س جہانِ آب و گِل میں کچھ منظر، نظارے ایسے بھی ہوتے ہیں جو دونوں آنکھوں سے دیکھنے پہ بھی واضح نہیں ہوتے۔ انہیں کماحقہ طور پہ جاننے سمجھنے کے لئے کسی تیسری آنکھ کی ضرورت پڑتی ہے۔۔اس سے آگے بڑھو تو جانو کہ کئی حقیقتیں تو تب بھی اپنی گیرائی کی گِرہیں نہیں کھولتیں۔ اس مقام پہ ظاہری بصارت ماند پڑ جاتی ہے۔ عقل کی گواہیاں ختم۔۔۔علم و اِدراک کی کھڑکیاں جھروکے بند۔۔۔ اَب جہاں سے کشف، مراقبہ، دھیان اور جذب وغیرہ کی منزلیں شروع ہو جاتی ہیں۔ تم دونوں بچّے بھی دوسرے لوگوں کی طرح دین و دنُیا کو دیکھنے کے لیے اپنی ظاہری آنکھ استعمال کرتے ہو۔۔۔جو صرف مدِمقابل کا دھندلا سا عکس دکھاتی ہے۔ اس کے باطن بھِیتر تک پہنچانا اس کے بس کی بات نہیں۔
(مُحمد یحیٰی خان۔ کاجل کوٹھا۔صفحہ نمبر۲۱۲)
(مُحمد یحیٰی خان۔ کاجل کوٹھا۔صفحہ نمبر۲۱۲)
Comment