کے یہاں نا جائز طور پر چھپ گئی تو خدا کی قسم میں کسی نہ کسی دن دلی پہنچ کر آپ کو گریباں سے پکڑ لوں گا پھر چھوڑوں گا نہیں آپ کو ۔آپ کے ساتھ ایسا چمٹوں گا کہ آپ ساری عمر یاد رکھیں گے ۔ ہر روز صبح آپ سے کہوں گا کہ نمکین چائے پلائیں ، ساتھ ایک کلچہ ہو ، شلجموں کی شب دیگ تو خیر ہر ہفتے کے بعد ضرور ہو گی ۔ یہ کتاب چھپ جائے تو اس کا نسخہ آپ کو بھیجوں گا ۔ امید ہے کہ آپ اس کی رسید سے مجھ کو ضرور آگاہ کریں گے
دستخط
سعادت حسن منٹو
27اگست 1954
Comment