Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

اقتباس: مرد ابریشم تحریر: بانو قدسیہ

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • اقتباس: مرد ابریشم تحریر: بانو قدسیہ

    مجھے ماں جی سے وہ ملاقات اب بھی یاد ہے۔ جب ہم کراچی سے لاہور کا سفر کر رہے تھے۔ رات کا وقت تھا اور صحرائی رات کی خنکی تھی۔ ماں جی کو غالباً اسی سردی کی وجہ سے نیند نہیں آرہی تھی اور وہ کھڑکی سے پشت لگائے تسبیح پھیر رہی تھیں۔
    "قدسیہ ادھر میری سیٹ پر اپنا کاکا ڈال دے۔ دو بچے ایک سیٹ پر ٹھیک نہیں، کروٹ لے کر کوئی نیچے نہ آ گرے۔ دو بچے ایک سیٹ پر ٹھیک نہیں، کروٹ لے کر کوئی نیچے نہ آ گرے۔"
    "ٹھیک ہے ماں جی۔ آپ فکر نہ کریں۔"
    "تجھے تو نیند نہیں آرہی۔ انیق کو ادھر ڈال دے میری سیٹ پر۔"
    "٘ماں جی ان کا کیا اعتبار، سوتے میں آپ کا بستر نہ بھگودیں کہیں۔۔۔"
    "ادھر آ میرے پاس قدسیہ۔"
    میں ماں ی کے پاس جا بیٹھی۔
    "جس عورت کے پلنگ پر بچہ پیشاب نہ کرے، وہ عورت بدنصیب ہوتی ہے۔"
    "جی ماں جی۔۔"
    "دعا کر میرے شہاب کے گھر بھی بیٹا ہو۔" ماں جی بولیں۔
    "اُس کا بستر بھگونے والا بھی جلدی آئے۔"
    "ضرور ہوگا ماں جی۔"
    "میرے شہاب میں ایک خوبی ہے وہ جو کچھ بھی مانگتا ہے دوسروں کے لیے مانگتا ہے۔ میں جب بھی دعا کے لیے ہاتھ اُٹھاتی ہوں اپنوں کے لیے کچھ نہ کچھ مانگتی ہوں۔ یہ فرق ہے اُس میں اور مجھ میں۔۔"
    میں چپ رہی۔
    "شہاب کو جیسا لوگ سمجھتے ہیں ویسا وہ نہیں ہے قدسیہ۔"
    "جی ماں جی۔"
    "انیق کو میرے بستر پر ڈال دے قدسیہ دو بچے ایک سیٹ پر ٹھیک نہیں۔"
    ماں جی نے وہ فرق نہ سمجھایا جو لوگوں کے سمجھنے اور اصلی شہاب میں تھا۔

    اقتباس:
    مرد ابریشم
    تحریر:
    بانو قدسیہ
    اللھم صلی علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔
    اللھم بارک علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔


  • #2
    Re: اقتباس: مرد ابریشم تحریر: بانو قدسیہ

    bohat aala

    Comment

    Working...
    X