محبت سے دیکھو تو
گلاب میں رنگ ملے گا، خوشبو ملے گی،
اور
نفرت سے دیکھو تو
خار نگاہوں میں کھٹکیں گے۔...!!!.
ایک دفعہ ایک شخص زندگی کی نا مناسب مصروفیات سے یک لخت تائب ہو گیا۔ اس کے دوستوں نے پوچھا:" بھائی، تم کل تک رنگیلے تھے، آج کیا ہوا؟"
وہ بولا: "میں عجیب حال میں پہنچ گا ہوں۔ ہر وقت میری آنکھوں کے سامنے میری بیٹی کا چہرہ رہتا ہے۔ میری ناپاک نگاہوں کو میری بیٹی نے پاک بنا دیا ہے۔"
سطح پر تیرنے والے کے حصے میں فقط جھاگ اور خس و خاشاک آتا ہے جبکہ گہرائی میں اترنے والے کے نصیب میں موتی
زندگی کو سطحی طور پر برتنے والے کو بس روز مرہ کی زندگی کے خس و خاشاک سے ہی حصہ ملتا ہے
البتہ جو زندگی کو گہرائی میں اتر کر دیکھےتو حیات کا اصل حسن اور کائنات کے سر بستہ راز اس پر آشکار ہوجاتے ہیں۔
کشتی جب ہچکولے کھا رہی ہو تو اللہ کی رحمت کو پکارا جاتا ہے اور جب کشتی کنارے لگ جاتی ہے تو اپنی قوتِ بازو کے قصیدے کہے جاتے ہیں۔
بہت کم انسان ایسے ہیں جو اپنے حاصل کو رحمتِ پروردگار کی عطا سمجھتے ہیں
اپنی زندگی میں ہم جتنی دل راضی کریں اتنی ہی ہماری قبر میں چراغ جلیں گے۔ہماری نیکیاں ہمارے مزار روشن کرتی ہیں۔سخی کی سخاوت اس کی اپنی قبر کا دیا ہے۔
ہماری اپنی صفات ہی ہمارے مرٖقد کو خوشبو دار بناتی ہیں۔زندگی کے بعد کام آنے والے چراغ زندگی میں بھی جلائے جاتے ہیں۔
کوئی نیکی رائیگاں نہیں جاتی۔
واصف علی واصف
گلاب میں رنگ ملے گا، خوشبو ملے گی،
اور
نفرت سے دیکھو تو
خار نگاہوں میں کھٹکیں گے۔...!!!.
ایک دفعہ ایک شخص زندگی کی نا مناسب مصروفیات سے یک لخت تائب ہو گیا۔ اس کے دوستوں نے پوچھا:" بھائی، تم کل تک رنگیلے تھے، آج کیا ہوا؟"
وہ بولا: "میں عجیب حال میں پہنچ گا ہوں۔ ہر وقت میری آنکھوں کے سامنے میری بیٹی کا چہرہ رہتا ہے۔ میری ناپاک نگاہوں کو میری بیٹی نے پاک بنا دیا ہے۔"
سطح پر تیرنے والے کے حصے میں فقط جھاگ اور خس و خاشاک آتا ہے جبکہ گہرائی میں اترنے والے کے نصیب میں موتی
زندگی کو سطحی طور پر برتنے والے کو بس روز مرہ کی زندگی کے خس و خاشاک سے ہی حصہ ملتا ہے
البتہ جو زندگی کو گہرائی میں اتر کر دیکھےتو حیات کا اصل حسن اور کائنات کے سر بستہ راز اس پر آشکار ہوجاتے ہیں۔
کشتی جب ہچکولے کھا رہی ہو تو اللہ کی رحمت کو پکارا جاتا ہے اور جب کشتی کنارے لگ جاتی ہے تو اپنی قوتِ بازو کے قصیدے کہے جاتے ہیں۔
بہت کم انسان ایسے ہیں جو اپنے حاصل کو رحمتِ پروردگار کی عطا سمجھتے ہیں
اپنی زندگی میں ہم جتنی دل راضی کریں اتنی ہی ہماری قبر میں چراغ جلیں گے۔ہماری نیکیاں ہمارے مزار روشن کرتی ہیں۔سخی کی سخاوت اس کی اپنی قبر کا دیا ہے۔
ہماری اپنی صفات ہی ہمارے مرٖقد کو خوشبو دار بناتی ہیں۔زندگی کے بعد کام آنے والے چراغ زندگی میں بھی جلائے جاتے ہیں۔
کوئی نیکی رائیگاں نہیں جاتی۔
واصف علی واصف
Comment