Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

سونے كا پودا

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • سونے كا پودا

    محترم اجمل خٹك كے ایك خوبصورت اور معنی خیز پشتو علامتی افسانے كا ٹوٹی پھوٹی اردو میں ترجمہ پیش خدمت ہے۔۔۔۔۔ اُمید ہے قارئین پسند فرمائیں گے۔۔۔۔۔
    سونے كا پودا
    ایك بڑا كشادہ حجرہ ہے٬ لگ بھگ چالیس پچاس چارپائیاں پڑی ہیں٬ ہر چارپائی میں دو دو تین تین نوجوان بیٹھے ہوئے ہیں٬ حجرے كے دیواروں پہ مختلف جگہوں پہ بندوقیں لٹك رہی ہیں٬ ایك دیوار پہ كمان اور تركش اویزاں ہیں٬ ایك كونے میں كتے بندھے ہوئے ہیں۔ حجرے كے ایك كونے سے گھوڑوں كے ہنہنانے كی آوازیں بھی آرہی ہیں۔ بیچ والے كمرے میں سرسوں كے تیل والا دیا جل رہا ہے۔ سرخ و سفید چہروں٬ گھنی اور بارعب مونچھوں اور سرخ آنكھوں والے خوش پوش جوان بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان میں سے كچھ كے ہاتھوں میں بندوقیں ہیں اور اسے صاف كرنے میں مصروف ہیں كچھ خنجر تیز كر رہے ہیں٬ كوئی رسیاں بن رہا ہے تو كوئی كسی دوسرے كام میں مصروف ہے۔
    مجلس خوب گرم ہے باتیں ہو رہی ہیں۔ كوئی اپنے بیل كی تعریفیں كر رہا ہے تو كوئی اپنے مرغ كی صفت كرتے نہیں تھكتا٬ كوئی اپنے بندوق كی صفات بڑھ چڑھِ كر بیان كر رہا ہے تو كوئی اپنے تلوار و خنجر كی تعریف كر رہا ہے۔ كوئی نیزہ بازی میں ثانی نہیں ركھتا تو كوئی تیراندازی میں آگے ہے۔ اگر ایك بندہ ماضی كی كسی چھڑپ كا ذكر كر رہا ہے تو دوسرا كسی دوسری جنگ میں اپنے كارنامے بتا رہا ہے۔
    یہ لوگ باتوں میں مصروف ہیں كہ اتنے میں ایك باباجی آتے ہیں۔ لمبی پگڑی جس كا شملہ اوپر كی طرف كھڑا٬ سرخ لمبی داڑھی٬ عقاب كی مانند سرخ آنكھیں٬ سرخ و سفید چہرا٬ جیسے ہی حجرے میں وارد ہوتے ہیں تو یكدم خاموشی چھا جاتی ہے جیسے ادھر كوئی تھا ہی نہی ہر چھوٹا بڑا اپنی جگہ پہ كھڑا ہوتا ہے۔ یہ بوڑھا بیچ والی بڑی چارپائی پہ ٹیك لگا كے بیٹھ جاتا ہے اور باقی لوگوں كو بھی بیٹھنے كو كہتا ہے۔پھر ایك ایك چارپائی كی طرف دیكھتا ہے تمام حجرے كا بغور جائزہ لیتا ہے اور اپنی بارعب بھاری اواز میں پوچھتا ہے:
    "خان بازذ فلاں كدھر ہے اور فلاں كیوں نہیں آیا" تمام غیرحاضر بندوں كے بارے میں پوچھتا ہے اور خان باز جواب دیتا ہے۔ جیسے ہی اذان كی اواز سنائی دیتی ہے تو خان بابا فورًا اٹھِ جاتے ہیں اور تمام چھوٹے بڑے جو حجرے میں اس وقت موجود ہوتے ہیں بھی اس كے پیچھے اٹھ جاتے ہیں۔ اذان ابھی ختم بھی نہیں ہوئی ہوگی كہ سب مسجد میں ہوں گے۔ اس حجرے كا اور یہاں كے تمام حجروں كا یہی قاعدہ اور دستور ہے۔
    آج بھی دوسرے دنوں كی طرح حجرے میں خوب چہل پہل ہے۔ لیكن آج خان بابا كے ساتھ چارپائی پہ ایك اجنبی شخص بیٹھا ہوا ہے۔ اس كا ڈھیل ڈھول اور حركات و سكنات ایسے ہیں كہ یہاں كے لوگوں نے پہلے نہ تو كبھی اس كو دیكھا ہے نہ اس كے بارے میں سنا ہے۔ حجرے میں موجود ہر بندہ اس آدمی كو شك كی نگاہ سے گھور رہا ہے۔ اور یہ اجنبی اور خان بابا دونوں باتیں كر رہے ہیں۔ كچھ دیر بعد خان بابا حجرے والوں سے مخاطب ہو كے كہتا ہے:
    "اس جوان كے بارے میں آپ لوگوں كا كیا خیال ہے؟"
    ہر ایك اپنی رائے دیتا ہے۔ اكثر بندے كہتے ہیں كہ خان بابا ہمیں تو یہ كوئی مخبر نظر آتا ہے۔ خان بابا كہتا ہے كہ مجھے بھی یہی شك ہے۔ جب اجنبی یہ سنتا ہے تو مسكرا كر كہتا ہے :
    "خان بابا آپ لوگوں نے حكیم لقمان كا نام تو سنا ہوگا میں اُسی كا شاگرد ہو۔ اِس كی ایك كتاب كے چند ورق میرے پاس ہیں۔ اور میں ان كی مدد سے مٹی سے سونا بنا سكتا ہوں۔ میں نے كئی سالوں كی انتھك محنت اور مشقفت كے بعد حكمت اور علم كے بل پر ایك سونے كا پودا بھی بنا یا ہے۔ اجنبی كے ہاتھِ میں ایك پودا ہے اسے وہ خان بابا كو پیش كرتا ہے۔ یہ پودا پتوں كی جگہ سونے اور پھولوں اور پھلوں كی جگہ ہیرے اور جواہرات پیدا كرتا ہے٬ اجنبی بولا۔
    خانا بابا مسكرایا اور بولا: "اے اجنبی مسافر جب یہ اتنا قیمتی پودا ہے تو پھر تم خود كیوں در در كی خاك چھان رہے ہو؟ اس كو اپنے گھر لے جاؤ بس بادشاہ بن جاؤ گے"۔ خان بابا كی اس بات پہ سب لوگ ہنس پڑے اور مسافر نے بھی ہنس كر جواب دیا: "خان بابا میری بدقسمتی یہ ہے كہ میں نے اپنی حكمت اور دانائی سے یہ كمال تو كر دكھا یا ہے اس پودے كو پیدا كركے لیكن میں اپنی دھرتی كی مٹی كو تو نہیں بدل سكتا نا٬ میری دھرتی پہ اس پودے كا نشوونما پانا ناممكن ہے اگر وہاں اس پودے كو لگایا جائے تو یہ خراب ہوجائے گا كیونكہ وہاں كے حالات اور وہاں كی مٹی اس كے لئے سازگار نہیں ہے۔ میں ساری دنیا میں گھوم پھر كر یہاں آیا ہوں اور یہاں كی غیرتی مٹی ہی ایسی مٹی ہے جہاں اس كو كاشت كیا جاسكتا ہے۔
    خان بابا بولا: ٹھیك ہے لیكن اگر كوئی تین پانچ كیا تو زندگی سے ہاتھِ دھو بیٹھوگے"۔
    "خان بابا اگر مجھِ پہ آپ لوگوں كو شك ہے تو بے شك مجھے مار ڈالئے لیكن میری ساری عمر كی اس محنت كو كاشت كیجئے اگر واقعی اس میں كمال ہوگا تو میرے مرنے كے بعد بھی آپ لوگ میری تعریفیں كروگے اور اس پودے كا پھل آپ كو بادشاہ بنا دے گا۔ مسافر نے جواب دیا
    خان بابا بولا: اے مسافر تم دوست ہو كہ دشمن جو كوئی بھی ہو لیكن یہاں چونكہ مسافر اور مہمان ہو اس لئے تمھیں كچھ نہیں كہا جائے گا اور بے شك اس پودے كو یہاں لگا لو لیكن میں پھر كہتا ہوں كہ اگر كوئی گڑ بڑ ہوئی تو اچھا نہیں ہوگا۔
    مسافر پھر بولا: خان بابا میں آپ كے سامنے اس پودے كو یہاں لگاتا ہوں اگر اس نے آپ كے سامنے پھل نہیں دیا تو میں مجرم لیكن ہاں ایك شرط ہے كہ اس كا تعلق آپ لوگوں كے دلوں سے ہوگا اگر آپ لوگ اس سے محبت ركھیں گے تو ٹھیك نہیں تو یہ سوكھِ جائے گا۔ بابا بولا چلو یار ہمیں محبت ہے اس سے اب اسے لگا بھی دو۔ مسافر نے پودے كو لگایا اور جیسا كہ اس نے كہا تھا پودا لگتے ہی اس كے پتے سونے كے اور پھول ہیرے بن گئے۔ پھر كیا تھا حجرے كے لوگوں كی آنكھیں چمك اٹھی۔ جب ان كی جیبیں سونے سے بھر گئیں تو دماغ آسمان سے باتیں كرنے لگے۔ پودا لگ چكا تھا اور اس كے كمال كے چرچے دور دور تك ہورہے تھےاور لوگ اس پہ اپنی جان نچھاور كرنے كو تیار ہوگئے تھے۔ وقت گزرتا گیا اب پودے كے ساتھ لوگوں كا رشتہ مضبوط ہوگیا تھا اگر كوئی پودے كا نام بے عزتی سے لیتا تو اس كا سر قلم ہوجاتا اگر كوئی اسے ترچھی نظر سے دیكھتا تو اس كی آنكھیں ہتھیلی پر ركھِ دی جاتی۔ مجال تھی كہ كوئی پودے كی شان میں گستاخی كرے۔ رفتہ رفتہ پودے كے مالك اجنبی شخص پر بھی لوگوں كا عقیدہ پختہ ہوگیا تھا اور اسے پیر بنایا جا چكا تھا۔ لوگ اس كے ایك اشارے پر ناچتے تھے اور ہر كام اس كے كہنے پر ہی ہوتا تھا۔
    جن لوگوں نے پیر كو خوشی دی اور پودے كی خدمت كی وہ نواب بن گئے اور جو كم عقل تھے وہ ویسے كے ویسے ہی رہ گئے۔ اب ہر بندے كی یہی تمنا تھی كہ جیسے بھی ہو كہ وہ پیر صاحب كو خوش كرے اور پودے كی آبیاری كرے۔ اب لوگوں اپنے تمام كام بھلا چكے تھے اور ان كا صرف ایك ہی كام رہ گیا تھا كہ كسی نہ كسی طریقے سے پیر كو خوش كریں اور اس كی خوشنودی حاصل كریں۔
    وقت تیزی سے گرزتا گیا٬ اب نہ وہ خان بابا تھا اور نہ وہ حجرہ اور نہ اس حجرے كے لوگ۔ اب حجرہ ختم ہوگیا تھا اور اس خان بابا كے نواسے ایم اے خان نے اسی جگہ پہ ایك خوبصورت بنگلہ تعمیر كیا تھا۔ جب مسٹر گاؤں میں ہوتا تھا تو اسی میں ہوتا تھا نہیں تو دو تین نوكر ہر وقت اس میں رہتے تھے اور بس۔ اس پرانے حجرے كی وہ چہل پہل وہ ہجوم اب ایك خواب كی مانند تھی۔
    كہیں بھی دو بندے بات كرتے ہوئے دكھائی نہیں دیتے تھے۔ اور اگر ہوتے بھی تو یا تو ایك دوسرے كی غیبت كرتے تھے یا كسی دوسرے كے لئے كنواں كھودتے تھے۔ نہ كسی كے ہاتھِ میں تلوار تھی نہ بندوق٬ نہ نیزا تھآ كیونكہ پیر كے بقول اسلحے كا ہونا اس پودے كے لئے نیك شگون نہیں تھا۔ اس لئے اب اسلحہ ساتھ ركھنا جرم تھا۔ لوگوں كے جسم سوكھِ چكے تھے ٬ وہ سرخ و سفید چہرے اور بھاری بھركم جسم ٬ وہ پہلوانوں والے بازو٬ وہ عقابی آنكھیں٬ چیتوں جیسی مونچھیں اب سارے وطن میں كہیں دكھائی نہیں دیتی تھی۔ جوان بھی ہوتا تو اس كا جسم دبلا پتلا٬ زرد رنگت٬ مردہ اور بے جان آنكھیں٬ ریڑھِ كی ہڈی باہر كو نكلی ہوئی٬ سینے كی ہڈیاں دور سے دكھائی دیتی تھی جو كوئی چالیس سال كا ہوجاتا تو قبر اس كا ٹھكانا بن جاتا۔ لوگوں كے عمر كم ہوتے گئے٬ امراض زیادہ ہوتے گئے٬ بچے بھی پیدا ہوتے تو بیمار٬ اور بہت برے حال میں۔
    بھائی چارے كا بھی یہی حال تھا۔ خون سفید ہوگیا تھا۔ گاؤن اور وطن كو چھوڑ ایك گھر میں بھی اتفاق نہیں تھا۔ والد بیٹے سے ناراض بیٹا باپ سے خفا٬ بیٹی ماں سے نارضا اور ماں بیٹی سے ناخوش۔ اب غیرت اور حمیت نام كی كوئی چیز بھی نہیں رہ گئی تھی۔ نہ كوئی مشر تھا نہ كشر٬ نہ اپنا نہ پرایا۔ فقیروں كی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا ٬ مسجدوں میں اذان تو ہوتی تھی پر مقتدی نہیں ہوتے تھے۔ ہر كوئی فریاد كرتا دكھائی دیتا تھا۔ مختصر یہ كہ اس موجودہ وقت اور اس پرانے وقت میں زمین آسمان كا فرق تھآ۔
    یا اللہ یہ كیوں؟ اب تو پیسہ بھی بہت ہے سونے كا پودا اب ایك تناور درخت بن چكا ہے۔ زمانے نے بہت ترقی كرلی ہے ہر كام آسان ہوگیا ہے۔ چاہئئے تو یہی كہ یہ لوگ پہلے سے زیادہ خوشحال ہوں ان كے صحت اچھے اور زندگی خوشحال ہو لیكن یہاں تو قصہ ہی مختلف تھا۔ ہر ایك كے ذہن میں یہی باتیں گردش كر رہی تھی كہ اچانك ایك شور برپا ہوا اور شور كے ساتھِ ہی لوگ اس پودے كے اردگرد جمع ہوئے۔ ان كے ہاتھوں میں كلہاڑیاں ہیں ۔ پودے كا پیر ان كی منت سماجت كرتا ہے كہ اے لوگوں اگر مجھ پہ آپ كو شك ہو تو مجھے مار ڈالو لیكن اس پودے كو نقصان مت پہنچاؤ كیونكہ یہ میری محنت كا شاخسانہ ہے۔ اتنے میں ایك جوان آگے بڑھتا ہے اور كہتا ہے۔ اے پیر تم كیوں ناراض ہوتے ہو ہم تمہیں كچھِ نہیں كہنے والے۔ تم كو بہت خوش ركھیں گے لیكن اس پودے كو جڑوں سے اكھاڑیں گے۔ یہ كہتے ہی اس نے پودے كو اكھاڑنا شروع كیا۔ اور ساتھِ میں یہ بھی كہتا تھا كہ اس منحوس پودے كی وجہ سے ہم موت كے قریب پہنچ گئے تھے۔ یہ ظاہرًا تو ہمیں سونا دیتا ہے لیكن اس میں زہر ہوتا ہے۔ یہ سونے كا خنجر ہے جسے دشمن ہماری پیٹ میں داخل كرنا چاہتا ہے۔ جب سے اس منحوس پودے كی پرچھائی ہم پہ پڑی ہے تب سے ہم اپنے مذہب٬ اپنی تہذیب٬ اور اپنے درمیان اتفاق اور اتحاد كو بہلا چكے ہیں۔ یہ سونے كا پودا نہیں بلكہ شیطانی جال ہے۔ یہ كہتے ہی اس نے اس پودے كو اكھاڑ دیا۔ اس كی بہت لمبی جڑیں تھی میلوں دور تك پھیلی ہوئیں ۔
    "دیكھو بھائیوں یہ اس جڑوں كی مدد سے ہمارا خون چوستا تھا"۔
    خدا كی قدرت دیكھو ادھر پودے كو اكھاڑا گیا ادھر لوگوں كی حالت بہتر ہونے لگی ہر كوئی ہنستا مسكراتا نظر آیا۔ پودے كو اكھاڑنے والے نے پودے كو كھینچا اور زور سے اسے دور پھینك دیا اتنی دور كہ اس كا پتہ ہی نہ چلا۔ اور بولا كہ یہ لمبی لمبی جرڑیں ہماری رگوں٬ ذہنوں اور دلوں سے ہوتی ہوئی عین انگلستان تك گئی ہیں۔ لوگوں كے چہرے ایك بار پھر تمتما اٹھے ان كی آنكھیں روشن ہوگئی گویا وہ دوزخ سے جنت میں وارد ہوئے ہوں۔ نوجوان بولا:
    " اے لوگوں كچھ سمجھ آیا كہ نہیں یہ سونے كا پودا نہیں تھا لعنتی غلامی تھی خدا كا شكر ہے ہمیں اس سے نجات مل گئی۔ "
    مٹی كی محبت میں هم آشفته سروں نے--------وه قرض بھی اتارے هیں جو واجب هی نهیں تھے

  • #2
    Re: سونے كا پودا

    buhat khoob...

    Comment

    Working...
    X