Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

وقت کے دوام میں

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • وقت کے دوام میں

    ۔

    حین ترجیت الخیر جا الشرو وا نتظرت النور فجا الدجی امعائی تغلی ولا تکف تقیمتنی ایام المذلۃ اسودات بلا شمس قمت امعائی فی الجاعۃ اصرغ صرت اخلالذیائب و صاحبا لریال النعا حرش جلدی علی وعظامی احترقت من الحررات و صاررعودی للنوح و من مزمری خرجت صوت الباکین

    ۔۔‘‘ جب میں بھلائی کا امیدوار تھا تو برائی پیش ائی اور جب میں نے روشنی کا انتظار کیا تو اندھیرا آپہنچا،،۔مجھے مزلت لے دنوں نے آ لیا۔میں دھوپ کے بغیر کالا پڑ گیا ہوں۔۔میں جماعت کے درمیان کھڑا چیخ رہا ہوں۔۔میں گیدڑوں کا بھائی اور شتر مرغوں کا ساتھی ٹھہرا ہوا۔۔میری کھال کھرچ ڈالی گئی اور میری ہڈیاں حرارت سے جل گئیں۔۔میرے ستارے نوحہ گروں کی فریاد اور میری بانسری سے رونے والوں کی آوواز نکلتی ہے’’۔۔



    وقت کے دوام میں

    یہ ماحول کے حساس وجود کا نوحہ ہے۔۔اس عذاب نے ہماری نصف زندگی کو جلا کر راکھ کر دیا ہے۔اور پھر یہ راکھ ہمیں لباس کی طرح پہنا دی گئی۔۔ایک غیر مختصر مدت سے ذہن اداس اور سینے ویران ہیں۔۔جنہوں نے آرزئوں اور امیدوں کے ذخیرے اکھٹے کئے تھے ان کے پاس کیا رہا؟ یہ آزمائش ان لوگوں کے سر پر ٹوٹی ہے جو سوچنے اور سمجھنے والے ہیں۔۔امنگوں کے قحط اور محرمیوں کی گرم بازاری نے حؤصلہ مندی کی کمر توڑ دی ہے اور ہوا یہ کہ روحیں اپنے وطن میں غریب الوطن و گئیں۔۔تلخ کلامی اور تلخ کامی کی صدیاں گزارنے کے بعد بھی انہیں ایلوا چٹایا گیا۔۔ایسا ہے کہ ہم لوگ اندھیروں کی کوکھ سے پیدا ہوئے ہیں اور اندھیروں میں گھسٹے جا رہے ہیں۔اس فضا میں زندگی اپنے بازو نہیں پھیلاتی۔۔۔میں اپنے گرد و پیش نظر ڈالتا ہوں تو وہاں تہذیب کے مبصروں اور معاشرت کے جذامیوں کے سوا کچھ نظر نہیں اتا۔۔ ان کی نیتوں کو اہانت انگیز روگ لگ گئے ہیں۔اور میں سوچنے والا محسوس کرنے والا شہر کا ایک شہری ان میں سے ایک ہوں۔ہم سب شارع عام کے ایک جانب مسکنت خذلان کے چبوترے پر بیٹھے ہیں۔۔۔۔ندامت محسوس کرنے اور ملامت لکھنے کے سوا اور کیا کر سکتا ہوں۔۔کیا ایسوں کے لیے مناسب نہ ہوگا کہ وہ محسوس کرنا، سوچنا اوور لکھنا ہی چھوڑ دیں۔۔یہ اچھا ہے یہ اس سے اچھا ہے کہ محسوس کیا جائے اور بطلان محسوس کیا جائے۔سوچا جائے اور بطلان سوچا جائے لکھا جئاے اور بطلان لکھا جائے اور یہی ہوا بھی۔ان کی ساری باتیں اور کہاوتیں محض جھوٹ کا طومار ہیں۔۔


    جب سعادت اور خوش حالی کی قسمتیں بانٹی گئیں تو جہالت بے حسی اور خود غرضی نے دہراحصہ پایا اور احساس و شعور کو ان کی محرومی کے گوشوارے تیار کرنے کی خدمت سپرد کی گئی۔۔ یہ عمر بھر کا کام تھا جو ان کے لیے چنا گیا تھا اور اس خسارے کی تلافی حشر کے دن ہونے والی تھی۔امیدوں کے بہت سے مذہب اور بہت سے مسلک ہیں سو ہم نے مدتوں ان راتوں میں اپنے بستر درست کئے جن کی شامیں بھی ابھی سنولائی نہ تھیں۔۔اور ان صبحوں میں بیداری کے گہرے سانس لیے جن کی راتیں بھی بھیگنے نہ پائی تھیں۔۔ اتحاد و اتفاق نے اپنے لیے ایک حصار بنایا تھا۔۔تفرقے جاگے اور انہوں نے اپنے اپنے مورچے سنبھال لیے۔یہ ہے ان بستیوں کا تاریخ نامہ کون کہ سکے گا کہ یہ ایک قوم ہیں؟؟یہاں کے نوجوان بزرگ حاکم شہری کسی ایک اصل اور ایک سر چشمے کے وارث ہیں۔۔یہ تو ایک بھیڑ ہے ایک ہجوم ہے مکھیوں کے ڈنگاروں سے بھی زیادہ حقیر ۔۔۔انہیں قرنوں کی درس گاہوں میں ایک درد دیا جاتا رہا ، کہ خدا کو یاد رکھو اور انسان کو بھول جاو۔ان درد گاہوں میں اقتدار کو دلیل اور قوت کو برہان کے طور پر پیش کیا گیا۔۔چاہا گیا کہ عقل کو عقیدوں کا محکوم بنا کر رکھا جائے ۔اس فرض کی بجا آوری نے محضر تیار کئے اور مقتلوں کا حق ادا کیا۔۔استغاثہ اور احتجاج کرنے والے ہر دور میں اپنے فریضے پورے کرتے رہے وہ اج بھی اپنا خون جلا رہے ہیں اپنے گلے خشک کر رہے ہیں مگر ان کی رائے ہی کیا جن کی بناتیں سنی نہ جائیں۔پس جو وہا اگر وہ نہ ہوتا تو اخر اور کیا ہوتا۔۔جو بویا گیا تھا وہی کاٹا جاتا رہا پھر یہ حیرت کیوں ؟



    ہم سب کو دوبارہ پیدا ہونا چاہیے۔۔ہمارے وجود کی سرنوشت یک سر ناقابل تنسیخ ہے۔۔ہر پہلو اور ہر پہلو سے دکھ لیا اور نتیجے میں جھنجلاہٹ کے سوا کچھ بھی نہیں پایا گیا۔آخر کار وہ سب کچھ ماننا پڑے گا جس کا انکار کیا جاتا رہا اور یہ ہمارا میلاد ثانی ہوگا۔۔وہ صرف مستقبل ہے جو انسانیت کے لیے اسم اعظم کا درجہ رکھتا ہے ہم نے آج تک ماضی کے نفوس اور نفوذ سے تمسخر کیا ہے اور اس کا بھگتان بھگتا ہے۔کیا یہ لوگ ا بھی مستقبل سے منہ موڑ رہے ہیں مگر مدتقبل نے افراد کی سفارش کبھی نہیں سنی اس نے قوموں سے ہمشہ اقدار کے حوالے طلب کئے ہیں۔جہاں افراد کو اقدار کا بدل سمھا جائے ان آبادیوں سے مستقبل کی سفارتیں اور رسالتیں نہیں گزرتیں۔اگر اقدار کا محکمہ قضا انسانوں کے لیے مرگ و ہلاکت کا فیصلہ صادر کرے تو انیں اطاعت میں گردنیں جھکا دینی چاہیے۔۔اقدار کی تجویز کی ہوئ موت افراد کی بخشی ہوئی زندگی سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ ان اقدار میں سب سے بڑی قدر خود زندگی ہے۔۔ہوا یہ کہ ہم نے اقدار کا دامن چھوڑ دیا۔۔تاریخ کے بہاو سے انکار کرنے ولوں کا نصیب ہلاکت ہے چاہے اس کے خوشے آج توڑے جائیں یا کل۔۔۔




    :rose

    :(
Working...
X