سلامتی کی راہ
صدیوں پہلے کتاب میں لکھا گیا تھا
بدن کا چراغ آنکھ ہے۔پس اگر تیری آنکھ درست ہو تو سارا بدن روشن ہوگا اور اگر تیری آنکھ خراب ہو تو تیرا سارا بدن تاریک ہوگا۔۔۔پس اگر وہ روشنی جو تجھ میں ہے تاریکی ہو تو کیسی بری ہوگی۔۔
چنانچہ اے شخص اپنے بدن کے چراغ کو کام میں لا اور اپنے گرد و پیش نظر کر۔۔دیکھ کے زمانہ نئی بساط بچھاتا ہے اور نئے رنگ دکھاتا ہے اور اب جب کے دشنام کی آندھیاں گزر چکیں اور چڑھی ہوئی کمانیں اتر چکیں، اپنی زبان کو اپنے دہن میں سلا دے اور کدورتوں کو دل سے بھلا دے
اور اے شخص کیا تجھے یاد نہیں کہ لکھنے والے نے کتاب میں صدیوں پہلے لکھا تھا ‘‘عیب جوئی نہ کر کہ تیری بھی عیب جوئی نہ کی جائے’’ کیوں کہ جس طرح تو عیب کوئی کرتا ہے اسی طرح تیری بھی عیب جوئی کی جائے گی اور جس پیمانے سے تو ناپتا ہے اسی سے تیرے واسطے ناپا جائے گا
تو کیوں اپنے بھائی کے تنکے کو دیکھتا ہے اور اپنی آنکھ کے شہتیر پر بھی غور نہیں کرتا؟
اور جب تیری ہی آنکھ میں شہتیر ہے تو اپنے بھائی سے کیوں کر کہہ سکتا ہے کہ لا، میں تیری آنکھ سے تنکا نکال دوں؟
اے شکص آ۔۔ک تو اور میں اک دوسرے سے بہم ہوں کہ جب ہم بہم ہوں تو ’’ہم ‘‘ کے نام سے پکارے جاتے ہیں۔۔ہپاں وہی ’’ہم ‘‘ اپنی کمر کھولیں، اپنی دشمنیوں کوتہ کریں، اپنے جھگڑوں کو اندھے کنوئیں میں دھکیلں اور پنے قضیوں کو گڑھے میں دفن کریں۔۔
اے شخص آ کہ اب ہم اپنے تاکستانوں کی خبر لیں اور اپنی چراگاہوں کو دیکھیں۔۔ہم وہ سبیل ڈھو نڈیں اور وہ راہ نکالیں کہ ہمارے کھیت فصلوں سے چھلک رہے ہو اور ہمار دستر خوان خشک اور تر میووں سے مہک رہے ہو۔ہماری پوشاک سونے کے تاروں سے کاڑھی جائے اور ہماری عورتیں لعل و گہر کی دمک سے شب چراغ ہوں،، ہماری گلیوں میں خوش بوئوں کے کنٹر انڈیلے جائیں اور ہمارے محلوں میں خوشیاں بار پائیںً
ہمارے ذہنوں میں جگہ بنائے اور خرد ہمارے فیصلوں کو راہ دکھائے۔۔تاریکیاں ہماری بستوں سے رخصت ہوں اور روشنائیاں ہمارے قریوں میں جگمگائیں۔۔ویرانیوں کو موت آئے اور آبادیاں زندگی کو لبھائیں۔۔لوٹنے والوں کے ڈیرے برباد ہوں اور انصاف کرنے والوں کے گھروں میں شادیانے بجیں۔
امن ہمارے سروں پر آسمان بنے اور سلامتی ہمارے پیروں کے نیچے زمین ٹھہرے۔ہمارے بچے بڑھاپے کی دہلز آلانگیں اور ہمارے جوان زندگی کو گھونٹ گھونٹ پیں۔۔ہماری کنواریاں اپنے گھروں کی ہوں اور ہماری بیاہوں کے سہاگ سلامت رہیں
اے شخص اب جب کہ تہمتوں کی چڑھی ہوئی ندیاں اتر چکیں اور طنز کے سارے تیر کند ہو چکے۔۔۔آ۔۔۔ کہ تو اور میں ایک دوسرے سے بہم ہوں کہ جب تو ور مں بہم ہو گے تو’’ ہم ‘‘ کے نام سے پکاریں جائیں گے
اے شخص آ کہ ہم ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر سلامتی کی راہ پر چلیں اور ہمارے بعد کی نسلیں اور ان کے بعد اُن کی نسلیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صدیوں پہلے کتاب میں لکھا گیا تھا
بدن کا چراغ آنکھ ہے۔پس اگر تیری آنکھ درست ہو تو سارا بدن روشن ہوگا اور اگر تیری آنکھ خراب ہو تو تیرا سارا بدن تاریک ہوگا۔۔۔پس اگر وہ روشنی جو تجھ میں ہے تاریکی ہو تو کیسی بری ہوگی۔۔
چنانچہ اے شخص اپنے بدن کے چراغ کو کام میں لا اور اپنے گرد و پیش نظر کر۔۔دیکھ کے زمانہ نئی بساط بچھاتا ہے اور نئے رنگ دکھاتا ہے اور اب جب کے دشنام کی آندھیاں گزر چکیں اور چڑھی ہوئی کمانیں اتر چکیں، اپنی زبان کو اپنے دہن میں سلا دے اور کدورتوں کو دل سے بھلا دے
اور اے شخص کیا تجھے یاد نہیں کہ لکھنے والے نے کتاب میں صدیوں پہلے لکھا تھا ‘‘عیب جوئی نہ کر کہ تیری بھی عیب جوئی نہ کی جائے’’ کیوں کہ جس طرح تو عیب کوئی کرتا ہے اسی طرح تیری بھی عیب جوئی کی جائے گی اور جس پیمانے سے تو ناپتا ہے اسی سے تیرے واسطے ناپا جائے گا
تو کیوں اپنے بھائی کے تنکے کو دیکھتا ہے اور اپنی آنکھ کے شہتیر پر بھی غور نہیں کرتا؟
اور جب تیری ہی آنکھ میں شہتیر ہے تو اپنے بھائی سے کیوں کر کہہ سکتا ہے کہ لا، میں تیری آنکھ سے تنکا نکال دوں؟
اے شکص آ۔۔ک تو اور میں اک دوسرے سے بہم ہوں کہ جب ہم بہم ہوں تو ’’ہم ‘‘ کے نام سے پکارے جاتے ہیں۔۔ہپاں وہی ’’ہم ‘‘ اپنی کمر کھولیں، اپنی دشمنیوں کوتہ کریں، اپنے جھگڑوں کو اندھے کنوئیں میں دھکیلں اور پنے قضیوں کو گڑھے میں دفن کریں۔۔
اے شخص آ کہ اب ہم اپنے تاکستانوں کی خبر لیں اور اپنی چراگاہوں کو دیکھیں۔۔ہم وہ سبیل ڈھو نڈیں اور وہ راہ نکالیں کہ ہمارے کھیت فصلوں سے چھلک رہے ہو اور ہمار دستر خوان خشک اور تر میووں سے مہک رہے ہو۔ہماری پوشاک سونے کے تاروں سے کاڑھی جائے اور ہماری عورتیں لعل و گہر کی دمک سے شب چراغ ہوں،، ہماری گلیوں میں خوش بوئوں کے کنٹر انڈیلے جائیں اور ہمارے محلوں میں خوشیاں بار پائیںً
ہمارے ذہنوں میں جگہ بنائے اور خرد ہمارے فیصلوں کو راہ دکھائے۔۔تاریکیاں ہماری بستوں سے رخصت ہوں اور روشنائیاں ہمارے قریوں میں جگمگائیں۔۔ویرانیوں کو موت آئے اور آبادیاں زندگی کو لبھائیں۔۔لوٹنے والوں کے ڈیرے برباد ہوں اور انصاف کرنے والوں کے گھروں میں شادیانے بجیں۔
امن ہمارے سروں پر آسمان بنے اور سلامتی ہمارے پیروں کے نیچے زمین ٹھہرے۔ہمارے بچے بڑھاپے کی دہلز آلانگیں اور ہمارے جوان زندگی کو گھونٹ گھونٹ پیں۔۔ہماری کنواریاں اپنے گھروں کی ہوں اور ہماری بیاہوں کے سہاگ سلامت رہیں
اے شخص اب جب کہ تہمتوں کی چڑھی ہوئی ندیاں اتر چکیں اور طنز کے سارے تیر کند ہو چکے۔۔۔آ۔۔۔ کہ تو اور میں ایک دوسرے سے بہم ہوں کہ جب تو ور مں بہم ہو گے تو’’ ہم ‘‘ کے نام سے پکاریں جائیں گے
اے شخص آ کہ ہم ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر سلامتی کی راہ پر چلیں اور ہمارے بعد کی نسلیں اور ان کے بعد اُن کی نسلیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Comment