Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

سقراط سے سرمد تک

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • سقراط سے سرمد تک


    سقراط سے سرمد تک


    کون باور کرے گا کہ اس دور میں بھی عقل و علم اور فکر و نظر کی مخالفت کی جاسکتی ہے۔فلاسفہ ور مفکرین کا مذاق اڑیایا جاسکتا ہے اور س عہد میں بھی لئیموں کو حکیموں پر ترجیح دی جاسکتی ہے اور ہمارا سب سے بڑا جرم ہی یہ قرار دیا گیا ہے کہ علم و فکر کی بات کرتے ہیں ابن رشد اور شہاب الدین سہروردی کے نام عقیدت و احرام سے زبان پہ لاتے ہیں۔۔ظاہر ہے کہ ہم شدید ترین جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں۔ہمیں ان جرائم کی عقوبت میں وہی اذیتیں برداشت کرنی چاہیے جو حنین ابن اسحاق، ابن رشد گلیلیو، فردوسی، البیرونی کو برداشت کرنا پڑی تھیں ہم اسی سزا کے مستوجب ہیں جو سقراط برونو اور شہاب الدین سہروردی، منصور حلاج اور سرمد کے لیے تجویز کی گئی تھیں یعنی الم ناک مشقتیں اور دردناک موت۔۔ہمارے پیش روئوں کے لیے کلیسائے جہالت کے پادریوں کے پاس تکفیر اور شمشیر کے علاوہ اور ہے بھی کیا ؟ تکفیر اور شمشیر، ان دو چیزوں کے ذریعے ہمیشہ علم اور انسانیت کی زبان کو خاموش کیا گیا


    حیرت ہے کہ لوگ اپنے نامہ اعمال پر شرمندہ کیوں نہیں ہوتے انہیں انسانیت کا سامنا کرنے کی جرات کس طرح ہوتی ہے ان میں جہالت و وحشت پر اصرار کرنے کی جسارت کہاں سے آئی ؟ کس قدر مظلوم تھے ہمارے پیش رو اور کس قدر بدنصیب ہیں ہم کہ ہمیں انسانوں کی اس دنیا میں ہمیشہ عقل کی اہمیت ثابت کرنا پڑی ہمیں اس دعوے پر دلیل لانا پڑتی ہے کہ آفتاب رنگ و نور کا نقیب ہوتا ہے۔ اج جب کہ ترقی یافتہ قومیں کرہ ارض کو پوری طرح مفتوح کر کے سیاروں کی طرف بڑھ رہی ہیں ہم اس بحث میں مبتلا ہیں کہ علم و عقل کی واقعتا کوئی قدر و قیمت ہے یا نہیں ہمیں فکری مسائل چھیڑنے سے پہلے اب بھی یہ سوچنا پڑتا ہے کہ کہیں جبین جہالت پر شکن نہ پڑ جائے کہیں مزاج رجعت پرستی برہم نہ ہو جائے۔۔ہم پر ملک و قوم کے ان گنت حقوق ہیں مگر ان میں سے اب تک کوئی حق ادا نہیں کر سکے۔۔البتہ ہم نے اپنی قوم کی ذہنی اورفکری تعمیر کے لیے کچھ نہ کچھ سوچا ہے اور کچھ عہد کئے ہیں اور طے کیا ہے کہ اس سلسے میں اپنا فرض ضرور ادا کریں گے لیکن رجعت پرستی اپنی قدیم دنایت اور عداوت کے ساتھ اج بھی ہمارے خلاف صف آرا ہے ہم پر طرح طرح کےالزمات عائد کئے جاتے ہیں ظاہر ہے اگر ہم اپنے مقاصد میں خلوص رکھتے ہیں اور خلوص کے ساتھ عزم بھی تو ہمیں ان تمام الزمات کو برداشت کرنا چاہیے۔۔دانش و حکمت کو ہمیشہ تہمتوں اور ملامتوں کا نشانہ بنایا گیا ہے، صدیاں صدیوں کو نسلیں نسلوں کو اپنا وارث بناتی چلی ائی ہیں اور یہی ہوتا رہا۔ یہ کوئی اج کی بات نہیں اور ویسے بھی علم اس دنیا میں نو وارد ہے۔رہی جہالت تو اس کو بلاشبہ طوالت سن اور قدامت عہد کا قابل رشک امتیاز حاصل ہے وہ اپنی جاگیر میں کسی دوسرے کا تصرف اسانی سے گوارا نہیں کرتی







    جاری ہے
    :(

  • #2
    Re: سقراط سے سرمد تک

    آپ کی جس دھماکے دار تحریر کے لئے یہ تمہید باندھی ہے اُس کا انتظار رہے گا
    :star1:

    Comment


    • #3
      Re: سقراط سے سرمد تک

      تاریخ کا ہر معتبر طالب علم جانتا ہے کہ اگر دوسری صدی ہجری کی علمی رو کو نہ روکا جاتا تو فکر و ثقافت کی تاریخ دوسرے ہی عنوان سے لکھی جاتی اور متمدن دنیا کی دانش گاہوں میں ڈیکارٹ، لاک لیبنز، ابن ہیشم خیام اور ان کی تلامذہ پر تقریریں کی جاتیں اور ان کی تصنیفات کے درد دئے جاتے مگر ایسا کیوں ہوتا۔ مشرقی کلیسا کے رجعت پرست ایسا کیوں ہونے دیتے۔۔مشرقی کلیسا کے رجعت پسند جنہوں نے علم و افکار کی طاقت ور رو کو مشرق میں ہی نہیں روکا، مگرب میں بھی اپنی تباہ کن تصنیفات کے ذریعے اس کی مزاحمت ک اور اٹلی کے عقل دشمن پادریوں کا تقویت پہنچائی یہ دوسری بات ہے کہ وہاں ان کو اور ان کے مغربی حلیفوں کو مآل کار شکست کھانا پڑی اور یورپ کی نشاۃ ثانیہ کا پرجلال آفتاب طلوع ہوگیا مگر ہمارے علاقوں میں یہ مقابلہ اور مقاومت ابھی جاری ہے اور جو داستان سقراط سے شروع ہو کر سرمد تک کہیں خونیں ابواب سے گزر چکی تھی ابھی کچھ اور فصلوں کا اضافہ چاہتی ہے مگر یہ فصلیں اب نہیں لکھی جائیں گی اب ان قلموں کو شکستہ ہونا پڑے گا


      سوال کرنے والے اکثر ہم سے سوال کرتے ہیں کہ اسلامی فکری خانقاہیں اور علمی خانوادے کیوں صدیوں سے بے چراغ ہیں ؟ وہ روشنیاں کن افقوں میں گم ہو گئیں جنہوں نےن کبھی انسانیت کبری کا فروغ بخشا تھا ذہنوں کی محرابیں روشن کی تھیں وہ ذہن کیا ہوئے جنہوں نے اقوام ملل کے لیے نسخہ ہائے شفا تحریر کیے تھے وہ اپنے سولات ک جواب چاہتے ہیں وہ پوچھتے ہیں کہ اخر مشرق اسلامی مشرق میں صنعتی انقلاب کیوں نہیں آیا یہاں سائنسی ارتقا کی فضا سازگار کیوں نہ ہو سکی؟ کیا اس کا مطلب یہ کہ فطرت نے مشرق کے ھق میں معاندانہ بخل اختیار کر لیا ہے کہ ییاں نظریات وضع کرنے والے ذہن اور اکتشفات و ایجادات کرنے والے دماغ پیدا ہی نہیں ہوتے۔یا پھر یہ کہ ہامری زبانوں ہی میں یہ صلاحیت نہیں کہ اعلی نظریات و افکار کا ذریعہ بن سکیں اس ذہنی جمود و تعطل اور دماغی انحطاط و تنزل کا اخر سبب کیا ہے؟


      جاری ہے
      :(

      Comment


      • #4
        Re: سقراط سے سرمد تک

        بتائے ان سوالوں کا جواب کون دے گا؟ کیا ہم جو اس تباہ کن صورت حال کے خلاف جنگ کر رہے یں یا وہ جو اس کے ذمہ دار ہیں؟ یجن کی علم، دشمنی او ارتقا گریزی نے یہ سوالات پیدا کئے ہیں؟ جنہوں نے ماضی میں یونانی، اسکندریائی، بازنطینی اور عجمی علوم و افکار کو عقلی مغلاطوں سے تعبیر کیا تھا اور ان تمام تصنیفات کے دیکھنے او پڑھنے کو حرام قرار دے دیا تھا جن میں فلسفہ اور منطق کی اصطلاحات ہوتی تھیں۔جنہوں نے محققوں دانش وروں فلسفیوں کے لیے قتل کے فتقے صادر کیے تھے جو تاریخ کی اندھھیری گلیوں میں راز زنوں اور قاتلوں کی طرح مارے مارے پھرتے تھے کہ اگر شاہراہ علم و ارتقا سے کوئی معارف بدوش اور حکمت متاع قافلہ گزرے تو جھٹ حملہ کر دیں۔۔ اج بھی رجعت و جہالت کی تاریک کمیں گاہوں میں بیٹھے ہوئے دانش و بینش کی روشنیوں کو اپی عداوت و نفرت کا ہدف بنا رہے ہیں۔۔اسلامی مشرق کی ذہنی اخلاقی اور تہذیبی پس ماندگی کا سبب انہیں سے دریافت کیا جائے اور بہ جبر دریافت کیا جائے۔

        جاری ہے
        :(

        Comment


        • #5
          Re: سقراط سے سرمد تک

          مشرق صدیوں سے پس ماندہ ہے مگر اس کا سبب یہ ہر گز نہیں کہ ییاں اختراع و اجتہاد کی صلاحت رکھنے والے ذہن پید نہیں ہوتے او عقل کا تخت رواں صرف یورپ ہی میں نازل ہوا ہے اور نہ ہم مان سکتے ہیں کہ ہماری زبانوں میں کوئی نقص ہے۔۔ہم فرانس کے مستشرق ارنسٹ رینان کی یہ بات تسلیم کر سکتے ہیں کہ عربی زبان فلسفیانہ مسائل کے لیے موزوں نہ تھی۔یہ سب کچھ غلط ہے اسلامی مشرق کی فکری اور ذہنی زوال کی ذمے داری صرف ان لوگوں پر ہے جو دوسری صدی ہجری سے لیکر اج تک علم و فکر کی مزاحمت کرتے رہے ہیں اور کبھی چین سے نہیں بیٹھے۔۔سرسید کی مسائل شناسی عقلیت پرستی اور روشن خیالی کو انہوں نے کفر وبدعت سے تعبیر کیا قائد اعظم رحمتہ علیہ کے خلاف انہوں نے سازشیں کی۔۔پاستان میں انہیں شرمندہ ہو کر منہ چھپا لینا چاہیے تھسا مگر یہ اپنی مفسدہ پردازی پر قائم رہے اور عجیب عجیب طریقوں سے سازشوں کے قمار خانے چلاتے رہے۔۔

          پاکستان بے معنی اور فتنہ انگیز نعروں سے نجات پا چکا ہے وہ عقل پر ستی اور مسائل شناسی کے سہارے وجود میں ایا تھااور انہی سہاروں کے ساتھ مستقبل کی نئی منزلوں پر خیمہ انداز ہوگا۔ اس سلسے میں ہمپر جو فرائض عائد ہوتے ہیں ہم نے انہیں خلوص اور عزم کے ساتھ قبول کر لیا ہے


          ہم ماضی کی قدیم علمی خانقاوں اور علم و حکمت کے رواقوں سے زاد سفر لے کر قوموں اور قرنوں کا جائزہ لینے نکلے تھے ہم نے اس سفر میں پاکتسانی ذہن کی حیات نو کے لیے کچھ سرمایہ منتخب کیا ہے۔یہ سرمائی یونان کے فلسفیوں اور اسکندریہ کے محصلوں، عربوں کے شارحوں،بغداد و بخارا کے حکمت شنسوں، قرطبہ اور قاہرہ کے دانش وروں اور جدید عہد کے مفکروں کی بخششوں پر مشتمل ہے۔۔اس میں ماضی کی حکمتیں، حال کی بصیرتیں اور مستقبل کی سعادتیں پوشیدہ ہیں یہ سرمایہ دانش و دلیل اور حب وحکمت کا سرمایہ ہے۔۔۔کیا پاکستان کی نیہ نسلیں اس سرمائے کو قبول کر لیں گی؟


          خوش رہیں


          فاسٹس
          :(

          Comment


          • #6
            Re: سقراط سے سرمد تک

            buhat khoob.....

            Comment


            • #7
              Re: سقراط سے سرمد تک

              Bohat achi tehreer ha

              Comment

              Working...
              X