باپ اور بیٹے میں فرق
ایک 85 سالہ عمر رسیدہ باپ اپنے 45 سالہ بیٹے کے ساتھ گھر کے ھال کمرے میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک کوّے نے کھڑکی کے قریب آ کر شور مچایا۔
باپ کو نجانے کیا سوجھی، اُٹھ کر بیٹے کے پاس آیا اور اُس سے پوچھا، بیٹے یہ کیا چیز ہے؟
بیٹے نے جواب دیا؛ یہ کوّا ہے۔ یہ سُن کر باپ اپنی جگہ پر جا کر بیٹھ گیا۔
کُچھ دیر کے بعد وہ پھر اُٹھ کر اپنے بیٹے کے پاس کر آیا اور دوبارہ اُس سے پوچھا، بیٹے؛ یہ کیا ہے؟
بیٹے نے حیرت کے ساتھ باپ کی طرف دیکھا ور پھر اپنا جواب دُہرایا: یہ کوّا ہے۔
کُچھ دیر کے بعد باپ پھر اُٹھ کر آیا اور تیسری بار پوچھا: بیٹے یہ کیا ہے؟
بیٹے نے اپنی آواز کو اونچا کرتے ہوئے کہا؛ ابا جی یہ کوّا ہے، یہ کوّا ہے۔
تھوڑی دیر کے بعد باپ پھر اُٹھ کر آیا ور چوتھی بار بیٹے سے مُخاطب ہو کر پوچھا؛ بیٹے یہ کیا ہے؟
اس بار بیٹے کا صبر جواب دے چُکا تھا، نہایت ہی اُکتا ہٹ اور ناگواری سے اپنی آواز کو مزید بُلند کرتے ہوئے باپ سے کہا؛ کیا بات ہے، آج آپکو سُنائی نہیں دے رہا کیا؟ ایک ہی سوال کو بار بار دُہرائے جا رہے ہو۔ میں کتنی بار بتا چُکا ہوں کہ یہ کوّا ہے، یہ کوّا ہے۔ کیا میں کسی مُشکل زبان میں آپکو یہ سب کُچھ بتا رہا ہوں جو اتنا سادہ سا جواب بھی نہ تو آپ کو سُنائی دے رہا ہے اور نہ ہی سمجھ آرہا ہے!
اس مرتبہ باپ یہ سب کُچھ سننے کے بعد اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد واپس باہر آیا تو ہاتھ میں کُچھ بوسیدہ سے کاغذ تھے۔ کاغذوں سے لگ رہا تھا کہ کبھی کسی ڈائری کا حصہ رہے ہونگے۔ کاغذ بیٹے کو دیتے ہوئے بولا، بیٹے دیکھو ان کاغذوں پر کیا لکھا ہے؟
بیٹے نے پڑھنا شروع کیا، لکھا تھا؛ آج میرے بیٹے کی عمر تین سال ہو گئی ہے۔ اُسے کھیلتے کودتے اور بھاگتے دوڑتے دیکھ دیکھ کر دِل خوشی سے پاگل ہوا جا رہا ہے۔
اچانک ہی اُسکی نظر باغیچے میں کائیں کائیں کرتے ایک کوّے پر پڑی ہے تو بھاگتا ہوا میرے پاس آیا ہے اور پوچھتا ہے؛ یہ کیا ہے۔
میں نے اُسے بتایا ہے کہ یہ کوّا ہے مگر اُسکی تسلی نہیں ہورہی یا شاید میرے منہ سے سُن کر اُسے اچھا لگ رہا ہے۔ ہر تھوڑی دیر کے بعد آ کر پھر پوچھتا ہے یہ کیا ہے اور میں ہر بار اُسے کہتا ہوں یہ کوّا ہے۔ اُس نے مُجھ سے یہ سوال ۲۳ بار پوچھا ہے اور میں نے بھی اُسے ۲۳ بار ہی جواب دیا ہے۔ اُسکی معصومیت سے میرا دِل اتنا خوش ہو رہا ہے کہ کئی بار تو میں جواب دینے کے ساتھ ساتھ اُسے گلے سے لگا کر پیار بھی کر چُکا ہوں۔ خود ہی پوچھ پوچھ کر تھکا ہے تو آکر میرے پاس بیٹھا ہے اور میں اُسے دیکھ دیکھ کر فدا اور قُربان ہو رہا ہوں.
ایک 85 سالہ عمر رسیدہ باپ اپنے 45 سالہ بیٹے کے ساتھ گھر کے ھال کمرے میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک کوّے نے کھڑکی کے قریب آ کر شور مچایا۔
باپ کو نجانے کیا سوجھی، اُٹھ کر بیٹے کے پاس آیا اور اُس سے پوچھا، بیٹے یہ کیا چیز ہے؟
بیٹے نے جواب دیا؛ یہ کوّا ہے۔ یہ سُن کر باپ اپنی جگہ پر جا کر بیٹھ گیا۔
کُچھ دیر کے بعد وہ پھر اُٹھ کر اپنے بیٹے کے پاس کر آیا اور دوبارہ اُس سے پوچھا، بیٹے؛ یہ کیا ہے؟
بیٹے نے حیرت کے ساتھ باپ کی طرف دیکھا ور پھر اپنا جواب دُہرایا: یہ کوّا ہے۔
کُچھ دیر کے بعد باپ پھر اُٹھ کر آیا اور تیسری بار پوچھا: بیٹے یہ کیا ہے؟
بیٹے نے اپنی آواز کو اونچا کرتے ہوئے کہا؛ ابا جی یہ کوّا ہے، یہ کوّا ہے۔
تھوڑی دیر کے بعد باپ پھر اُٹھ کر آیا ور چوتھی بار بیٹے سے مُخاطب ہو کر پوچھا؛ بیٹے یہ کیا ہے؟
اس بار بیٹے کا صبر جواب دے چُکا تھا، نہایت ہی اُکتا ہٹ اور ناگواری سے اپنی آواز کو مزید بُلند کرتے ہوئے باپ سے کہا؛ کیا بات ہے، آج آپکو سُنائی نہیں دے رہا کیا؟ ایک ہی سوال کو بار بار دُہرائے جا رہے ہو۔ میں کتنی بار بتا چُکا ہوں کہ یہ کوّا ہے، یہ کوّا ہے۔ کیا میں کسی مُشکل زبان میں آپکو یہ سب کُچھ بتا رہا ہوں جو اتنا سادہ سا جواب بھی نہ تو آپ کو سُنائی دے رہا ہے اور نہ ہی سمجھ آرہا ہے!
اس مرتبہ باپ یہ سب کُچھ سننے کے بعد اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد واپس باہر آیا تو ہاتھ میں کُچھ بوسیدہ سے کاغذ تھے۔ کاغذوں سے لگ رہا تھا کہ کبھی کسی ڈائری کا حصہ رہے ہونگے۔ کاغذ بیٹے کو دیتے ہوئے بولا، بیٹے دیکھو ان کاغذوں پر کیا لکھا ہے؟
بیٹے نے پڑھنا شروع کیا، لکھا تھا؛ آج میرے بیٹے کی عمر تین سال ہو گئی ہے۔ اُسے کھیلتے کودتے اور بھاگتے دوڑتے دیکھ دیکھ کر دِل خوشی سے پاگل ہوا جا رہا ہے۔
اچانک ہی اُسکی نظر باغیچے میں کائیں کائیں کرتے ایک کوّے پر پڑی ہے تو بھاگتا ہوا میرے پاس آیا ہے اور پوچھتا ہے؛ یہ کیا ہے۔
میں نے اُسے بتایا ہے کہ یہ کوّا ہے مگر اُسکی تسلی نہیں ہورہی یا شاید میرے منہ سے سُن کر اُسے اچھا لگ رہا ہے۔ ہر تھوڑی دیر کے بعد آ کر پھر پوچھتا ہے یہ کیا ہے اور میں ہر بار اُسے کہتا ہوں یہ کوّا ہے۔ اُس نے مُجھ سے یہ سوال ۲۳ بار پوچھا ہے اور میں نے بھی اُسے ۲۳ بار ہی جواب دیا ہے۔ اُسکی معصومیت سے میرا دِل اتنا خوش ہو رہا ہے کہ کئی بار تو میں جواب دینے کے ساتھ ساتھ اُسے گلے سے لگا کر پیار بھی کر چُکا ہوں۔ خود ہی پوچھ پوچھ کر تھکا ہے تو آکر میرے پاس بیٹھا ہے اور میں اُسے دیکھ دیکھ کر فدا اور قُربان ہو رہا ہوں.
Comment