’’بعض یادیں اپنے اندر احساس کا پراسرار اور متنوع جہان سمیٹے ہوئے ہوتی ہیں۔ اذیت کا سبب ہونے کے باوجود اس میں ایک سرخوشی، جوش،اور کیف پوشیدہ ہوتا ہے اور انسان خود بھی اپنی کیفیات کا کوئی صحیح رخ متعین کرنے پر قادر نہیں رہتا۔ شجرِجاں کی ہری کونپلوں پر ٹھہرے،لرزتے ہوئے یادوں کے شبنمی قطرے بیک وقت دل کے سیپ کا گہر بھی ہوٹھہرتے ہیں اور آنکھوں کا آشوب بھی۔ انسان خوش ہوتے ہوئے بھی غمگین ہوتا ہے اور دکھی ہونے کے باوجود سرشار ہوتا ہے۔یادیں صندل کی لکڑی جیسی ہوتی ہیں۔جلتی ہیں تو مہکنے لگتی ہیں یادوں کو کوئی کیا نام دے، روگ یا سرمایہ حیات۔‘‘
(بشریٰ سعید کے ناول "اماوس کا چاند " سے اقتباس)
(بشریٰ سعید کے ناول "اماوس کا چاند " سے اقتباس)