کبھی کبھی قومیں بھی اپنے اوپر ماضی مسلّط کرلیتی ہیں۔غور سے دیکھا جائے تو ایشیائی ڈرامے کا اصل وِلن ماضی ہے۔جو قوم جتنی پسماندہ،درماندہ اور پست حوصلہ ہو،اس کو اپنا ماضی معکوس اقلیدسی تناسب (Inverse Geometric Ratio) میں اتنا ہی زیادہ درخشاں اور دہرائے جانے کے لائق نظر آتا ہے۔ہر آزمائش اور اِبتلا کی گھڑی میں وہ اپنے ماضی کی جانب راجع ہوتی ہے۔اور ماضی بھی وہ نہیں کہ جو واقعتا تھا،بلکہ وہ جو اس نے اپنی خواہش اور پسند کے مطابق ازسر نو گھڑ کر آراستہ پیراستہ کیا۔۔۔۔۔ماضی تمنّائی۔اس پاستان طرازی کے پس منظر میں مجروح انا کا طاؤسی رقص دیدنی ہوتا ہے کہ مور فقط اپنا ناچ ہی نہیں،اپنا جنگل بھی خود ہی پیدا کرتا ہے۔ناچتے ناچتے ایک طلسماتی لمحہ ایسا آتا ہے کہ سارا جنگل ناچنے لگتا ہے اور مور کھڑا دیکھتا رہ جاتا ہے۔Nostalgia اسی لمحے کی داستان ہے۔
آبِ گُم-مشتاق احمد یوسفی
آبِ گُم-مشتاق احمد یوسفی
Comment