وہ سب چیزیں کبھی اس شخص کی زندگی کا حصہ تھیں جسے وہ اپنے وجود کا ایک حصہ سمجھتی تھی۔
ان سب چیزوں پر اس شخص کے ہاتھوں کا لمس تھا جسے اس نے دنیا میں سب سے زیادہ چاہا تھا- عمر جہانگیر ختم ہوچکا تھا- سامنے پڑا ہوا موبائل فون اب کبھی بھی عمر کے ساتھ اس کا رابطہ نہیں کروا سکتا تھا۔ اس نے وہیں بیٹھ کر ٹیبل پر اپنا سر ٹکا دیا اور مٹھیاں بھینچ کر روتی چلی گئی۔
"میں نے کبھی اس یہ نہیں کہا تھا کہ وہ اس طرح چلا جائے۔ " وہ بے تحاشا رو رہی تھی، بچوں کی طرح، جنونی انداز میں۔
اس لمحے اس پر پہلی بار انکشاف ہوا تھا کہ اسے عمر سے کبھی نفرت نہیں ہوئی تھی۔ وہ عمر سے نفرت کر ہی نہیں سکتی تھی، صرف ایک دھوکا اور فریب تھا جو وہ اپنے آپ کو دے رہی تھی، صرف اس خواہش اور امید پر کہ شاید کبھی اسے عمر سے نفرت ہوجائے۔
کبھی۔۔۔۔۔ کبھی۔۔۔۔۔ کبھی۔۔۔۔ شاید کبھی۔۔۔۔!
(اقتباس: عمیرہ احمد کے ناول "امر بیل" سے)
ان سب چیزوں پر اس شخص کے ہاتھوں کا لمس تھا جسے اس نے دنیا میں سب سے زیادہ چاہا تھا- عمر جہانگیر ختم ہوچکا تھا- سامنے پڑا ہوا موبائل فون اب کبھی بھی عمر کے ساتھ اس کا رابطہ نہیں کروا سکتا تھا۔ اس نے وہیں بیٹھ کر ٹیبل پر اپنا سر ٹکا دیا اور مٹھیاں بھینچ کر روتی چلی گئی۔
"میں نے کبھی اس یہ نہیں کہا تھا کہ وہ اس طرح چلا جائے۔ " وہ بے تحاشا رو رہی تھی، بچوں کی طرح، جنونی انداز میں۔
اس لمحے اس پر پہلی بار انکشاف ہوا تھا کہ اسے عمر سے کبھی نفرت نہیں ہوئی تھی۔ وہ عمر سے نفرت کر ہی نہیں سکتی تھی، صرف ایک دھوکا اور فریب تھا جو وہ اپنے آپ کو دے رہی تھی، صرف اس خواہش اور امید پر کہ شاید کبھی اسے عمر سے نفرت ہوجائے۔
کبھی۔۔۔۔۔ کبھی۔۔۔۔۔ کبھی۔۔۔۔ شاید کبھی۔۔۔۔!
(اقتباس: عمیرہ احمد کے ناول "امر بیل" سے)
Comment