سقراط سے سرمد تک
کون باور کرے گا کہ اس دور میں بھی عقل و علم اور فکر و نظر کی مخالفت کی جاسکتی ہے۔فلاسفہ ور مفکرین کا مذاق اڑیایا جاسکتا ہے اور س عہد میں بھی لئیموں کو حکیموں پر ترجیح دی جاسکتی ہے اور ہمارا سب سے بڑا جرم ہی یہ قرار دیا گیا ہے کہ علم و فکر کی بات کرتے ہیں ابن رشد اور شہاب الدین سہروردی کے نام عقیدت و احرام سے زبان پہ لاتے ہیں۔۔ظاہر ہے کہ ہم شدید ترین جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں۔ہمیں ان جرائم کی عقوبت میں وہی اذیتیں برداشت کرنی چاہیے جو حنین ابن اسحاق، ابن رشد گلیلیو، فردوسی، البیرونی کو برداشت کرنا پڑی تھیں ہم اسی سزا کے مستوجب ہیں جو سقراط برونو اور شہاب الدین سہروردی، منصور حلاج اور سرمد کے لیے تجویز کی گئی تھیں یعنی الم ناک مشقتیں اور دردناک موت۔۔ہمارے پیش روئوں کے لیے کلیسائے جہالت کے پادریوں کے پاس تکفیر اور شمشیر کے علاوہ اور ہے بھی کیا ؟ تکفیر اور شمشیر، ان دو چیزوں کے ذریعے ہمیشہ علم اور انسانیت کی زبان کو خاموش کیا گیا
حیرت ہے کہ لوگ اپنے نامہ اعمال پر شرمندہ کیوں نہیں ہوتے انہیں انسانیت کا سامنا کرنے کی جرات کس طرح ہوتی ہے ان میں جہالت و وحشت پر اصرار کرنے کی جسارت کہاں سے آئی ؟ کس قدر مظلوم تھے ہمارے پیش رو اور کس قدر بدنصیب ہیں ہم کہ ہمیں انسانوں کی اس دنیا میں ہمیشہ عقل کی اہمیت ثابت کرنا پڑی ہمیں اس دعوے پر دلیل لانا پڑتی ہے کہ آفتاب رنگ و نور کا نقیب ہوتا ہے۔ اج جب کہ ترقی یافتہ قومیں کرہ ارض کو پوری طرح مفتوح کر کے سیاروں کی طرف بڑھ رہی ہیں ہم اس بحث میں مبتلا ہیں کہ علم و عقل کی واقعتا کوئی قدر و قیمت ہے یا نہیں ہمیں فکری مسائل چھیڑنے سے پہلے اب بھی یہ سوچنا پڑتا ہے کہ کہیں جبین جہالت پر شکن نہ پڑ جائے کہیں مزاج رجعت پرستی برہم نہ ہو جائے۔۔ہم پر ملک و قوم کے ان گنت حقوق ہیں مگر ان میں سے اب تک کوئی حق ادا نہیں کر سکے۔۔البتہ ہم نے اپنی قوم کی ذہنی اورفکری تعمیر کے لیے کچھ نہ کچھ سوچا ہے اور کچھ عہد کئے ہیں اور طے کیا ہے کہ اس سلسے میں اپنا فرض ضرور ادا کریں گے لیکن رجعت پرستی اپنی قدیم دنایت اور عداوت کے ساتھ اج بھی ہمارے خلاف صف آرا ہے ہم پر طرح طرح کےالزمات عائد کئے جاتے ہیں ظاہر ہے اگر ہم اپنے مقاصد میں خلوص رکھتے ہیں اور خلوص کے ساتھ عزم بھی تو ہمیں ان تمام الزمات کو برداشت کرنا چاہیے۔۔دانش و حکمت کو ہمیشہ تہمتوں اور ملامتوں کا نشانہ بنایا گیا ہے، صدیاں صدیوں کو نسلیں نسلوں کو اپنا وارث بناتی چلی ائی ہیں اور یہی ہوتا رہا۔ یہ کوئی اج کی بات نہیں اور ویسے بھی علم اس دنیا میں نو وارد ہے۔رہی جہالت تو اس کو بلاشبہ طوالت سن اور قدامت عہد کا قابل رشک امتیاز حاصل ہے وہ اپنی جاگیر میں کسی دوسرے کا تصرف اسانی سے گوارا نہیں کرتی
جاری ہے
Comment