اج عجیب سی طبیعت ہے گہری فسردگی اور ملال کی شام اور جان گسل بنجر یخ رات۔۔۔
:( :( :(
میں نے دوسروں کا بوجھ اٹھانا چاہا، پر اپنا بوجھ بھی نہ اٹھا سکا۔۔۔۔۔میں ن دوسروں کو سنبھالنا چاہا اور خود گر پڑا۔۔۔۔یہ اس کی آواز ہے جو اپنے سے مایوس ہوچکا ہے۔۔یہ وہ ہے جو اپنی ذات سے عاجز اچکا ہے۔۔تو رائیگاں ہی گیا اور کیسا رائیگاں، میں تو اپ اپنا خصارہ ہوں اور کیسا خسارہ۔۔
میرے وجود کو دیمک لگ گئی ہے۔۔۔یہ دیمک میرے وجود کی دیواروں اور روکاروں کو چاٹ رہی ہے، یہاں اندھیرا ہے اور سیلن ہے۔۔۔۔کوئی ہے کوئی ہے؟ جو ان دروازوں اور دریچوں کو کھول دے کہ میرے ہاتھ شل ہو چکے ہیں۔۔۔۔میں نے اس طرح زندگی کے کتنے ہی موسم گزار دئے۔۔۔یہ میری سرشاری، میری شادابی اور میری بہار کے موسم تھے۔۔۔میں ہوائوں اور شعاعوں کو ترس گیا ہوں اور پھر یہ ہوا ہے کہ میں نے پھولی ہوئی پھپوندی ہوئی لاشوں کو اپنے ساتھ رکھ چھوڑا ہے۔۔
میرے اندر زہر پھیلتا جا رہا ہے ۔۔کسی نے کہا تھا کہ زہر کا تریاق زہر ہے تو کیا اچھا ہوتا کہ میرے حلق میں زہر کے قرابے انڈیل دیے جاتے۔۔میں کیوں نہیں مان لیتا کہ میں نے ہلاکت ک- جراثیم کو اپنی ذات کا ایک حصہ سمجھ لیا ہے۔۔۔اواز نے میں کیوں نہیں مان لیتا کہ میں ن فساد کو جی لگا کر پالا اور پروان چڑھایا ہے۔۔اواز نے سسکتے ہوئے کہا۔۔مجھے کیا ہوگیا ہے۔۔میں ضائع ہو رہا ہوں۔۔۔۔مجھے ضائع نہ ہونے دو اور مجھے باہر نکالو۔۔۔ہوائوں میں اور شعاعوں میں۔۔۔میں نے اب تک اپا ایک ہی حق استعمال کرنا سیکھا ہے۔۔۔‘خودکشی کرنے کا حق’‘’ مجھ سے خود کشی کرنے کا یہ حق چھین لو اور مجھے باہر نکالو۔۔۔مجھے رائیگاں نہ جانے دو مجھے ضائع نہ ہونے دو۔۔مجھے ہلاکت کے اس تاریک مخروط سے باہر نکال لو۔۔
:( :( :(
میں نے دوسروں کا بوجھ اٹھانا چاہا، پر اپنا بوجھ بھی نہ اٹھا سکا۔۔۔۔۔میں ن دوسروں کو سنبھالنا چاہا اور خود گر پڑا۔۔۔۔یہ اس کی آواز ہے جو اپنے سے مایوس ہوچکا ہے۔۔یہ وہ ہے جو اپنی ذات سے عاجز اچکا ہے۔۔تو رائیگاں ہی گیا اور کیسا رائیگاں، میں تو اپ اپنا خصارہ ہوں اور کیسا خسارہ۔۔
میرے وجود کو دیمک لگ گئی ہے۔۔۔یہ دیمک میرے وجود کی دیواروں اور روکاروں کو چاٹ رہی ہے، یہاں اندھیرا ہے اور سیلن ہے۔۔۔۔کوئی ہے کوئی ہے؟ جو ان دروازوں اور دریچوں کو کھول دے کہ میرے ہاتھ شل ہو چکے ہیں۔۔۔۔میں نے اس طرح زندگی کے کتنے ہی موسم گزار دئے۔۔۔یہ میری سرشاری، میری شادابی اور میری بہار کے موسم تھے۔۔۔میں ہوائوں اور شعاعوں کو ترس گیا ہوں اور پھر یہ ہوا ہے کہ میں نے پھولی ہوئی پھپوندی ہوئی لاشوں کو اپنے ساتھ رکھ چھوڑا ہے۔۔
میرے اندر زہر پھیلتا جا رہا ہے ۔۔کسی نے کہا تھا کہ زہر کا تریاق زہر ہے تو کیا اچھا ہوتا کہ میرے حلق میں زہر کے قرابے انڈیل دیے جاتے۔۔میں کیوں نہیں مان لیتا کہ میں نے ہلاکت ک- جراثیم کو اپنی ذات کا ایک حصہ سمجھ لیا ہے۔۔۔اواز نے میں کیوں نہیں مان لیتا کہ میں ن فساد کو جی لگا کر پالا اور پروان چڑھایا ہے۔۔اواز نے سسکتے ہوئے کہا۔۔مجھے کیا ہوگیا ہے۔۔میں ضائع ہو رہا ہوں۔۔۔۔مجھے ضائع نہ ہونے دو اور مجھے باہر نکالو۔۔۔ہوائوں میں اور شعاعوں میں۔۔۔میں نے اب تک اپا ایک ہی حق استعمال کرنا سیکھا ہے۔۔۔‘خودکشی کرنے کا حق’‘’ مجھ سے خود کشی کرنے کا یہ حق چھین لو اور مجھے باہر نکالو۔۔۔مجھے رائیگاں نہ جانے دو مجھے ضائع نہ ہونے دو۔۔مجھے ہلاکت کے اس تاریک مخروط سے باہر نکال لو۔۔
Comment