کہتے ہیں پرانے زمانے میں ایک قبیلہ سمندر سے بہت فاصلے پر آباد تھا۔ انہوں نے کبھی سمندر نہیں دیکھا تھا۔ یہ لوگ پانی کو "آنٹاؤ" کہتے تھے۔ اس قبیلے کا ایک شخص سفر پر گیا اور اتفاقا" سمندر دیکھ لیا۔ واپس آ کر اس نے اپنے قبیلے والوں کو سمندر سمجھانے کی کوشش کی۔ بولا، آنٹاؤ۔ آؤ آؤ آؤ آؤ آؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی پانی ہی پانی، پانی ہی پانی، پانی ہی پانی۔
ایسے ہی قرآنِ پاک علم و دانش کا ایک سمندر ہے۔ قرآن حکیم منفی اصولوں کا پرچار نہیں کرتا۔ یہ نہیں کہتا کہ شک کرو بلکہ کہتا ہے کہ دیکھو، غور سے دیکھو، سمجھنے کی کوشش کرو، پھر کوشش کرو، پھر کوشش کرو، پھر کوشش کرو۔ بات سمجھ نہ آۓ تو ان سے پوچھو جو جانتے ہیں۔ پھر بھی سمجھ نہ آۓ تو کوئی راۓ قائم نہ کرو، نہ مانو، نہ رد کرو۔
آج سے چودہ سو سال پہلے قرآن نے کہہ دیا تھا کہ " زندگی" کی ابتداء پانی سے ہوئی۔ اس پر دانشوروں نے کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ زندگی پانی سے بنی؟ اور اس بات کو مذاق میں اڑا دیا۔
پھر بارہ سو سال بعد کسی محقق نے خوردبین ایجاد کر دی جس سے پانی میں جھانکنا ممکن ہو گیا۔ پھر جو پانی میں جھانکا تو سائنسدان یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ پانی جرثوموں سے بھرا پڑا ہے جن میں زندگی کا وجود ہے۔
ممتاز مفتی کی کتاب "تلاش" سے اقتباس
ایسے ہی قرآنِ پاک علم و دانش کا ایک سمندر ہے۔ قرآن حکیم منفی اصولوں کا پرچار نہیں کرتا۔ یہ نہیں کہتا کہ شک کرو بلکہ کہتا ہے کہ دیکھو، غور سے دیکھو، سمجھنے کی کوشش کرو، پھر کوشش کرو، پھر کوشش کرو، پھر کوشش کرو۔ بات سمجھ نہ آۓ تو ان سے پوچھو جو جانتے ہیں۔ پھر بھی سمجھ نہ آۓ تو کوئی راۓ قائم نہ کرو، نہ مانو، نہ رد کرو۔
آج سے چودہ سو سال پہلے قرآن نے کہہ دیا تھا کہ " زندگی" کی ابتداء پانی سے ہوئی۔ اس پر دانشوروں نے کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ زندگی پانی سے بنی؟ اور اس بات کو مذاق میں اڑا دیا۔
پھر بارہ سو سال بعد کسی محقق نے خوردبین ایجاد کر دی جس سے پانی میں جھانکنا ممکن ہو گیا۔ پھر جو پانی میں جھانکا تو سائنسدان یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ پانی جرثوموں سے بھرا پڑا ہے جن میں زندگی کا وجود ہے۔
ممتاز مفتی کی کتاب "تلاش" سے اقتباس
Comment