فریڈرک نطشے کو اجکل میں پڑھ رہا گو یہ کافی ثقیل اور بھاری بھرکم انگلش میں ہے
کچھ سر سے گزر جاتی جو سمجھ اتی اس کو میں الگ سے نوٹ کر لیتا
چارلس ڈاروان نے کہا تھا کہ ہر حیوان نے اپنے سے بڑھ کر ایک جنس پیدا کی ہے وہ درجہ اسفل کے حیوانات سے شروع ہو کر انسان پر پہنچ کر ختم ہوھاتی ہے نتشے اس پہ ایک اضافہ کرتا ہے کہ انسان کو بھی اپنے سے بڑھ کر ایک جنس پیدا کرنی چاہیے جس کو وہ فوق البشر کا نام دیتا ہے تو فریڈرک نتشے کی کتاب زردشت نے کہا سے ایک اقتباس
’” بلندی نہیں پستی خطرناک ہے
وہ پستی جہاں کے نظر نیچے کی طرف پھسلتی ہے اور ہاتھ روکنے کے لیے اوپر کے طرف اٹھتے ہیں کیا ایسی جگہ دل اپنے دہرے عظم کی وجہ سے چکر کھانے لگتا ہے؟
آہ دوستو کیا میرے دل کا دہرا عظم تمہاری سمجھ میں اتا ہے ؟
ہاں یہی تو میرے لیے باعث پستی ہے کہ میری نظر اوپر کی طرف بڑھتی ہے اور میرا ہاتھ نیچے کی طرف ٹیک لگا کر رکنا چاہتا ہے
میرا عظم انسانوں کے ساتھ لپٹا ہوا ہے میں اپنے اپ کو انسانوں کے ساتھ زنجیروں سے باندھ رہا ہوں ، دراں حالے کہ میرا جی چاہتا ہے کہ میں اوپر کی طرف بڑھوں یعنی ‘‘’ فوق البشر ‘‘ کی طرف
کہاں ہیں وہ لوگ جن کا معیار الوہیت اتنا بلند ہے جتنا کسی کا ہوسکتا ہے اور جن کی دیں داری کی خبر کسی ’’ دین دار ‘‘ کو نہیں اور جو زردشت کی زبان سے یہ کہنے کے قابل ہو سکتے
’’ اگر دیوتائوں کا وجود ہوتا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ میں بھی دیوتا نہ ہوتا لہذا دیوتائوں کا وجود نہیں ہے
میں تو نتیجہ نکال چکا، اب نتیجہ مجھے نکال رہا ہے
تخیلق ، یہ درد کی کارگر دوا اور زندگی کا ہلکا ہونا ہے۔ مگر تخیلق کی گنجائش کہاں ہوتی اگر خدائوں کا وجود ہوتا
فریڈرک نطشے
کچھ سر سے گزر جاتی جو سمجھ اتی اس کو میں الگ سے نوٹ کر لیتا
چارلس ڈاروان نے کہا تھا کہ ہر حیوان نے اپنے سے بڑھ کر ایک جنس پیدا کی ہے وہ درجہ اسفل کے حیوانات سے شروع ہو کر انسان پر پہنچ کر ختم ہوھاتی ہے نتشے اس پہ ایک اضافہ کرتا ہے کہ انسان کو بھی اپنے سے بڑھ کر ایک جنس پیدا کرنی چاہیے جس کو وہ فوق البشر کا نام دیتا ہے تو فریڈرک نتشے کی کتاب زردشت نے کہا سے ایک اقتباس
’” بلندی نہیں پستی خطرناک ہے
وہ پستی جہاں کے نظر نیچے کی طرف پھسلتی ہے اور ہاتھ روکنے کے لیے اوپر کے طرف اٹھتے ہیں کیا ایسی جگہ دل اپنے دہرے عظم کی وجہ سے چکر کھانے لگتا ہے؟
آہ دوستو کیا میرے دل کا دہرا عظم تمہاری سمجھ میں اتا ہے ؟
ہاں یہی تو میرے لیے باعث پستی ہے کہ میری نظر اوپر کی طرف بڑھتی ہے اور میرا ہاتھ نیچے کی طرف ٹیک لگا کر رکنا چاہتا ہے
میرا عظم انسانوں کے ساتھ لپٹا ہوا ہے میں اپنے اپ کو انسانوں کے ساتھ زنجیروں سے باندھ رہا ہوں ، دراں حالے کہ میرا جی چاہتا ہے کہ میں اوپر کی طرف بڑھوں یعنی ‘‘’ فوق البشر ‘‘ کی طرف
کہاں ہیں وہ لوگ جن کا معیار الوہیت اتنا بلند ہے جتنا کسی کا ہوسکتا ہے اور جن کی دیں داری کی خبر کسی ’’ دین دار ‘‘ کو نہیں اور جو زردشت کی زبان سے یہ کہنے کے قابل ہو سکتے
’’ اگر دیوتائوں کا وجود ہوتا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ میں بھی دیوتا نہ ہوتا لہذا دیوتائوں کا وجود نہیں ہے
میں تو نتیجہ نکال چکا، اب نتیجہ مجھے نکال رہا ہے
تخیلق ، یہ درد کی کارگر دوا اور زندگی کا ہلکا ہونا ہے۔ مگر تخیلق کی گنجائش کہاں ہوتی اگر خدائوں کا وجود ہوتا
فریڈرک نطشے