Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

ہمارے شہید الگ آپ کے شہید الگ

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • ہمارے شہید الگ آپ کے شہید الگ

    ہمارے شہید الگ آپ کے شہید الگ

    مستنصر حسین تارڑ

    میں شرمندگی اختیار کرتا ہوں۔۔۔
    اے ارض وطن میں شرمندگی کے لبادے میں روپوش ہو کر آنسو بہاتا ہوں۔۔۔ اور ظاہر نہیں کرتا کہ میرے آنسو گرتے ہیں کہ مجھے ڈر ہے، میں ایک نامردمی کے خوف میں ہوں کہ اگر میں جو مجھ پر گزرتی ہے اس کا اظہار کروں گا تو زندہ جلا دیا جاؤں گا۔
    تو میں شرمندگی اختیار کرتا ہوں۔۔۔
    اے وطن میرے پیارے وطن میں تجھ سے معافی کا خواستگار ہوں۔۔۔ اُن شہیدوں سے معافی کا خواستگار جنہوں نے اپنی جان کے نذرانے تیری سالمیت قائم رکھنے کے لئے، تیرے بچوں بوڑھوں اور عورتوں کو پرخچوں میں بدل کر قتل ہو جانے سے بچانے کے لئے پیش کئے۔۔۔ بے شک اے راہِ حق کے شہیدو تمہاری شہادت کو مخدوش قرار دیا جا رہا ہے اور قاتلوں کو شہادت کے درجے پر فائز کیا جا رہا ہے لیکن۔۔۔ یہ لوگ قابل رحم ہیں، مجھے ان پر ترس آتا ہے کہ ذہنی زوال نے انہیں ذلت کے گڑھوں میں دھکیل دیا ہے اور اب ان کے حواری بہانے بناتے پھرتے ہیں کہ یہ تو ایک ذاتی بیان تھا اور اس کے آگے سوالیہ نشان تھا۔۔۔ ایک زمانے میں الطاف حسین جانے کون سی حالت میں مبتلا دھمکیاں دیا کرتے تھے کہ ہم نے آپ کے سائز کی بوریاں تیار کر رکھی ہیں، پاکستان انگریز کی سازش ہے اور اس کے ساتھ وہ رقص کرتے تھے اور گانے گاتے تھے تو ان کے ساتھیوں کو ان کا بہرطور دفاع کرنا تھا اور جب وہ ان اوٹ پٹانگ بیانات اور دھمکیوں کا مجبوراً دفاع کرتے تھے کہ وہ تو الطاف بھائی نے مزاح پیدا کرنے کی کوشش کی تھی، وہ سنجیدہ تو نہیں تھے۔۔۔ اگر انہوں نے ٹیلی ویژن کے میزبانوں کی مرمت کرنے کی بات کی تھی تو دراصل وہ یہ کہہ رہے تھے کہ ان کی سائیکلوں کی مرمت کی جائے، ان کے بیان کو آؤٹ آف کونٹیکس میں پیش کیا جا رہا ہے۔۔۔ تو مجھے ان حضرات پر بے حد ترس آتا تھا کہ لیڈر صاحب نے موڈ میں آ کر دل کی بات تو کہہ دی اور اب ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اس کا دفاع کیسے کریں۔۔۔ ان دنوں ایک مرتبہ پھر وہی صورت حال ہے ٹیلی ویژن پر منور حسن اور فضل الرحمن صاحب نے جو گوہر افشانیاں کر کے کروڑوں لوگوں کے جذبات مجروح کئے ہیں ان کے حواری ان کا دفاع کررہے ہیں اور مجھے ان پر بھی ترس آتا ہے۔۔۔ وہ ادھر ادھر کی بے پَرکی ہانکتے چلے جاتے ہیں کہ دراصل اس بات کو صحیح تناظر میں نہیں دیکھا جا رہا۔۔۔ یہ تو علامتی باتیں تھیں جو عوام الناس سمجھ نہیں سکے۔۔۔ پُرلطف بات ہے کہ بے چاری فوج بھی ان علامتی باتوں کو نہیں سمجھ سکی۔۔۔ آج تک شاید ہی فوج کی جانب سے کسی سیاستدان کے بیان کے بارے میں اتنا سخت اور شدید ردعمل سامنے آیا ہو۔۔۔ فوج کی جانب سے یہ بیان میرے شیر جیسے بزدل کروڑوں پاکستانیوں کے دلی جذبات کی ترجمانی ہے۔۔۔ دراصل یہ سلسلہ ایک سیاسی لاگت بازی کا شاخسانہ ہے۔ منور حسن نے ہزاروں معصوموں کے بے رحم قاتل، نہ پاکستانی ریاست کو ماننے والے نہ اس کے دستور کو۔۔۔ پاکستانی فوج کے جوانوں کو ذبح کر کے ان کے سر میرانشاہ کے کھمبوں پر آویزاں کرنے والے اور کرنل امام ایسے درویش صفت شخص کو ہاتھ پاؤں باندھ کر قتل کر کے ان کے سر ان کے خاندان کو بھیجنے والے شخص کو شہید قرار دے دیا۔۔۔ مولانا فضل الرحمن جو عمران خان سے شکست کھا کر بھنائے پھرتے ہیں انہوں نے سوچا کہ اوہو یہ منور حسن تو طالبان کی ہمدردیاں حاصل کر لے گا اور انہوں نے نہلے پہ دہلا دے مارا کہ۔۔۔ میں ان کا بیان نقل نہیں کر سکتا، میری روح کانپ جاتی ہے کہ شہادت کی عظمت کس جانور پر منطبق کی جا رہی ہے، اب ان کے دہلے پر منور حسن نے جونسا پتہ بھی ہاتھ میں آیا دے مارا۔۔۔ کہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے والے فوجی نوجوان اور افسر شہید نہیں ہیں البتہ حکیم اللہ کی شہادت میں کچھ شک نہیں۔۔۔ وہ تو ماشاء اللہ شہید امن ہے۔
    ویسے اگر میرا جیسا کوئی ناہنجار شخص کوئی ایک ایسا بیان دیتا تو اب تک اس کے قتل کے فتوے یہی لوگ جاری کر رہے ہوتے۔۔۔ لیکن میں خدا کو حاضر ناظر جان کر قسم کھا کر یہ کہتا ہوں کہ ’’روشن خیال‘‘ ہونے کے باوجود کہ میں تاریک خیال نہیں ہو سکتا کم از کم جو کچھ فضل الرحمن نے کہا ہے وہ نہ کہہ سکتا۔۔۔ میں مر جاتا لیکن یہ نہ کہتا کہ ایک۔۔۔ بھی شہید ہے۔۔۔ کبھی نہ کہتا۔۔۔ میں اس فقرے کا تصور بھی کرتا ہوں تو میرے دل میں ایک بھالا اتر جاتا ہے۔۔۔ میری روح لرز جاتی ہے اور میں ان پر تو نہیں اپنے پر لعنت بھیجتا ہوں کہ میں ایک ایسے دور میں زندہ ہوں جس میں شہادت کی یہ توہین کی جا رہی ہے۔۔۔ میں سوائے اس کے کہ شرمندگی اختیار کروں اور کیا کر سکتا ہوں۔
    میں تو اس دن سے ڈرتا ہوں جب ذہنی طور پر معذور کوئی شخص یہ بیان بھی جاری کر دے گا کہ چونکہ وہ تمام لوگ جنہوں نے اس پاکستان کے لئے اپنی جان قربان کی تو انہیں شہید کے طو رپر دفن کیا گیا اور اب چونکہ ہم نے یہ فیصلہ دے دیا ہے کہ وہ شہید نہیں ہیں تو ان کی قبروں کو بھی بُلڈوز کر کے مٹا دیا جائے۔۔۔ میں جس پارک میں سیر کے لئے جاتا ہوں وہاں ظاہر ہے دوستوں کے ساتھ جو کچھ ہمارے ملک میں ہو رہا ہے اس کے بارے میں بھی تبادلۂ خیال ہوتا ہے۔۔۔ ان دوستوں میں ڈاکٹر انیس احمد بھی ہیں، مجھ سے بھی عمر میں بزرگ ہیں، شاعر بہت کمال کے ہیں اور نعت کہنے میں بے مثال ہیں، ظاہر ہے حساس طبیعت کے ہیں۔۔۔ جب کبھی کوئی خودکش حملہ ہوتا ہے، دھماکا ہوتا ہے اور بے گناہ معصوم لوگ مارے جاتے ہیں تو کئی روز تک رنجیدہ رہتے ہیں، قصہ خوانی میں خونریزی ہوئی تو پندرہ سولہ افراد کے خاندان میں سے صرف ایک بوڑھا دادا جو بچ گیا اور اس کے بیٹے پوتے پوتیاں سب شہید امن کے حکم سے ہلاک کر دیئے گئے۔۔۔تو ڈاکٹر صاحب کہنے لگے، تارڑ صاحب ہمارا قصور یہ ہے کہ ہم پُرامن ہیں، ہمارے ہاتھ میں کلاشنکوف نہیں ہے اور ان کے ہاتھوں میں کلاشنکوف ہے تو اس لئے وہ ہمیں ہلاک کر رہے ہیں۔۔۔ تو کیا بالآخر ہمیں خود اپنے بال بچوں اور ملک کو بچانے کے لئے اُن جیسا ہو جانا پڑے گا۔ لیکن ان دو زعماء کے بیانات پر ڈاکٹر انیس اس قدر دکھی ہوئے کہ ان کی بوڑھی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔۔۔ تارڑ صاحب مجھے راتوں کو نیند نہیں آتی، کچھ آوازیں آتی ہیں، آس پاس کچھ سرسراہٹیں ہوتی ہیں جیسے کہیں امیرالشہداحضرت حمزہؓ شکایت کرتے ہیں کہ تم نے چودہ سو برس بعد میری شہادت کی یہ قدر کرنی تھی۔۔۔ اور کبھی حضرت امام حسینؓ کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے، کربلا کے شہیدوں کے چہرے دکھائی دینے لگتے ہیں۔۔۔ جنگ بدر، اُحد کے شہید نظر آنے لگتے ہیں۔۔۔ ستمبر 65ء اور دسمبر 71ء کی پاک فوج کے شہید نوحہ کناں سنائی دیتے ہیں اور تو اور وہ ڈاکٹر جنرل جس کی عبادتوں اور ریاضتوں کا کچھ شمار نہ تھا وہ بھی ایک امریکی ڈاکٹر تھا۔۔۔ اور جنرل نیازی کی ہلاکت پر وہ کیسے شادیانے بجاتے تھے۔۔۔ ہم لوگ اپنے بچوں اور بزرگوں اور عورتوں کے قاتلوں کو شہید قرار دیتے ہیں، ہم کیسے لوگ ہیں تارڑ صاحب۔۔۔ یقین کریں اس اسّی برس کی عمر تک آج تک مجھے اتنا بڑا دکھ برداشت نہیں کرنا پڑا۔۔۔ بتایئے میں کیا کروں۔۔۔ یہ ملک چھوڑ دوں، خودکشی کر لوں، کیا کروں۔۔۔ ڈاکٹر انیس کا گلا رُندھ گیا اور میں نے ان سے کہا اور میری رنجیدگی کی بھی کوئی حد نہ تھی کہ ڈاکٹر صاحب۔۔۔ ہمارے شہید اب ان کے شہیدوں سے الگ ہو گئے ہیں۔۔۔ ہمیں بدر، اُحد، کربلا اور جنگ ستمبر اور جنگ دسمبر کے شہید مبارک اور ان کو اپنے شہید مبارک۔۔۔ ایک جانور کو بھی شہید قرار دینے والے خود کیا ہیں، بس وہی ہیں۔۔۔ ویسے کسی ڈرون حملے میں اگر وہ حرام جانور بھی مارا جاتا ہے جس کا نام لینے سے زبان پلید ہوتی ہے تو آپ اُسے کس درجے پر فائز کریں گے۔
    میں اُن پر نہیں اپنے آپ پر لعنت بھیجتا ہوں۔
    اللھم صلی علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔
    اللھم بارک علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔

Working...
X