اے کلاس جہنم، سی کلاس جنت۔!!۔
ایک شیخ صاحب مرنے کے بعد جنت میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے کہ دروغہ جنت نے انہیں روک لیا اور پوچھا ‘‘ تم خود کو جنت میں داخلے کا حقدار کیسے سمجھتے ہو؟ ’’ شیخ صاحب نے جواب دیا کہ اس لیے کہ میں نے دنیا میں کچھ نیکیاں کمائی ہیں فرشتے نے پوچھا مثلا؟ شیخ صاحب بولے کہ میں پانچ وقت کا نمازی ہوں حج بھی کیا ہوا ہے۔اس پہ فرشتے نے جواب دیا یہ تو تمارا ذاتی فعل ہے یہ بتاو کہ اس کی مخلوق کے ساتھ کبھی نیکی کی؟ شیخ صاحب بولے ایک دفعہ میں نے ایک فقیر کو چونی دی تھی فرشتے نے پوچھا اس قسم کی کوئی اور نیکی شیخ صاحب سوچ میں پڑ گئے بالا خر بولے اور تو کوئی نیکی یاد نہیں ا رہی ۔۔فرشتے نے جیب سے ایک چونی نکال کر شیخ صاحب کے ہاتھ پر رکھی اور انہیں گردن سے پکڑ کر باہر دھکیلتے ہوئے کہا یہ لو اپنی چونی اور دوزخ کا رخ کرو
:fight:
جب بھی مجھے یہ لطیفہ یاد اتا ہے تو میں نے سوچتا ہوں کہ شیخ صاحب نے اپنی جو نیکیاں گنوائیں وہ تو محض مذاق کے زمرے میں اتی تھیں اس کے باوجود ان کو اس کا اجر رقم کی صورت میں واپس دیا گیا جبکہ میں نے شیخ صاحب سے کہیں زیادہ اچھے کام کئے ہیں کہ اگر اللہ تعالی میرے ان کاموں کو قبول کر لیں تو مجھے جنت کی سی کلاس میں جگہ مل ہی سکتی ہے ۔۔سی کلاس میں ممکن ہے مجھے ادھوری نعمتیں ملیں اور مفت بھی نہ ملیں بلکہ اس کے ساتھ کچھ مشقت بھی لی جائے پھر بھی کوئی حرج نہیں ،نعمتوں میں کٹوتی کی صورت یہ بھ ہو سکتی ہے کہ حوروں سے صرف گفتگو کی جازات ہو گ ان سے کوئی خدمت نہیں لی جا سکے گی یعنی ہاتھ پائوں نہیں دبوائے جاسکتے۔ شراب طہورا میہا کی جائے گی مگر پینے کی جازات نہیں ہوگی۔ پھلوں میں صرف گنڈیریاں بیر ملوک وغیرہ ملیں گے انواع اقسام کے کھانوں کے بجائے سنگل ڈش پر گزارا کرنا ہوگا۔عالی شان محل کے بجائے دوکمروں کا گھر ہوگا۔ پہننے کو رزق برق لباس کے بجائے کاٹن کے شلوار کرتے ملیں گے۔۔نعمتوں میں ان کٹوتیوں کے علاوہ جنت کی سی کلاس میں جو مشقت لی جائے گی اس میں ٹی وی سے نو بجے کا خبرنامہ دیکھنا لازمی ہوگا۔ ڈاکٹر عامر لیاقت کے کالم پڑھنے کو کہا جائے گا جنت میں میرے گھر کے قریب مسجد میں چھ لوڈ سپکیر فٹ ہونگیے جہاں سے مولوی ( اگر جنت میں مولوی صاحب ہوئے تو ) کی چنگھاڑیں سنائی دیا کرے گی۔اک اذیت ہ بھی مکن ہے کہ ہمسائے میں مظفر وارثی صاحب کو رکھا جائے مزید اذیت کے لیے شام کا اخبار پڑھنے کو دئے جائیں نیز جنت کی سی کلاس میں نجلی کی لوڈ شیڈنگ بھی ہوگی اور اس لوڈ شڈنگ کا اعلان پہلے سے نہیں کیا جائے گا گویا سی کلاس میں مجھے وہی زندگی گزارنی ہوگی جو میں اور مڈل کلاس کے دوسرے لوگ اس دنیا میں برس ہا برس سے گزارتے چلے آ رہے ہیں!
ایک خیل میرے ذہن میں یہ بھی ایا کہ اگر جنت میں تھوڑی نیکیاں کے لیے سی کلاس ہو سکتی ہے تو جہنم میں کم گنہاگاروں کے لیے ممکن ہے اے کلاس کا انتظام ہو چنانچہ اللہ تعالی کے ھضور میری چند نیکیاں قبول نہ ہوئیں تو ممکن ہے اللہ تعالی عفع درگزر سے کام لیتے ہوئے مجھ گناہ گار کو جنم کی سی کلاس کے میں رکھنے کے بجائے جہنم کی اے کلاس میں جگہ دے دیں یہ اے کلاس کچھ اس طرح کی ہو سکتی ہے کہ یہاں دروغہ جہنم بغیر کوئی وجہ بتائے اٹھا کر عقوبت خانے میں جا کر لہولان کر دے اے کلاس میں جہنمیوں کو پیاس لگنے پر پیپ پلانے کے بجائے جوہڑ کا گندا پانی پینے کو دیا جائے بیمار ہونے پہ علاج کی سہولت نہ ہو ۔۔ایک کمرے میں اٹھ دس جہنمیوں کو اکھٹا رکھا جائے پھٹے پرانے کپڑے پہننے کو دئے جائیں گھر میں کہیں کہیں دن کا فاقہ ہو غرصیکہ میرے خیال میں جہنم کی اے کلاس تقریبا ویسی ہی ہوگی جیسےپاکتسان کے کروڑوں عوام برس ہا برس سے گزار رہے ہیں۔سو اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ مرنے کے بعد کس کو کسی زندگی گزانرے کا موقع دے گا میں تو ۃر حال میں شکر ادا کرنے والوں مں سے ہوں لیکن اگر وہ مجھ پہ مہربان ہو کر میرے ھق سے زیادہ عطا کر دے تو اس سے زیادہ خوش نصیبی کیا ہو سکتی ہے ۔مجھے ذای طور پر جنت کی سی کلاس پر بھی کوئی اعتراض نہیں کہ یہ مجھے اپنی موجودہ زندگی سے کافی قریب لگتی ہے
:rose
ایک شیخ صاحب مرنے کے بعد جنت میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے کہ دروغہ جنت نے انہیں روک لیا اور پوچھا ‘‘ تم خود کو جنت میں داخلے کا حقدار کیسے سمجھتے ہو؟ ’’ شیخ صاحب نے جواب دیا کہ اس لیے کہ میں نے دنیا میں کچھ نیکیاں کمائی ہیں فرشتے نے پوچھا مثلا؟ شیخ صاحب بولے کہ میں پانچ وقت کا نمازی ہوں حج بھی کیا ہوا ہے۔اس پہ فرشتے نے جواب دیا یہ تو تمارا ذاتی فعل ہے یہ بتاو کہ اس کی مخلوق کے ساتھ کبھی نیکی کی؟ شیخ صاحب بولے ایک دفعہ میں نے ایک فقیر کو چونی دی تھی فرشتے نے پوچھا اس قسم کی کوئی اور نیکی شیخ صاحب سوچ میں پڑ گئے بالا خر بولے اور تو کوئی نیکی یاد نہیں ا رہی ۔۔فرشتے نے جیب سے ایک چونی نکال کر شیخ صاحب کے ہاتھ پر رکھی اور انہیں گردن سے پکڑ کر باہر دھکیلتے ہوئے کہا یہ لو اپنی چونی اور دوزخ کا رخ کرو
:fight:
جب بھی مجھے یہ لطیفہ یاد اتا ہے تو میں نے سوچتا ہوں کہ شیخ صاحب نے اپنی جو نیکیاں گنوائیں وہ تو محض مذاق کے زمرے میں اتی تھیں اس کے باوجود ان کو اس کا اجر رقم کی صورت میں واپس دیا گیا جبکہ میں نے شیخ صاحب سے کہیں زیادہ اچھے کام کئے ہیں کہ اگر اللہ تعالی میرے ان کاموں کو قبول کر لیں تو مجھے جنت کی سی کلاس میں جگہ مل ہی سکتی ہے ۔۔سی کلاس میں ممکن ہے مجھے ادھوری نعمتیں ملیں اور مفت بھی نہ ملیں بلکہ اس کے ساتھ کچھ مشقت بھی لی جائے پھر بھی کوئی حرج نہیں ،نعمتوں میں کٹوتی کی صورت یہ بھ ہو سکتی ہے کہ حوروں سے صرف گفتگو کی جازات ہو گ ان سے کوئی خدمت نہیں لی جا سکے گی یعنی ہاتھ پائوں نہیں دبوائے جاسکتے۔ شراب طہورا میہا کی جائے گی مگر پینے کی جازات نہیں ہوگی۔ پھلوں میں صرف گنڈیریاں بیر ملوک وغیرہ ملیں گے انواع اقسام کے کھانوں کے بجائے سنگل ڈش پر گزارا کرنا ہوگا۔عالی شان محل کے بجائے دوکمروں کا گھر ہوگا۔ پہننے کو رزق برق لباس کے بجائے کاٹن کے شلوار کرتے ملیں گے۔۔نعمتوں میں ان کٹوتیوں کے علاوہ جنت کی سی کلاس میں جو مشقت لی جائے گی اس میں ٹی وی سے نو بجے کا خبرنامہ دیکھنا لازمی ہوگا۔ ڈاکٹر عامر لیاقت کے کالم پڑھنے کو کہا جائے گا جنت میں میرے گھر کے قریب مسجد میں چھ لوڈ سپکیر فٹ ہونگیے جہاں سے مولوی ( اگر جنت میں مولوی صاحب ہوئے تو ) کی چنگھاڑیں سنائی دیا کرے گی۔اک اذیت ہ بھی مکن ہے کہ ہمسائے میں مظفر وارثی صاحب کو رکھا جائے مزید اذیت کے لیے شام کا اخبار پڑھنے کو دئے جائیں نیز جنت کی سی کلاس میں نجلی کی لوڈ شیڈنگ بھی ہوگی اور اس لوڈ شڈنگ کا اعلان پہلے سے نہیں کیا جائے گا گویا سی کلاس میں مجھے وہی زندگی گزارنی ہوگی جو میں اور مڈل کلاس کے دوسرے لوگ اس دنیا میں برس ہا برس سے گزارتے چلے آ رہے ہیں!
ایک خیل میرے ذہن میں یہ بھی ایا کہ اگر جنت میں تھوڑی نیکیاں کے لیے سی کلاس ہو سکتی ہے تو جہنم میں کم گنہاگاروں کے لیے ممکن ہے اے کلاس کا انتظام ہو چنانچہ اللہ تعالی کے ھضور میری چند نیکیاں قبول نہ ہوئیں تو ممکن ہے اللہ تعالی عفع درگزر سے کام لیتے ہوئے مجھ گناہ گار کو جنم کی سی کلاس کے میں رکھنے کے بجائے جہنم کی اے کلاس میں جگہ دے دیں یہ اے کلاس کچھ اس طرح کی ہو سکتی ہے کہ یہاں دروغہ جہنم بغیر کوئی وجہ بتائے اٹھا کر عقوبت خانے میں جا کر لہولان کر دے اے کلاس میں جہنمیوں کو پیاس لگنے پر پیپ پلانے کے بجائے جوہڑ کا گندا پانی پینے کو دیا جائے بیمار ہونے پہ علاج کی سہولت نہ ہو ۔۔ایک کمرے میں اٹھ دس جہنمیوں کو اکھٹا رکھا جائے پھٹے پرانے کپڑے پہننے کو دئے جائیں گھر میں کہیں کہیں دن کا فاقہ ہو غرصیکہ میرے خیال میں جہنم کی اے کلاس تقریبا ویسی ہی ہوگی جیسےپاکتسان کے کروڑوں عوام برس ہا برس سے گزار رہے ہیں۔سو اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ مرنے کے بعد کس کو کسی زندگی گزانرے کا موقع دے گا میں تو ۃر حال میں شکر ادا کرنے والوں مں سے ہوں لیکن اگر وہ مجھ پہ مہربان ہو کر میرے ھق سے زیادہ عطا کر دے تو اس سے زیادہ خوش نصیبی کیا ہو سکتی ہے ۔مجھے ذای طور پر جنت کی سی کلاس پر بھی کوئی اعتراض نہیں کہ یہ مجھے اپنی موجودہ زندگی سے کافی قریب لگتی ہے
:rose
Comment