Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

مجھے ضائع نہ ہونے

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • مجھے ضائع نہ ہونے

    اج عجیب سی طبیعت ہے گہری فسردگی اور ملال کی شام اور جان گسل بنجر یخ رات۔۔۔
    :( :( :(


    میں نے دوسروں کا بوجھ اٹھانا چاہا، پر اپنا بوجھ بھی نہ اٹھا سکا۔۔۔۔۔میں ن دوسروں کو سنبھالنا چاہا اور خود گر پڑا۔۔۔۔یہ اس کی آواز ہے جو اپنے سے مایوس ہوچکا ہے۔۔یہ وہ ہے جو اپنی ذات سے عاجز اچکا ہے۔۔تو رائیگاں ہی گیا اور کیسا رائیگاں، میں تو اپ اپنا خصارہ ہوں اور کیسا خسارہ۔۔


    میرے وجود کو دیمک لگ گئی ہے۔۔۔یہ دیمک میرے وجود کی دیواروں اور روکاروں کو چاٹ رہی ہے، یہاں اندھیرا ہے اور سیلن ہے۔۔۔۔کوئی ہے کوئی ہے؟ جو ان دروازوں اور دریچوں کو کھول دے کہ میرے ہاتھ شل ہو چکے ہیں۔۔۔۔میں نے اس طرح زندگی کے کتنے ہی موسم گزار دئے۔۔۔یہ میری سرشاری، میری شادابی اور میری بہار کے موسم تھے۔۔۔میں ہوائوں اور شعاعوں کو ترس گیا ہوں اور پھر یہ ہوا ہے کہ میں نے پھولی ہوئی پھپوندی ہوئی لاشوں کو اپنے ساتھ رکھ چھوڑا ہے۔۔

    میرے اندر زہر پھیلتا جا رہا ہے ۔۔کسی نے کہا تھا کہ زہر کا تریاق زہر ہے تو کیا اچھا ہوتا کہ میرے حلق میں زہر کے قرابے انڈیل دیے جاتے۔۔میں کیوں نہیں مان لیتا کہ میں نے ہلاکت ک- جراثیم کو اپنی ذات کا ایک حصہ سمجھ لیا ہے۔۔۔اواز نے میں کیوں نہیں مان لیتا کہ میں ن فساد کو جی لگا کر پالا اور پروان چڑھایا ہے۔۔اواز نے سسکتے ہوئے کہا۔۔مجھے کیا ہوگیا ہے۔۔میں ضائع ہو رہا ہوں۔۔۔۔مجھے ضائع نہ ہونے دو اور مجھے باہر نکالو۔۔۔ہوائوں میں اور شعاعوں میں۔۔۔میں نے اب تک اپا ایک ہی حق استعمال کرنا سیکھا ہے۔۔۔‘خودکشی کرنے کا حق’‘’ مجھ سے خود کشی کرنے کا یہ حق چھین لو اور مجھے باہر نکالو۔۔۔مجھے رائیگاں نہ جانے دو مجھے ضائع نہ ہونے دو۔۔مجھے ہلاکت کے اس تاریک مخروط سے باہر نکال لو۔۔
    :(

  • #2
    Re: مجھے ضائع نہ ہونے

    یہ زندگی ہے اے دوست یہاں کبھی ہار ملتی ہے اور کبھی جیت اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کوئی مسلسل ہار سے اکتا کر انسان نا امید ہوجاتا ہے رات کتنی ہی کالی کتنی طویل ہو اس کا اختتام ہوتا ہے
    آج ہم ہیں کل نہیں تھے پرسوں شائد نا ہوں ہم سے پہلے بھی یہ دنیا رواں دواں تھی اور ہمارے بعد بھی رہے گئی آج نظر آنے والے پچاس سال بعد سب میں سے کوئی نا ہو اور سو سال
    بعد تو یقینی کوئی نا ہو، چار سو کروڑ سال بعد یہ دنیا بھی نا رہے اور چودہ ارب ساب بعد یہ کائنات ہی نا رہے
    ابھی زندہ ہو شعور میں سمجھو یہ وقت کبھی پھر نہیں ملے گا خوش نصیب ہیں جو اسے پائیں انت تو ہی موت آسان سا چھٹکارا کچھ ایسا کرو جو کوئی یاد رکھے

    ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
    سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

    Comment

    Working...
    X