"کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ تھا اس کے دربار میں ایک قیدی کو پیش کیا گیا بادشاہ نے مقدمہ سننے کے بعد اشارہ کیا کہ اسے قتل کردیا جائے ۔
بادشاہ کے حکم پر جب پیادے اسے قتل گاہ کی طرف لے کے جانے لگے تو وہ شخص غصے سے بادشاہ کو برا بھلا کہنے لگا کسی شخص کیلئے اس سے بڑی سزا کیا ہوگی کہ اسے قتل کردیا جائے اور چونکہ یہ سزا سنائی جاچکی تھی اور اس کے دل سے اس کا خوف دور ہوچکا تھا
بادشاہ نے جب دیکھا کہ وہ شخص کچھ کہہ رہا ہے تو اس نے اپنے وزیر سے پوچھا یہ کیا کہہ رہا ہے
بادشاہ کا یہ وزیر نیک دل تھا اس نے سوچا کہ اگر بادشاہ کو درست بات بتا دی تو ہوسکتا ہے بادشاہ غصے سے دیوانہ ہوجائے اور اس کو قتل کروانے کے بجائے زندان میں ڈال کر اس پر ظلم وستم ڈھانے لگے تو اس نے بادشاہ کو جواب دیا کہ حضور یہ شخص کہہ رہا ہے اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو غصے کو ضبط کرتے ہیں اور لوگوں کیساتھ بھلائی کرتے ہیں*
بادشاہ یہ سن کر مسکرایا اور اس نے اس شخص کو آزاد کرنے کا حکم دیا
بادشاہ کا ایک اور وزیر جو نیک دل وزیر کے خلاف دل میں حسد رکھتا تھا وہ بولا یہ ہر گز درست نہیں کہ بادشاہ کے وزیر اسے دھوکے میں رکھیں اور سچ کے سوا کچھ زبان پر لائیں ، اور کہا کہ حضور یہ شخص آپ کی شان میں گستاخی کر رہا ہے
وزیر کی بات سن کر بادشاہ نے کہا اے وزیر ! تیرے اس سچ سے جس کی بنیاد بغض اور کینے پر ہے
اس ست تیرے بھائی کی غلط بیانی بہتر ہے اس سے ایک شخص*کی جاب بچ گئی یاد رکھ اس سچ سے جس سے فساد پھیلتا ہو اس سے ایسا جھوٹ*بہتر جس سے برائی دور ہونے کی امید ہو
وہ سچ جو فساد کا سبب ہو بہتر ہے وہ زبان پر نہ آئے
اچھا ہے وہ کذب ایسے سچ سے جو فسادکی آگ بجھائے
بادشاہ کی بات سن کر فسادی وزیر شرمندہ ہوا ۔ بادشاہ نے قیدی آزاد کرنے کا فیصلہ بحال رکھا اور اپنے وزیروں کو نصیحت کی کہ بادشاہ ہمیشہ اپنے وزیروں کے مشوروں پہ عمل کرتے ہیں وزیروں کا فرض ہے ایسی باتیں منھ سے نہ نکالیں جس میں بھلائی کی امید نہ ہو اس نے مزید کہا یہ دنیا وی زندگی بحرحال ختم ہوجائے گی کوئی بادشاہ ہو یا فقیر اس کا انجام موت ہے اس سے کوئی فرق نہیں*پڑتا کہ روح تخت پر قبض کی جائے یا فرش پر"
(شیخ سعدی : حکایات شیخ سعدی)
بادشاہ کے حکم پر جب پیادے اسے قتل گاہ کی طرف لے کے جانے لگے تو وہ شخص غصے سے بادشاہ کو برا بھلا کہنے لگا کسی شخص کیلئے اس سے بڑی سزا کیا ہوگی کہ اسے قتل کردیا جائے اور چونکہ یہ سزا سنائی جاچکی تھی اور اس کے دل سے اس کا خوف دور ہوچکا تھا
بادشاہ نے جب دیکھا کہ وہ شخص کچھ کہہ رہا ہے تو اس نے اپنے وزیر سے پوچھا یہ کیا کہہ رہا ہے
بادشاہ کا یہ وزیر نیک دل تھا اس نے سوچا کہ اگر بادشاہ کو درست بات بتا دی تو ہوسکتا ہے بادشاہ غصے سے دیوانہ ہوجائے اور اس کو قتل کروانے کے بجائے زندان میں ڈال کر اس پر ظلم وستم ڈھانے لگے تو اس نے بادشاہ کو جواب دیا کہ حضور یہ شخص کہہ رہا ہے اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو غصے کو ضبط کرتے ہیں اور لوگوں کیساتھ بھلائی کرتے ہیں*
بادشاہ یہ سن کر مسکرایا اور اس نے اس شخص کو آزاد کرنے کا حکم دیا
بادشاہ کا ایک اور وزیر جو نیک دل وزیر کے خلاف دل میں حسد رکھتا تھا وہ بولا یہ ہر گز درست نہیں کہ بادشاہ کے وزیر اسے دھوکے میں رکھیں اور سچ کے سوا کچھ زبان پر لائیں ، اور کہا کہ حضور یہ شخص آپ کی شان میں گستاخی کر رہا ہے
وزیر کی بات سن کر بادشاہ نے کہا اے وزیر ! تیرے اس سچ سے جس کی بنیاد بغض اور کینے پر ہے
اس ست تیرے بھائی کی غلط بیانی بہتر ہے اس سے ایک شخص*کی جاب بچ گئی یاد رکھ اس سچ سے جس سے فساد پھیلتا ہو اس سے ایسا جھوٹ*بہتر جس سے برائی دور ہونے کی امید ہو
وہ سچ جو فساد کا سبب ہو بہتر ہے وہ زبان پر نہ آئے
اچھا ہے وہ کذب ایسے سچ سے جو فسادکی آگ بجھائے
بادشاہ کی بات سن کر فسادی وزیر شرمندہ ہوا ۔ بادشاہ نے قیدی آزاد کرنے کا فیصلہ بحال رکھا اور اپنے وزیروں کو نصیحت کی کہ بادشاہ ہمیشہ اپنے وزیروں کے مشوروں پہ عمل کرتے ہیں وزیروں کا فرض ہے ایسی باتیں منھ سے نہ نکالیں جس میں بھلائی کی امید نہ ہو اس نے مزید کہا یہ دنیا وی زندگی بحرحال ختم ہوجائے گی کوئی بادشاہ ہو یا فقیر اس کا انجام موت ہے اس سے کوئی فرق نہیں*پڑتا کہ روح تخت پر قبض کی جائے یا فرش پر"
(شیخ سعدی : حکایات شیخ سعدی)
Comment