Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

ظاہر کی آنکھ

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • ظاہر کی آنکھ


    ظاہر کی آنکھ اور اسی تناظر میں ایک خوبصورت غزل نذر آبی ٹو کول


    چند روز قبل جب ہم اپنے مکان کو مڑنے والی سڑک پہ پہنچے تو نکڑ پر ہم نے ایک دبلے پتلے سے شخص کو ایک مکان کی دیوار کے نیچے اینٹوں پہ اینٹیں رکھ کر ایک چبوترا سا بناتے دیکھا۔تھوڑی دیر بعد جب ہم دوبارہ ادھر سے گزرے تو ان اینٹوں پر ایک کو
    اس نے ایک دری سے چھپا دیا تھا اور مکان کی دیوار کے ساتھ تین قد آدم بورڈ کھڑے کر دئے تھے ان بورڈوں پر کسی بارعب پہلوان کی تصویر تھی جس نے سر پر پگڑی باندھی ہوئی تھی اور ہاتھوں میں مگدر پکڑا تھا۔دوسرے بورڈ پر موٹے موٹے لفظوں میں لکھا ہاو تھا ’’ جلنے والے کا منہ کالا ‘‘ اور تیسرے بورڈ پر اتنے ہی جلی حروف میں عرفی کا یہ شعر لکھا ہوا تھا ؎
    عرفی تو میندیش نہ زغوغائے رقیباں
    اواز سگاں کم نہ کند رزق گدارا
    یہ دیکھ کر ہم پر دہشت طاری ہو گئی ۔چنانچہ ہم نے وہاں کھڑے ایک شخص سے تصویر والے بورڈ کے بارے میں پوچھا کہ اس تصویر میں جو پہہلوان صاحب ہیں یہ کون ہیں ؟ تو اس نے ایک دبلے پتلے اور نحیف و نزار شخص کی طرف اشارہ کر کے کہا ’’ یہ ان پہلوان صاحب کی تصویر ہے‘‘ اور یہ وہی ’’ پہلوان صاحب ‘‘ تھے جنہیں ہم نے صبح اینٹیں جوڑ جوڑ کے چبوترا بناتے دکھا تھا۔۔پھر ہم نے باقی بورڈوں یعنی جلنے والے کا منہ کالا اور اواز شگاں کم نہ کند۔۔ کے بارے میں دریافت کیا کہ ہ ساری دھمکیاں کس لیے ہیں ؟ تو اس نے بتایا ’’ پہلوان صاحب ‘‘ یہاں کوئی کاروبار شروع کرنے والے ہیں اور ساری دھنکیاں مستقبل کے اس حریف دکان دار کے لیے ہیں جو ان کے سامنے دکان کرے گا۔تب ہم نے پوچھا کہ ان پہلوان صاحب کا ارداہ کس قسم کا کاروبار کرنے کا ہے ؟ اس پر اس شخص نے بے خبری کا اظہار کیا۔۔۔تاہم جب ہم اگلے روز ادھر سے گزرے تو ہمیں معلوم ہوا کہ پہلوان صاحب کا ارادہ یہاں پکوڑے لگانے کا ہے کیونکہ ایک چولہے پر انہوں نے ایک کڑھائی چڑھائی ہوئی تھی برابر میں ایک تھال پڑا تھا اور خود پہلوان صاحب مٹی کی ایک کنالی میں دونوں ہاتھوں سے بیسن مل رہے تھے۔

    اب اگر سچ پوچھیں تو قد اور بورڈ پہ پہلوان صاحب کی بارعب تصویر اور دوسرے بوروڈوں پر ان کی خود اعتمادی کی مظہر عبارتیں پڑھ کر ہم تو سمجھے تھے کہ کوئی بڑا بزنس مین یہاں اپنے کاروبار کا اغاز کرنے والا ہے جس کے بعد علاقے کی اکثر دکانیں بند ہو جائیں گی مگر جب ہم نے اصلی پہولان صاحب کو دیکھا اور انہیں پکوڑے لگاتے پایا تو ہمیں اچھا خاصا دھچکا سا محسوس ہوا اور طاہر ہے اس میں یہمارا اپنا قصور تھا کیونکہ بزرگوں نے تو پہلے ہی کہا تھا ؎
    ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی

    اس ظاہر کی آنکھ سے تماشا کرنے کا خمیازہ ہم نے اس سے پہلے بھی کئی بار بھگتا ہے۔۔چنانچہ ہم نے بڑے بڑے ادبی پہلوان دیکھے کہ سر پہ دستار اور ہاتھ میں مگدر ہے ان کی طرف سے بلند و بانگ دعوے بھی ہماری نظر سے گزرے مگر جب ’’ ظاہر کی آنکھ ‘‘ سے تماشا کیا تو انہیں پکوڑے بیچتے ہی پایا۔ کئی دانشوروں نے بھی پبلک کے سامنے اپنی یہی تصویر پیش کی لیکن جب قریب سے انہیں دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ جو سودا بیچتے ہیں اس کے لی ایک کڑاہی اور ایک تھالی اور ایک کنالی درکار ہے۔’’ بعض علما کرام کے بڑے بورڈ دیکھے اور تو دل پہ ہیبت طاری ہو گئی مگر جب ذرا قریب ہوئے تو دیکھا کہ نہ سر پہ دستار ہے نہ ہاتھ میں علم کا عصا بس ایک کڑاہی اور ایک تھال ہے۔حکومتوں کی پبلسٹی فلموں میں بھی حکومتوں کو سر پہ پگڑی باندھے اور ہاتھ میں مگدر پکڑے دیکھا مگر جب ظاہر کی آنکھ سے ان ’’ پہلوانوں‘‘ کو دیکھا تو ن کی جان گوڈوں میں اڑئی ہوئی تھی بڑی بڑ ی سیاسی جماعتوں کے پبلسٹی بورڈ دیکھے تو یہ تاثر ملا کہ ان کی دستار بندی کی تقریب میں پورےملک کے عوام شریک ہوئے تھے اور یہ مگدر بھی انہوں نے ہی ان کے ہاتھ دیا ہے مگر قریب سے دیکھنے پہ پتہ چلا کہ ان کے لیڈر اپنے گھر کی سیڑھیاں اتریں تو ان کے لیے علاقہ غیر شروع ہو جاتا ہے سو اب ہم اس نتیجے پہ پہنچے ہیں کہ قصور دراصل ہماری بصارت کا نہیں بصیرت کا ہے یعنی بصیرت کی وولٹیج میں کمی بیشی کی وجہ سے ہمیں بڑے بڑے ادبی علمی مذہبی اور سیاسی پہلوان بغیر دستار اور بغیر مگدر کے نظر اتے ہیں ورنہ ان کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے اور یہ ہم جو انہیں پکوڑے بیچتے دیکھتے ہیں یہ ظاہر کی آنکھ سے تماشا کرنے کا نتیجہ ہے جس کی ذًمہ داری ظاہر ہے ان پہ عائد نہیں ہوتی
    :shyy:






    طفلان کوچہ گرد کے پتھر بھی کچھ نہیں
    سودا بھی اک وہم ہے اور سر بھی کچھ نہیں

    میں اور خود کو تجھ سے چھپائوں گا یعنی میں
    لے دیکھ لے میاں مرے اندر بھ کچھ نہیں

    بس ایک غبار وہم ہے اک کوچہ گرد کا
    دیوار بود بھی کچھ نہیں اور در بھی کچھ نہیں

    یہ شہر دار و محتسب و مولوی ہی کیا
    پیر مغان و رند و قلندر بھی کچھ نہیں

    شیخ حرام لقمہ ک پروا ہے کیوں تمہیں

    مسجد بھی اس کی کچھ نہیں منبر بھی کچھ نہیں

    مقدور اپنا کچھ بھی نہیں اس دیار میں
    شاید وہ جبر ہے کہ مقدر بھی کچھ نہیں

    یاراں!!! تمہیں جو مجھ سے گلہ ہے تو کس لیے
    مجھ کو تو اعتراض خدا پر بھی کچھ نہیں


    :rose
    :(

  • #2
    Re: ظاہر کی آنکھ

    bohat khoon, achi tehreer hay :)
    sigpic

    Comment

    Working...
    X