Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

کتاب : عشق کا قاف

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • کتاب : عشق کا قاف

    کتاب : عشق کا قاف
    مصنّف : سرفراز احمد راہی مرحوم

    "عشق حقیقی تک پہنچنے کے لئے عشق مجازی ضروری ہے۔ جیسے کسی چھت تک پہنچنے کے لئے سیڑھی کی ضرورت ہوتی ہے۔ چھت پر پہنچ کر سیڑھی سے الگ ہو جانا ایک قدرتی امر ہے۔ سیڑھی کے بغیر چھت پر پہنچنا غیر فطری ہے۔ ہاں جو پیدا ہی چھت پر ہوا ہو اس کے لئے سیڑھی کی ضرورت نہیں پڑتی مگر ہم عام اور بے حیثیت انسانوں کے لئے وسیلہ اور حیلہ دونوں ضروری ہیں۔ کبھی سیڑھی کا وسیلہ۔ کبھی کمند کا حیلہ۔ عشق مجازی کے لئے ضروری ہے کہ کوئی دل کے دروازے پر آ کر دستک دے۔ اس میں آ کر مکین ہو جائے۔ دل کو اپنی جاگیر سمجھ کر اس پر قابض ہو جائے۔ اس میں اپنی مرضی کی دھڑکنیں جگائے۔ کبھی اسے توڑے۔ کبھی اسے جوڑے۔ کبھی اچانک غائب ہو جائے اور رلا رلا کر دل والے کو عاجز کر دے۔ کبھی ایسا مہربان ہو کہ نہال کر دے۔ پھر ایک ایسا وقت آتا ہے جب دل میں ایسا گداز پیدا ہو جاتا ہے کہ دل والا بات بے بات آبگینے کی طرح پھوٹ پڑتا ہے۔ آنسو اس کی پلکوں کی نوکوں پر موتیوں کی طرح اٹکے رہتے ہیں۔ وہ غم ملے تو روتا ہے۔اس وقت اس کے دل میں اس قدر نرمی پیدا ہو جاتی ہے کہ وہاں رحمان آن بسیرا کرتا ہے اور اگر ذرا سا۔۔۔ " درویش نے انگلی کی پور کے کونے پر انگوٹھے کا ناخن رکھ کر کہا۔ "اتنا سا بھی شیطان کو موقع مل جائے تو وہ چھلانگ مار کر دل کے سنگھاسن پر آ بیٹھتا ہے۔ تب گداز پر غیریت کا پردہ پڑ جاتا ہے۔ رحمانیت رخصت ہو جاتی ہے اور شیطانیت لوریاں دینے لگتی ہے۔ دوئی لپک کر آتی ہے اور وحدانیت سے بیگانہ کر دیتی ہے۔ پھر انسان، انسان صرف اس حد تک رہ جاتا ہے کہ اس کے ہاتھ پیر انسانوں جیسے ہیں اور بس۔ اس کے اندر دہکتا عشق کا الاؤ ہوس کی آگ بن جاتا ہے۔ لوگ اس کے ہاتھ پیر چومنے لگتے ہیں۔ اسے سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ جوانیاں اس کے انگ لگتی ہیں تو وہ اسے نفس پر غلبے کا نام دے کر خوش ہوتا ہے جبکہ حقیقت میں وہ خود شیطان کو خوش کر رہا ہوتا ہے۔ عشق کے نام پر بھڑکنے والے شعلے پر ہوس کے چھینٹے پھوار بن کر برسنے لگتے ہیں اور پھوار میں بھیگنے کا تو ایک اپنا ہی مزا ہوتا ہے ناں۔ یہ مزا انسان کو عشق کی کسک سے دور لے جاتا ہے۔ اس چبھن سے دور لے جاتا ہے جس کا نام مجاز ہے۔ وہ دھیرے دھیرے اس رنگ میں ایسا رنگا جاتا ہے کہ اس کا اپنا رنگ، عشق کا رنگ ناپید ہو جاتا ہے۔ ہوش اسے تب آتا ہے جب آخری لمحہ اس کے سامنے اس کا کچا چٹھا لئے آن کھڑا ہوتا ہے۔۔۔ مگر اس وقت اس کا ہوش میں آنا بیکار ہو جاتا ہے۔ عشق کے نام پر پھیلائی ہوئی بربادی اسے اپنے پیروں تلے روندتی ہوئی گزر جاتی ہے اور اس کا وجود تو مٹ جاتا ہے تاہم اس کا نام ابد الآباد تک عبرت بن کر رہ جاتا ہے۔۔۔ اور اگر یہ گداز رحمانیت کو چھو لے تو عشق مجازی کا ہاتھ عشق حقیقی کے ہاتھ میں دے دیتا ہے۔ دل، اس کا گھر بن جاتا ہے جو ہر کافر کے دل میں بھی کبھی نہ کبھی پھیرا ضرور ڈالتا ہے۔ پھر جسے وہ چُن لے، وہ کافر رہتا ہے نہ مشرک، بس اس کا بندہ بن جاتا ہے اور جس کا دل اسے پسند نہ آئے وہ اس کے آنے کو یوں بھول جاتا ہے جیسے جاگنے پر خواب یاد نہیں رہتا۔۔۔ عشقِ مجازی کی پہلی منزل عشق کے پہلے حرف عین سے شروع ہوتی ہے۔ عبادت جہاں پھل پانا شروع کرتی ہے، وہاں سے عشق کے دوسرے حرف شین کے رخ سے پردہ اٹھتا ہے۔ شین۔۔۔ شین سے شک ہوتا ہے "
    اللھم صلی علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔
    اللھم بارک علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔


  • #2
    Re: کتاب : عشق کا قاف

    Bohat Khoob :)
    Achi Tehreer Hay ..
    :sad Ak Jhoota Lafz Mohabbat Ka ..

    Comment

    Working...
    X