Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

پطرس کے مضامین

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • پطرس کے مضامین


    پطرس کے مضامین

    ہاسٹل میں پڑنا


    ہم نے کالج میں تعلیم تو ضرور پائی اور رفتہ رفتہ بی اے بھی پاس کر لیا، لیکن اس نصف صدی کے دوران میں جو کالج میں گزارنی پڑی۔ ہاسٹل میں داخل ہونے کی اجازت ہمیں صرف ایک ہی دفعہ ملی۔
    خدا کا یہ فضل ہم پر کب اور کس طرح ہوا؟ یہ سوال ایک داستان کا محتاج ہے۔ جب ہم نے انٹرنس پاس کیا تو مقامی ا سکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب خاص طور پر مبارکباد دینے کے لیے آئے۔ قریبی رشتہ داروں نے دعوتیں دیں۔ محلے والوں میں مٹھائی بانٹی گئی اور ہمارے گھر والوں پر یک لخت اس بات کا انکشاف ہوا کہ وہ لڑکا جسے آج تک اپنی کوتاہ بینی کی وجہ سے ایک بےکار اور نالائق فرزند سمجھتے رہے تھے، دراصل لامحدود قابلیتوں کا مالک ہے۔ جس کی نشوونما پر بےشمار آنے والی نسلوں کی بہبودی کا انحصار ہے۔ چنانچہ ہماری آئندہ زندگی کے متعلق طرح طرح کی تجویزوں پر غور کیا جانے لگا۔
    تھرڈ ڈویژن میں پاس ہونے کی وجہ سے یونیورسٹی نے ہم کو وظیفہ دینا مناسب نہ سمجھا۔ چونکہ ہمارے خاندان نے خدا کے فضل سے آج تک کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا اس لیے وظیفے کا نہ ملنا خصوصاً ان رشتہ داروں کے لیے جو رشتے کے لحاظ سے خاندان کے مضافات میں بستے تھے، فخر و مباہات کا باعث بن گیا۔ اور "مرکزی رشتے داروں" نے تو اس کو پاس وضع اور حفظ مراتب سمجھ کر ممتحنوں کی شرافت و نجابت کو بے انتہا سراہا۔ بہرحال ہمارے خاندان میں فالتو روپے کی بہتات تھی۔ اس لیے بلا تکلف یہ فیصلہ کر لیا گیا کہ نہ صرف ہماری بلکہ ملک و قوم اور شاید بنی نوع انسان کی بہتری کے لیے یہ ضروری ہے کہ ایسے ہونہار طالب علم کی تعلیم جاری رکھی جائے۔
    اس بارے میں ہم سے بھی مشورہ کیا گیا۔ عمر بھر میں اس سے پہلے ہمارے کسی معاملے میں ہم سے رائے طلب نہ کی گئی تھی لیکن اب تو حالات بہت مختلف تھے۔ اب تو ایک غیرجانبدار اور ایماندار مصنف یعنی یونیورسٹی ہماری بیدار مغزی کی تصدیق کر چکی تھی۔ اب بھلا ہمیں کیونکہ نظرانداز کیا جا سکتا تھا۔ ہمارا مشورہ یہ تھا کہ ہمیں فوراً ولایت بھیج دیا جائے۔ ہم نے مختلف لیڈروں کی تقریروں سے یہ ثابت کیا کہ ہندوستان کا طریقہ تعلیم بہت ناقص ہے۔ اخبارات میں سے اشتہار دکھا دکھا کر یہ واضح کیا کہ ولایت میں کالج کی تعلیم کے ساتھ ساتھ فرصت کے اوقات میں بہت تھوڑی تھوڑی فیسیں دے کر بیک وقت جرنلزم، فوٹو گرافی، تصنیف و تالیف، دندان سازی، عینک سازی، ایجنٹوں کا کام غرض یہ کہ بےشمار مفید اور کم خرچ بالا نشیں پیشے سیکھے جا سکتے ہیں۔ اور تھوڑے عرصے کے اندر انسان ہر فن مولا بن سکتا ہے۔
    لیکن ہماری تجویز کو فوراً رد کر دیا گیا۔ کیونکہ ولایت بھیجنے کے لیے ہمارے شہر میں کوئی روایات موجود نہ تھیں۔ ہمارے گرد و نواح میں کسی کا لڑکا ابھی تک ولایت نہ گیا تھا اس لئے ہمارے شہر کی پبلک وہاں کے حالات سے قطعاً ناواقف تھی۔
    اس کے بعد پھر ہم سے رائے طلب نہ کی گئی اور ہمارے والد، ہیڈ ماسٹر صاحب اور تحصیلدار صاحب ان تینوں نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ ہمیں لاہور بھیج دیا جائے۔
    جب ہم نے یہ خبر سنی تو شروع شروع میں ہمیں سخت مایوسی ہوئی۔ لیکن جب ادھر اُدھر کے لوگوں سے لاہور کے حالات سنے تو معلوم ہوا کہ لندن اور لاہور میں چنداں فرق نہیں۔ بعض واقف کار دوستوں نے سینما کے حالات پر روشنی ڈالی۔ بعض نے تھیٹروں کے مقاصد سے آگاہ کیا۔ بعض نے ٹھنڈی سڑک وغیرہ کے مشاغل کو سلجھا کر سمجھایا۔ بعض نے شاہدرے اور شالامار کی ارمان انگیز فضا کا نقشہ کھینچا۔ چنانچہ جب لاہور کا جغرافیہ پوری طرح ہمارے ذہن نشین ہو گیا تو ثابت یہ ہوا کہ خوشگوار مقام ہے۔ اور اعلیٰ درجے کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بے حد موزوں۔ اس پر ہم نے اپنی زندگی کا پروگرام وضع کرنا شروع کر دیا۔ جس میں لکھنے پڑھنے کو جگہ تو ضرور دی گئی، لیکن ایک مناسب حد تک، تاکہ طبعیت پر کوئی ناجائز بوجھ نہ پڑے۔ اور فطرت اپنا کام حسن و خوبی کے ساتھ کر سکے۔
    لیکن تحصیلدار صاحب اور ہیڈ ماسٹر صاحب کی نیک نیتی یہیں تک محدود نہ رہی۔ اگر وہ ایک عام اور مجمل سا مشورہ دے دیتے کہ لڑکے کو لاہور بھیج دیا جائے تو بہت خوب تھا۔ لیکن انہوں نے تو تفصیلات میں دخل دینا شروع کر دیا۔ اور ہاسٹل کی زندگی اور گھر کی زندگی کا مقابلہ کر کے ہمارے والد پر یہ ثابت کر دیا کہ گھر پاکیزگی اور طہارت کا ایک کعبہ اور ہاسٹل گناہ و معصیت کا ایک دوزخ ہے۔ ایک تو تھے وہ چرب زبان، اس پر انہوں نے بےشمار غلط بیانیوں سے کام لیا۔ چنانچہ گھر والوں کو یقین سا ہو گیا کہ کالج کا ہاسٹل جرائم پیشہ اقوام کی ایک بستی ہے۔ اور جو طلباء باہر کے شہروں سے لاہور جاتے ہیں اگر ان کی پوری طرح نگہداشت نہ کی جائے تو وہ اکثر یا تو شراب کے نشے میں چوُر سڑک کے کنارے کسی نالی میں گرے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ یا کسی جوئے خانہ میں ہزارہا روپے ہار کر خودکشی کر لیتے ہیں یا پھر فرسٹ ائیر کا امتحان پاس کرنے سے پہلے دس بارہ شادیاں کر بیٹھے ہیں۔
    چنانچہ گھر والوں کو یہ سوچنے کی عادت پڑ گئی کہ لڑکے کو کالج میں تو داخل کیا جائے لیکن ہاسٹل میں نہ رکھا جائے۔ کالج ضرور مگر ہاسٹل ہرگز نہیں۔ کالج مفید۔ مگر ہاسٹل مضر۔ وہ بہت ٹھیک مگر یہ ناممکن۔ جب انہوں نے اپنی زندگی کا نصب العین ہی یہ بنا لیا کہ کوئی ایسی ترکیب سوچی جائے جس سے لڑکا ہاسٹل کی زد سے محفوظ رہے تو کسی ترکیب کا سوجھ جانا کیا مشکل تھا۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ چنانچہ از حد غور و خوض کے بعد لاہور میں ہمارے ایک ماموں دریافت کئے گئے۔ اور ان کو ہمارا سرپرست بنا دیا گیا۔ میرے دل میں ان کی عزت پیدا کرنے کے لیے بہت سے شجروں کی ورق گردانی سے مجھ پر یہ ثابت کیا کہ وہ واقعی میرے ماموں ہیں۔ مجھے بتایا گیا کہ جب میں ایک شیرخوار بچہ تھا تو وہ مجھ سے بے انتہا محبت کیا کرتے تھے۔ چنانچہ فیصلہ یہ ہوا کہ ہم پڑھیں کالج میں رہیں ماموں کے گھر۔
    اس سے تحصیل علم کا جو ایک ولولہ سا ہمارے دل میں اُٹھ رہا تھا وہ کچھ بیٹھ سا گیا۔ ہم نے سوچا یہ ماموں لوگ اپنی سرپرستی کے زعم میں والدین سے بھی زیادہ احتیاط برتیں گے جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ہمارے دماغی اور روحانی قویٰ کو پھلنے پھولنے کا موقع نہ ملے گا۔ اور تعلیم کا اصلی مقصد فوت ہو جائے گا۔ چنانچہ وہی ہوا جس کا ہمیں خوف تھا۔ ہم روزبروز مرجھاتے چلے گئے۔ اور ہمارے دماغ پر پھپھوندی سی جمنے لگی۔ سینما جانے کی اجازت کبھی کبھار مل جاتی تھی لیکن اس شرط پر کہ بچوں کو بھی ساتھ لیتا جاؤں۔ اس صحبت میں، میں بھلا سینما سے کیا اخذ کر سکتا تھا۔ تھیٹر کے معاملے میں ہماری معلومات اندر سبھا سے آگے بڑھنے نہ پائیں۔ تیرنا ہمیں نہ آیا کیونکہ ہمارے ماموں کا ایک مشہور قول ہے کہ ڈوبتا وہی ہے جو تیراک ہو جسے تیرنا نہ آتا ہو وہ پانی میں گھستا ہی نہیں۔ گھر پر آنے جانے والے دوستوں کا انتخاب ماموں کے ہاتھ میں تھا۔ کوٹ کتنا لمبا پہنا جائے، اور بال کتنے لمبے رکھے جائیں۔ ان کے متعلق ہدایات بہت کڑی تھیں۔ ہفتے میں دو بار گھر خط لکھنا ضروری تھا۔ سگریٹ غسل خانے میں چھپ کر پیتے تھے۔ گانے بجانے کی سخت ممانعت تھی۔
    یہ سپاہیانہ زندگی ہمیں راس نہ آئی۔ یوں تو دوستوں سے ملاقات بھی ہو جاتی تھی۔ سیر کو بھی چلے جاتے تھے۔ ہنس بول بھی لیتے تھے لیکن وہ جو زندگی میں ایک آزادی ایک فراخی، ایک وارفتگی ہونی چاہئے وہ ہمیں نصیب نہ ہوئی۔ رفتہ رفتہ ہم اپنے ماحول پر غور کرنا شروع کیا کہ ماموں جان عموماً کس وقت گھر میں ہوتے ہیں، کس وقت باہر جاتے ہیں، کس کمرے سے کس کمرے تک گانے کی آواز نہیں پہنچ سکتی، کس دروازے سے کمرے کے کس کونے میں جھانکنا ممکن ہے۔ گھر کا کون سا دروازہ رات کے وقت باہر سے کھولا جا سکتا ہے، کون سا ملازم موافق ہے، کون سا نمک حلال ہے۔ جب تجربے اور مطالعے سے ان باتوں کا اچھی طرح اندازہ ہو گیا تو ہم نے اس زندگی میں بھی نشوونما کے لیے چند گنجائشیں پیدا کر لیں۔ لیکن پھر بھی ہم روز دیکھتے تھے کہ ہاسٹل میں رہنے والے طلباء کس طرح اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر زندگی کی شاہراہ پر چل رہے ہیں۔ ہم ان کی زندگی پر رشک کرنے لگے۔ اپنی زندگی کو سدھارنے کی خواہش ہمارے دل میں روزبروز بڑھتی گئی۔ ہم نے دل سے کہا والدین کی نافرمانی کسی مذہب میں جائز نہیں۔ لیکن ان کی خدمت میں درخواست کرنا، ان کے سامنے اپنی ناقص رائے کا اظہار کرنا، ان کو صحیح واقعات سے آگاہ کرنا میرا فرض ہے۔ اور دنیا کی کوئی طاقت مجھے اپنے فرض کی ادائیگی سے باز نہیں رکھ سکتی۔
    چنانچہ جب گرمیوں کی تعطیلات میں، میں وطن کو واپس گیا تو چند مختصر مگر جامع اور مؤثر تقریریں اپنے دماغ میں تیار رکھیں۔ گھر والوں کو ہاسٹل پر سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ وہاں کی آزادی نوجوانوں کے لیے از حد مضر ہوتی ہے۔ اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے ہزارہا واقعات ایسے تصنیف کئے جن سے ہاسٹل کے قواعد کی سختی ان پر اچھی طرح روشن ہو جائے۔ سپرنٹنڈنٹ صاحب کے ظلم و تشدد کی چند مثالیں رقت انگیز اور ہیبت خیز پیرائے میں سنائیں۔ آنکھیں بند کر کے ایک آہ بھری اور بیچارے اشفاق کا واقعہ بیان کیا کہ ایک دن شام کے وقت بیچارا ہاسٹل کو واپس آ رہا تھا۔ چلتے چلتے پاؤں میں موچ آ گئی۔ دو منٹ دیر سے پہنچا۔ صرف دو منٹ۔ بس صاحب اس پر سپرنٹنڈنٹ صاحب نے فوراً تار دے کر اس کے والد کو بلوایا۔ پولیس سے تحقیقات کرنے کو کہا۔ اور مہینے بھر کے لیے اس کا جیب خرچ بند کروا دیا۔ توبہ ہے الٰہی!
    لیکن یہ واقعہ سن کر گھر کے لوگ سپرنٹنڈنٹ صاحب کے مخالف ہو گئے۔ ہاسٹل کی خوبی ان پر واضح نہ ہوئی۔ پھر ایک دن موقع پا کر بیچارے محمود کا واقعہ بیان کیا کہ ایک دفعہ شامت اعمال بیچارا سینما دیکھنے چلا گیا۔ قصور اس سے یہ ہوا کہ ایک روپے والے درجے میں جانے کی بجائے دو روپے والے درجے میں چلا گیا۔ بس اتنی سی فضول خرچی پر اسے عمر بھر کو سینما جانے کی ممانعت ہو گئی ہے۔
    لیکن اس سے بھی گھر والے متاثر نہ ہوئے۔ ان کے روئے سے مجھے فوراً احساس ہوا کہ ایک روپے اور دو روپے کی بجائے آٹھ آنے اور ایک روپیہ کہنا چاہئے تھا۔
    ان ہی ناکام کوششوں میں تعطیلات گزر گئیں اور ہم نے پھر ماموں کی چوکھٹ پر آ کر سجدہ کیا۔
    اگلی گرمیوں میں جب ہم پھر گھر گئے تو ہم نے ایک نیا ڈھنگ اختیار کیا۔ دو سال تعلیم پانے کے بعد ہمارے خیالات میں پختگی سی آ گئی تھی پچھلے سال ہاسٹل کی حمایت میں جو دلائل ہم نے پیش کی تھیں، وہ اب ہمیں نہایت بودی معلوم ہونے لگی تھیں۔ اب کے ہم نے اس موضوع پر ایک لیکچر دیا کہ جو شخص ہاسٹل کی زندگی سے محروم ہو اس کی شخصیت نامکمل رہ جاتی ہے۔ ہاسٹل سے باہر شخصیت پنپنے نہیں پاتی۔ چند دن تو ہم اس پر فلسفیانہ گفتگو کرتے رہے۔ اور نفسیات کے نقطہ نظر سے اس پر بہت کچھ روشنی ڈالی۔ لیکن ہمیں محسوس ہوا کہ بغیر مثالوں کے کام نہ چلے گا۔ اور جب مثالیں دینے کی نوبت آئی، تو ذرا وقت محسوس ہوئی۔ کالج کے جن طلبا کے متعلق میرا ایمان تھا کہ وہ زبردست شخصیتوں کے مالک ہیں، ان کی زندگی کچھ ایسی نہ تھی کہ والدین کے سامنے بطور نمونے کے پیش کی جا سکے۔ ہر وہ شخص جسے کالج میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا ہے، جانتا ہے کہ "والدینی اغراض" کے لیے واقعات کو ایک نئے اور اچھوتے پیرائے میں بیان کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے لیکن اس پیرائے کا سوجھ جانا الہام اور اتفاق پر منحصر ہے۔ بعض روشن خیال بیٹے اپنے والدین کو اپنے حیرت انگیز اوصاف کا قائل نہیں کر سکتے اور بعض نالائق سے نالائق طالب علم والدین کو کچھ اس طرح مطمئن کر دیتے ہیں کہ ہر ہفتے ان کے نام منی آرڈر چلا آتا ہے۔
    بناداں آں چناں روزی رساند
    کہ دانا اندراں حیراں بماند
    جب ہم ڈیڑھ مہینے تک شخصیت اور ہاسٹل کی زندگی پر اس کا انحصار، ان پر مضمونوں پر وقتاً فوقتاً اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہے تو ایک والد نے پوچھا:
    "تمہارا شخصیت سے آخر مطلب کیا ہے؟"
    میں تو خدا سے یہی چاہتا تھا کہ وہ مجھے عرض و معروض کا موقع دیں۔ میں نے کہا۔ "دیکھئے نا۔ مثلاً ایک طالب علم ہے، وہ کالج میں پڑھتا ہے۔ اب ایک تو اس کا دماغ ہے دوسرا اس کا جسم ہے۔ جسم کی صحت بھی ضروری ہے۔ اور دماغ کی صحت تو ضروری ہے ہی۔ لیکن ان کے علاوہ ایک اور بات بھی ہوتی ہے جس سے آدمی کو پہچانا جاتا ہے۔ میں اس کو شخصیت کہتا ہوں۔ اس کا تعلق نہ جسم سے ہوتا ہے نہ دماغ سے، ہو سکتا ہے کہ ایک آدمی کی جسمانی صحت بالکل خراب ہو اور اس کا دماغ بھی بالکل بیکار ہو، لیکن پھر بھی اس کی شخصیت۔۔۔ نہ خیر دماغ تو بیکار نہیں ہونا چاہئے ورنہ انسان خبطی ہوتا ہے لیکن پھر بھی اگر ہو بھی۔ تو بھی۔۔۔ گویا شخصیت ایک ایسی چیز ہے۔۔۔ ٹھہرئیے، میں ابھی ایک منٹ میں آپ کو بتاتا ہوں۔"
    ایک منٹ کی بجائے والد نے مجھے آدھ گھنٹے کی مہلت دی جس کے دوران میں وہ خاموشی کے ساتھ میرے جواب کا انتظار کرتے رہے، اس کے بعد وہاں سے اُٹھ کر چلا آیا۔
    تین چار دن کے بعد مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا، مجھے شخصیت نہیں سیرت کہنا چاہئے۔ شخصیت ایک بے رنگ سا لفظ ہے۔ سیرت کے لفظ سے نیکی ٹپکتی ہے۔ چنانچہ میں نے سیرت کو اپنا تکیہ کلام بنا لیا۔ لیکن یہ بھی مفید ثابت نہ ہوا۔ والد کہنے لگے۔ "کیا سیرت سے تمہارا مطلب چال چلن ہے یا کچھ اور؟" میں نے کہا "چال چلن کہہ لیجئے۔"
    "تو گویا دماغی اور جسمانی صحت کے علاوہ چال چلن بھی اچھا ہونا چاہئے۔"
    میں نے کہا۔ "بس یہی تو میرا مطلب ہے۔"
    "اور یہ چال چلن ہاسٹل میں رہنے سے بہت اچھا ہو جاتا ہے!"
    میں نسبتاً نحیف آواز سے کہا۔ "جی ہاں۔"
    "یعنی ہاسٹل میں رہنے والے طالب علم نماز، روزے کے زیادہ پابند ہوتے ہیں، ملک کی زیادہ خدمت کرتے ہیں ، سچ زیادہ بولتے ہیں، نیک زیادہ ہوتے ہیں۔"
    میں نے کہا۔ "جی ہاں"۔
    کہنے لگے۔ "وہ کیوں؟"
    اس سوال کا جواب ایک دفعہ پرنسپل صاحب نے تقسیم انعامات کے جلسے میں نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کیا تھا، اے کاش میں نے اس وقت توجہ سے سنا ہوتا!
    اس کے بعد پھر سال بھر میں ماموں کے گھر میں "زندگی ہے تو خزاں کے بھی گزر جائیں کے دن۔" گاتا رہا۔
    ہر سال میری درخواست کا یہی حشر ہوتا رہا لیکن میں نے ہمت نہ ہاری۔ ہر سال ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ لیکن اگلے سال گرمی کی چھٹیوں میں پہلے سے بھی زیادہ شدومد کے ساتھ تبلیغ کا کام جاری رکھتا۔ ہر دفعہ نئی نئی دلیلیں پیش کرتا، نئی نئی مثالیں کام میں لاتا۔ جب شخصیت اور سیرت والے مضمون سے کام نہ چلا تو اگلے سال ہاسٹل کی زندگی کے انضباط اور باقاعدگی پر تبصرہ کیا۔ اس سے اگلے سال یہ دلیل پیش کی کہ ہاسٹل میں رہنے سے پروفیسروں کے ساتھ ملنے جلنے کے موقعے زیادہ ملتے رہتے ہیں۔ اور ان "بیرون از کالج" ملاقاتوں سے انسان پارس ہو جاتا ہے۔ اس سے اگلے سال یہ مطلب یوں ادا کیا کہ ہاسٹل کی آب و ہوا بڑی اچھی ہوتی ہے۔ صفائی کا خاص طور پر خیال رکھا جاتا ہے۔ مکھیاں اور مچھر مارنے کے لیے کئی کئی افسر مقرر ہیں۔ اس سے اگلے سال یوں سخن پیرا ہوا کہ جب بڑے بڑے حکام کالج کا معائنہ کرتے آتے ہیں تو ہاسٹل میں رہنے والے طلباء سے فرداً فرداً ہاتھ ملاتے ہیں، اس سے رسوخ بڑھتا ہے لیکن جوں جوں زمانہ گزرتا گیا، میری تقریروں میں جوش بڑھتا گیا، معقولیت کم ہوتی گئی۔ شروع شروع میں ہاسٹل کے مسئلے پر والد مجھ سے باقاعدہ بحث کیا کرتے تھے۔ کچھ عرصے کے بعد انہوں نے یک لفظی انکار کا رویہ اختیار کیا۔ پھر ایک آدھ سال مجھے ہنس کے ٹالتے رہے۔ اور آخر میں یہ نوبت آن پہنچی کہ وہ ہاسٹل کا نام سنتے ہی طنز آمیز قہقہے کے ساتھ مجھے تشریف لے جانے کا حکم دے دیا کرتے تھے۔
    ان کے اس سلوک سے آپ یہ اندازہ نہ لگائیے کہ ان کی شفقت کچھ کم ہو گئی تھی، ہر گز نہیں حقیقت صرف اتنی ہے کہ بعض ناگوار حادثات کی وجہ سے گھر میں میرا اقتدار کچھ کم ہو گیا تھا۔
    اتفاق یہ ہوا کہ میں نے جب پہلی مرتبہ بی۔اے کا امتحان دیا، تو فیل ہو گیا۔ اگلے سال ایک مرتبہ پھر یہی واقعہ پیش آیا۔ اس کے بعد بھی جب تین چار دفعہ یہی قصہ ہوا تو گھر والوں نے میری امنگوں میں دلچسپی لینی چھوڑ دی۔ بی۔اے میں پے در پے فیل ہونے کی وجہ سے میری گفتگو میں ایک سوز تو ضرور آگیا تھا، لیکن کلام میں وہ پہلے جیسی شوکت اور میری رائے وہ پہلی جیسی وقعت اب نہ رہی تھی۔
    میں زمانۂ طالب علمی کے اس دور کا حال ذرا تفصیل سے بیان کرنا چاہتا ہوں۔ کیونکہ اس سے ایک تو آپ میری زندگی کے نشیب و فراز سے اچھی طرح واقف ہو جائیں گے اور اس کے علاوہ اس سے یونیورسٹی کی بعض بے قاعدگیوں کا راز بھی آپ پر آشکار ہو جائے گا۔
    میں پہلے سال بی۔اے میں کیوں فیل ہوا؟ اس کا سمجھنا بہت آسان ہے۔ بات یہ ہوئی کہ جب ہم نے ایف۔اے کا امتحان دیا تو چونکہ ہم نے کام خوب دل لگا کر کیا تھا، اس لیے ہم اس میں "کچھ" پاس ہی ہو گئے۔ بہرحال فیل نہ ہوئے، یونیورسٹی نے یوں تو ہمارا ذکر بڑے اچھے الفاظ میں کیا لیکن ریاضی کے متعلق یہ ارشاد ہوا کہ صرف اس مضمون کا امتحان ایک آدھ دفعہ پھر دے ڈالو۔ (ایسے امتحان کو اصطلاحاً کمپارٹمنٹ کا امتحان کہا جاتا ہے۔ شاید اس لیے کہ بغیر رضامندی اپنے ہمراہی مسافروں کے اگر کوئی اس میں سفر کر رہے ہوں، نقل نویسی کی سخت ممانعت ہے۔)
    اب جب ہم بی۔اے میں داخل ہونے لگے تو ہم نے یہ سوچا کہ بی۔اے میں ریاضی لیں گے۔ اس طرح سے کمپارٹمنٹ کے امتحان کے لیے فالتو کام نہ کرنا پڑے گا۔ لیکن ہمیں سب لوگوں نے یہ مشورہ دیا کہ تم ریاضی مت لو۔ جب ہم نے اس کی وجہ پوچھی تو کسی نے ہمیں کوئی معقول جواب نہ دیا لیکن جب پرنسپل صاحب نے بھی مشورہ دیا تو ہم رضامند ہو گئے۔ چنانچہ بی۔اے میں ہمارے مضامین انگریزی، تاریخ اور فارسی قرار پائے۔ ساتھ ساتھ ہم ریاضی کے امتحان کی بھی تیاری کرتے رہے۔ گویا ہم تین کی بجائے چار مضمون پڑھ رہے تھے۔ اس طرح سے جو صورت حال پیدا ہوئی اس کا اندازہ وہی لوگ لگا سکتے ہیں جنہیں یونیورسٹی کے امتحانات کا کافی تجربہ ہے۔ ہماری قوت مطالعہ منتشر ہو گئی اور خیالات میں پراگندگی پیدا ہوئی۔ اگر مجھے چار کی بجائے صرف تین مضامین پڑھنے ہوتے تو جو وقت میں فی الحال چوتھے مضمون کو دے رہا تھا۔ وہ بانٹ کر ان تین مضامین کو دیتا۔ آپ یقین مانئے اس سے بڑا فرق پڑ جاتا اور فرض کیا اگر میں وہ وقت تینوں کو بانٹ کر نہ دیتا بلکہ سب کا سب ان تینوں میں سے کسی ایک مضمون کے لیے وقف کر دیتا تو کم از کم اس مضمون میں تو ضرور پاس ہو جاتا۔ لیکن موجودہ حالات میں تو وہی ہونا لازم تھا جو ہوا۔ یعنی یہ کہ میں کسی مضمون پر بھی کماحقہٗ توجہ نہ کر سکا۔ کمپارٹمنٹ کے امتحان میں تو پاس ہو گیا لیکن بی۔اے میں ایک تو انگریزی میں فیل ہوا۔ وہ تو ہونا ہی تھا کیونکہ انگریزی ہماری مادری زبان نہیں۔ اس کے علاوہ تاریخ اور فارسی میں بھی فیل ہو گیا۔ اب آپ ہی سوچئے ناکہ جو وقت مجھے کمپارٹمنٹ کے امتحان پر صرف کرنا پڑا وہ اگر میں وہاں صرف نہ کرتا بلکہ اس کے بجائے۔۔۔ مگر خیر یہ بات میں پہلے عرض کر چکا ہوں۔
    فارسی میں کسی ایسے شخص کا فیل ہونا جو ایک علم دوست خاندان سے تعلق رکھتا ہو لوگوں کے لیے از حد حیرت کا موجب ہوا۔ اور سچ پوچھئے تو ہمیں بھی اس پر سخت ندامت ہوئی۔ لیکن خیر اگلے سال یہ ندامت دھل گئی۔ اور ہم فارسی میں پاس ہو گئے اور اس سے اگلے سال تاریخ میں پاس ہو گئے اور اس سے اگلے سال انگریزی میں۔
    اب قاعدے کی رو سے ہمیں بی۔اے کا سرٹیفکیٹ مل جانا چاہئے تھا۔ لیکن یونیورسٹی کی اس طفلانہ ضد کا کیا علاج کہ تینوں مضمونوں میں بیک وقت پاس ہونا ضروری ہے۔ بعض طبائع ایسی ہیں کہ جب تک یکسوئی نہ ہو، مطالعہ نہیں کر سکتے۔ کیا ضروری ہے کہ ان کے دماغ کو زبردستی ایک کھچڑی سا بنا دیا جائے۔ ہم نے ہر سال صرف ایک مضمون پر اپنی تمام تر توجہ دی اور اس میں وہ کامیابی حاصل کی کہ باید و شاید، باقی دو مضمون ہم نے نہیں دیکھے لیکن ہم نے یہ تو ثابت کر دیا کہ جس مضمون میں چاہیں پاس ہو سکتے ہیں۔
    اب تک تو دو دو مضمونوں میں فیل ہوتے رہے تھے لیکن اس کے بعد ہم نے تہیہ کر لیا کہ جہاں تک ہو سکا اپنے مطالعے کو وسیع کریں گے۔ یونیورسٹی کے بیہودہ اور بے معنی قواعد کو اپنی مرضی کے مطابق نہیں بنا سکتے تو اپنی طبعیت پر ہی کچھ زور ڈالیں۔ لیکن جتنا غور کیا اس نتیجے پر پہنچے کہ تین مضمونوں میں بیک وقت پاس ہونا فی الحال مشکل ہے۔ پہلے دو میں پاس ہونے کی کوشش کرنی چاہئے۔ چنانچہ ہم پہلے سال انگریزی اور فارسی میں پاس ہو گئے۔ اور دوسرے سال فارسی اور تاریخ میں۔
    جن جن مضامین میں ہم جیسے جیسے فیل ہوئے وہ اس نقشے سے ظاہر ہیں:
    (۱) انگریزی ۔۔۔ تاریخ۔۔۔ فارسی
    (۲) انگریزی۔۔۔ تاریخ
    (۳) انگریزی۔۔۔ فارسی
    (۴) تاریخ۔۔۔ فارسی
    گویا جن جن طریقوں سے ہم دو دو مضامین میں فیل ہو سکتے تھے وہ ہم نے سب پورے کر دئے۔ اس کے بعد ہمارے لیے دو مضامین میں فیل ہونا ناممکن ہو گیا۔ اور ایک ایک مضمون میں فیل ہونے کی باری آئی۔ چنانچہ اب ہم نے مندرجہ ذیل نقشے کے مطابق فیل ہونا شروع کر دیا:
    (۵) تاریخ میں فیل
    (۶) انگریزی میں فیل
    اتنی دفعہ امتحان دے چکنے کے بعد جب ہم نے اپنے نتیجوں کو یوں اپنے سامنے رکھ کر غور کیا تو ثابت ہوا کہ غم کی رات ہونے والی ہے۔ ہم نے دیکھا کہ اب ہمارے فیل ہونے کا صرف ایک ہی طریقہ باقی رہ گیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ فارسی میں فیل ہو جائیں۔ لیکن اس کے بعد تو پاس ہونا لازم ہے ہرچند کہ یہ سانحہ از حد جانکاہ ہو گا۔ لیکن اس میں یہ مصلحت تو ضرور مضمر ہے کہ اس سے ہمیں ایک قسم کا ٹیکا لگ جائے گا۔ بس یہی ایک کسر باقی رہ گئی ہے۔ اس سال فارسی میں فیل ہوں گے اور پھر اگلے سال قطعی پاس ہو جائیں گے۔ چنانچہ ساتویں دفعہ امتحان دینے کے بعد ہم بیتابی سے فیل ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ یہ انتظار دراصل فیل ہونے کا انتظار نہ تھا بلکہ اس بات کا انتظار تھا کہ اس فیل ہونے کے بعد ہم اگلے سال ہمیشہ کے لیے بی۔اے ہو جائیں گے۔
    ہر سال امتحان کے بعد جب گھر آتا تو والدین کو نتیجے کے لیے پہلے ہی سے تیار کر دیتا۔ رفتہ رفتہ نہیں بلکہ یکلخت اور فوراً، رفتہ رفتہ تیار کرنے سے خواہ مخواہ وقت ضائع ہوتا ہے۔ اور پریشانی مفت میں طول کھینچتی ہے۔ ہمارا قاعدہ یہ تھا کہ جاتے ہی کہہ دیا کرتے تھے کہ اس سال تو کم از کم پاس نہیں ہو سکتے، والدین کو اکثر یقین نہ آتا۔ ایسے موقعوں پر طبعیت کو بڑی الجھن ہوتی ہے۔ مجھے اچھی طرح معلوم ہے میں پرچوں میں کیا لکھ کر آیا ہوں۔ اچھی طرح جانتا ہوں کہ ممتحن لوگ اگر نشے کی حالت میں پرچے نہ دیکھیں تو میرا پاس ہونا قطعاً ناممکن ہے۔ چاہتا ہوں کہ میرے تمام بہی خواہوں کو بھی اس بات کا یقین ہو جائے تاکہ وقت پر انہیں صدمہ نہ ہو۔ لیکن بہی خواہ ہیں کہ میری تمام تشریحات کو محض کسر نفسی سمجھتے ہیں۔ آخری سالوں میں والد کو فوراً یقین آ جایا کرتا تھا کیونکہ تجربہ سے ان پر ثابت ہو چکا تھا کہ میرا انداز غلط نہیں ہوتا،لیکن ادھر اُدھر کے لوگ "اجی نہیں صاحب" اجی کیا کہہ رہے ہو"۔ "اجی یہ بھی کوئی بات ہے"۔ ایسے فقروں سے ناک میں دم کر دیتے۔ بہرحال اب کے پھر گھر پہنچتے ہی ہم نے حسب دستور اپنے فیل ہونے کی پیشن گوئی کر دی۔ دل کو یہ تسلی تھی کہ بس یہ آخری دفعہ ہے۔ اگلے سال ایسی پیش گوئی کرنے کی کوئی ضرورت نہ ہو گی۔
    ساتھ ہی خیال آیا کہ وہ ہاسٹل کا قصہ پھر شروع کرنا چاہئے۔ اب تو کالج میں صرف ایک ہی سال باقی رہ گیا ہے۔ اب بھی ہاسٹل میں رہنا نصیب نہ ہوا تو عمر بھر گویا آزادی سے محروم رہے۔ گھر سے نکلے تو ماموں کے ڈربے میں اور جب ماموں کے ڈربے سے نکلے تو شاید اپنا ایک ڈربا بنانا پڑے گا۔ آزادی کا ایک سال۔ صرف ایک سال اور یہ آخری موقعہ ہے۔
    آخری درخواست کرنے سے پہلے میں نے تمام ضروری مصالحہ بڑی احتیاط سے جمع کیا، جن پروفیسروں سے مجھے اب ہم عمری کا فخر حاصل تھا، ان کے سامنے نہایت بے تکلفی سے اپنی آرزوؤں کا اظہار کیا اور ان سے والد کو خطوط لکھوائے کہ اگلے سال لڑکے کو ضرور آپ ہاسٹل میں بھیج دیں۔ بعض کامیاب طلباء کے والدین سے بھی اس مضمون کی عرضداشتیں بھجوائیں۔ خود اعداد و شمار سے ثابت کیا کہ یونیورسٹی سے جتنے لڑکے پاس ہوتے ہیں، ان میں سے اکثر ہاسٹل میں رہتے ہیں، اور یونیورسٹی کا کوئی وظیفہ یا تمغہ یا انعام تو کبھی ہاسٹل سے باہر گیا ہی نہیں۔ میں حیران ہوں کہ یہ دلیل مجھے اس سے پیشتر کبھی کیوں نہ سوجھی تھی۔ کیونکہ یہ بہت کارگر ثابت ہوئی۔ والد کا انکار نرم ہوتے ہوتے غور غوص میں تبدیل ہو گیا، لیکن پھر بھی ان کے دل سے شک رفع نہ ہوا۔ کہنے لگے۔ "میری سمجھ میں نہیں آتا کہ جس لڑکے کو پڑھنے کا شوق ہو وہ ہاسٹل کی بجائے گھر پر کیوں نہیں پڑھ سکتا۔"
    میں نے جواب دیا کہ ہاسٹل میں ایک علمی فضا ہوتی ہے، جو ارسطو اور افلاطون کے گھر کے سوا اور کسی کے گھر میں دستیاب نہیں ہو سکتی۔ ہاسٹل میں جسے دیکھو بحر علوم میں غوطہ زن نظر آتا ہے باوجود اس کے کہ ہر ہاسٹل میں دو دو تین تین سو لڑکے رہتے ہیں پھر بھی وہ خموشی طاری ہوتی ہے کہ قبرستان معلوم ہوتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ہر ایک اپنے پنے کام میں لگا رہتا ہے۔ شام کے وقت ہاسٹل کے صحن میں جا بجا طلبا علمی مباحثوں میں مشغول نظر آتے ہیں۔ علی الصبح ہر ایک طالب علم کتاب ہاتھ میں لیے ہاسٹل کے چمن میں ٹہلتا نظر آتا ہے۔ کھانے کے کمرے میں، کامن روم میں، غسل خانوں میں، برآمدوں میں، ہر جگہ لوگ فلسفے اور ریاضی اور تاریخ کی باتیں کرتے ہیں، جن کو ادب انگریزی کا شوق ہے وہ دن رات آپس میں شیکسپیئر کی طرح گفتگو کرنے کی مشق کرتے ہیں۔ ریاضی کے طلباء اپنے ہر ایک خیال کو الجبرے میں ادا کرنے کی عادت ڈال لیتے ہیں۔ فارسی کے طلباء رباعیوں میں تبادلہ خیالات کرتے ہیں۔ تاریخ کے دلدادہ۔۔۔"
    والد نے اجازت دے دی۔
    اب ہمیں یہ انتظار کہ کب فیل ہوں، اور کب اگلے سال کے لیے عرضی بھیجیں۔ اس دوران میں ہم نے ان تمام دوستوں سے خط و کتابت کی جن کے متعلق یقین تھا کہ اگلے سال پھر ان کی رفاقت نصیب ہو گی اور انہیں یہ مژدہ سنایا کہ آئندہ سال ہمیشہ کے لیے کالج کی تاریخ میں یادگار رہے گا کیونکہ ہم تعلیمی زندگی کا ایک وسیع تجربہ اپنے ساتھ لیے ہاسٹل میں آ رہے ہیں۔ جس سے ہم طلباء کی نئی پود کو مفت مستفید فرمائیں گے۔ اپنے ذہن میں ہم نے ہاسٹل میں اپنی حیثیت ایک مادر مہربان کی سی سوچ لی جس کے اردگرد نا تجربہ کار طلباء مرغی کے بچوں کی طرح بھاگتے پھریں گے۔ سپرنٹنڈنٹ صاحب جو کسی زمانے میں ہمارے ہم جماعت رہ چکے تھے لکھ بھیجا کہ جب ہم ہاسٹل میں آئیں تو فلاں فلاں مراعات کی توقع آپ سے رکھیں گے، اور فلاں فلاں قواعد سے اپنے آپ کو مستثنیٰ سمجھیں گے۔ اطلاعاً عرض ہے۔ اور یہ سب کچھ کر چکنے کے بعد ہماری بدنصیبی دیکھئے کہ جب نتیجہ نکلا تو ہم پاس ہو گئے۔
    ہم پہ تو جو ظلم ہوا سو ہوا، یونیورسٹی والوں کی حماقت ملاحظہ فرمائیے کہ ہمیں پاس کر کے اپنی آمدنی کا ایک مستقل ذریعہ ہاتھ سے گنوا بیٹھے۔







  • #2
    Re: پطرس کے مضامین

    سویرے جو کل آنکھ میری کھلی


    گیدڑ کی موت آتی ہے تو شہر کی طرف دوڑتا ہے۔ ہماری جو شامت آئی تو ایک دن اپنے پڑوسی لالہ کرپا شنکر جی برہمچاری سے برسبیل تذکرہ کہہ بیٹھے کہ "لالہ جی امتحان کے دن قریب آتے جاتے ہیں، آپ سحر خیز ہیں، ذرا ہمیں بھی صبح جگا دیا کیجئے۔"
    وہ حضرت بھی معلوم ہوتا ہے نفلوں کے بھوکے بیٹھے تھے۔ دوسرے دن اُٹھتے ہی انہوں نے ایشور کا نام لے کر ہمارے دروازے پر مکا بازی شروع کر دی کچھ دیر تک تو ہم سمجھے کہ عالم خواب ہے۔ ابھی سے کیا فکر، جاگیں تو لاحول پڑھ لیں گے۔ لیکن یہ گولہ باری لمحہ بہ لمحہ تیز ہوتی گئی۔ اور صاحب جب کمرے کی چوبی دیواریں لرزنے لگیں، صراحی پر رکھا گلاس جلترنگ کی طرح بجنے لگا اور دیوار پر لٹکا ہوا کیلنڈر پنڈولم کی طرح ہلنے لگا تو بیداری کا قائل ہونا ہی پڑا۔ مگر اب دروازہ ہے کہ لگاتار کھٹکھٹایا جا رہا ہے۔ میں کیا میرے آباء و اجداد کی روحیں اور میری قسمت خوابیدہ تک جاگ اُٹھی ہو گی۔ بہتر آوازیں دیتا ہوں۔۔۔ "اچھا!۔۔۔ اچھا!۔۔۔ تھینک یو!۔۔۔ جاگ گیا ہوں!۔۔۔ بہت اچھا! نوازش ہے!" آنجناب ہیں کہ سنتے ہی نہیں۔ خدایا کس آفت کا سامنا ہے؟ یہ سوتے کو جگا رہے ہیں یا مردے کو جلا رہے ہیں؟ اور حضرت عیسیٰ بھی تو بس واجبی طور پر ہلکی سی آواز میں "قم" کہہ دیا کرتے ہوں گے، زندہ ہو گیا تو ہو گیا، نہیں تو چھوڑ دیا۔ کوئی مردے کے پیچھے لٹھ لے کے پڑ جایا کرتے تھے؟ توپیں تھوڑی داغا کرتے تھے؟ یہ تو بھلا ہم سے کیسے ہو سکتا تھا کہ اُٹھ کر دروازے کی چٹخنی کھول دیتے، پیشتر اس کے کہ بستر سے باہر نکلیں، دل کو جس قدر سمجھانا بجھانا پڑتا ہے۔ اس کا اندازہ کچھ اہل ذوق ہی لگا سکتے ہیں۔ آخرکار جب لیمپ جلایا اور ان کو باہر سے روشنی نظر آئی، تو طوفان تھما۔
    اب جو ہم کھڑکی میں سے آسمان کو دیکھتے ہیں تو جناب ستارے ہیں، کہ جگمگا رہے ہیں! سوچا کہ آج پتہ چلائیں گے، یہ سورج آخر کس طرح سے نکلتا ہے۔ لیکن جب گھوم گھوم کر کھڑکی میں سے اور روشندان میں سے چاروں طرف دیکھا اور بزرگوں سے صبح کاذب کی جتنی نشانیاں سنی تھیں۔ ان میں سے ایک بھی کہیں نظر نہ آئی، تو فکر سی لگ گئی کہ آج کہیں سورج گرہن نہ ہو؟ کچھ سمجھ میں نہ آیا، تو پڑوسی کو آواز دی۔ "لالہ جی!۔۔۔ لالہ جی؟"
    جواب آیا۔ "ہوں۔"
    میں نے کہا "آج یہ کیا بات ہے۔ کچھ اندھیرا اندھیرا سا ہے؟"
    کہنے لگے "تو اور کیا تین بجے ہی سورج نکل آئے؟"
    تین بجے کا نام سن کر ہوش گم ہو گئے، چونک کر پوچھا۔ "کیا کہا تم نے؟ تین بجے ہیں۔"
    کہنے لگے۔ "تین۔۔۔ تو۔۔۔ نہیں۔۔۔ کچھ سات۔۔۔ ساڑھے سات۔۔۔ منٹ اوپر تین ہیں۔"
    میں نے کہا۔ "ارے کم بخت، خدائی فوجدار، بدتمیز کہیں کے، میں نے تجھ سے یہ کہا تھا کہ صبح جگا دینا، یا یہ کہا تھا کہ سرے سے سونے ہی نہ دینا؟ تین بجے جاگنا بھی کوئی شرافت ہے؟ ہمیں تو نے کوئی ریلوے گارڈ سمجھ رکھا ہے؟ تین بجے ہم اُٹھ سکا کرتے تو اس وقت دادا جان کے منظور نظر نہ ہوتے؟ ابے احمق کہیں کے تین بجے اُٹھ کے ہم زندہ رہ سکتے ہیں؟ امیر زادے ہیں، کوئی مذاق ہے، لاحول و لا قوة"۔
    دل تو چاہتا تھا کہ عدم تشدد کو خیرباد کہہ دوں لیکن پھر خیال آیا کہ بنی نوع انسان کی اصلاح کا ٹھیکہ کوئی ہمیں نے لے رکھا ہے؟ ہمیں اپنے کام سے غرض۔ لیمپ بجھایا اور بڑبڑاتے ہوئے پھر سو گئے۔
    اور پھر حسب معمول نہایت اطمینان کے ساتھ بھلے آدمیوں کی طرح اپنے دس بجے اُٹھے، بارہ بجے تک منھ ہاتھ دھویا اور چار بجے چائے پی کر ٹھنڈی سڑک کی سیر کو نکل گئے۔
    شام کو واپس ہاِسٹل میں وارد ہوئے۔ جوش شباب تو ہے ہی اس پر شام کا ارمان انگیز وقت۔ ہوا بھی نہایت لطیف تھی۔ طبعیت بھی ذرا مچلی ہوئی تھی۔ ہم ذرا ترنگ میں گاتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے کہ
    بلائیں زلف جاناں کی اگر لیتے تو ہم لیتے
    کہ اتنے میں پڑوسی کی آواز آئی۔ "مسٹر"۔
    ہم اس وقت ذرا چٹکی بجانے لگے تھے۔ بس انگلیاں وہیں پر رک گئیں۔ اور کان آواز کی طرف لگ گئے۔ ارشاد ہوا "یہ آپ گا رہے ہیں؟" (زور "آپ" پر)
    میں نے کہا۔ "اجی میں کس لائق ہوں۔ لیکن خیر فرمائیے؟" بولے "ذرا۔۔۔ وہ میں۔۔۔ میں ڈسٹرب ہوتا ہوں ۔ بس صاحب۔ ہم میں جو موسیقیت کی روح پیدا ہوئی تھی فوراً مر گئی۔ دل نے کہا۔ "او نابکار انسان دیکھ پڑھنے والے یوں پڑھتے ہیں "صاحب، خدا کے حضور گڑگڑا کر دعا مانگی کہ "خدایا ہم بھی اب باقاعدہ مطالعہ شروع کرنے والے ہیں۔ہماری مدد کر اور ہمیں ہمت دے۔"
    آنسو پونچھ کر اور دل کو مضبوط کر کے میز کے سامنے آ بیٹھے، دانت بھینچ لئے، نکٹائی کھول دی، آستینیں چڑھا لیں، لیکن کچھ سمجھ میں نہ آا کہ کریں کیا؟ سامنے سرخ سبز، زرد سب ہی قسم کی کتابوں کا انبار لگا تھا۔ اب ان میں سے کوئی سی پڑھیں؟ فیصلہ یہ ہوا کہ پہلے کتابوں کو ترتیب سے میز پر لگا دیں کہ باقاعدہ مطالعہ کی پہلی منزل یہی ہے۔
    بڑی تقطیع کی کتابوں کو علیحدہ رکھ دیا۔ چھوٹی تقطیع کی کتابوں کو سائز کے مطابق الگ قطار میں کھڑا کر دیا۔ ایک نوٹ پیپر پر ہر ایک کتاب کے صفحوں کی تعداد لکھ کر سب کو جمع کیا پھر ۱۵۔اپریل تک کے دن گنے۔ صفحوں کی تعداد کو دنوں کی تعداد پر تقسیم کیا۔ ساڑھے پانچ سو جواب آیا، لیکن اضطراب کی کیا مجال جو چہرے پر ظاہر ہونے پائے۔ دل میں کچھ تھوڑا سا پچھتائے کہ صبح تین بجے ہی کیوں نہ اُٹھ بیٹھے لیکن کم خوابی کے طبی پہلو پر غور کیا۔ تو فوراً اپنے آپ کو ملامت کی۔ آخرکار اس نتیجے پر پہنچے کہ تین بجے اُٹھنا تو لغویات ہے البتہ پانچ، چھ، سات بجے کے قریب اُٹھنا معقول ہو گا۔ صحت بھی قائم رہے گی، اور امتحان کی تیاری بھی باقاعدہ ہو گی۔ ہم خرما د ہم ثواب۔
    یہ تو ہم جانتے ہیں کہ سویرے اُٹھنا ہو تو جلدی ہی سو جانا چاہئے۔ کھانا باہر سے ہی کھا آئے تھے۔ بستر میں داخل ہو گئے۔
    چلتے چلتے خیال آیا، کہ لالہ جی سے جگانے کے لیے کہہ ہی نہ دیں؟ یوں ہماری اپنی قوت ارادی کافی زبردست ہے جب چاہیں اُٹھ سکتے ہیں، لیکن پھر بھی کیا ہرج ہے؟
    ڈرتے ڈرتے آواز دی۔ "لالہ جی!"
    انہوں نے پتھر کھینچ مارا "یس!"
    ہم اور بھی سہم گئے کہ لالہ جی کچھ ناراض معلوم ہوتے ہیں، تتلا کے درخواست کی کہ لالہ جی، صبح آپ کو بڑی تکلیف ہوئی، میں آپ کا بہت ممنون ہوں۔ کل اگر ذرا مجھے چھ بجے یعنی جس وقت چھ بجیں۔۔۔"
    جواب ندارد۔
    میں نے پھر کہا "جب چھ بج چکیں تو۔۔۔ سنا آپ نے؟"
    چپ۔
    "لالہ جی!"
    کڑکتی ہوئی آواز نے جواب دیا۔ "سن لیا سن لیا چھ بجے جگا دوں گا۔ تھری گاما پلس فور ایلفا پلس۔۔۔"
    "ہم نے کہا ب۔۔۔ ب۔۔۔ ب۔۔۔ بہت اچھا۔ یہ بات ہے۔"
    توبہ! خدا کسی کا محتاج نہ کرے۔
    لالہ جی آدمی بہت شریف ہیں۔ اپنے وعدے کے مطابق دوسرے دن صبح چھ بجے انہوں نے دروازو ں پر گھونسوں کی بارش شروع کر دی۔ ان کا جگانا تو محض ایک سہارا تھا ہم خود ہی انتظار میں تھے کہ یہ خواب ختم ہولے تو بس جاگتے ہیں۔ وہ نہ جگاتے تو میں خود ایک دو منٹ کے بعد آنکھیں کھول دیتا۔ بہر صورت جیسا کہ میرا فرض تھا۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے اس شکل میں قبول کیا کہ گولہ باری بند کر دی۔
    اس کے بعد کے واقعات ذرا بحث طلب سے ہیں اور ان کے متعلق روایات میں کسی قدر اختلافات ہیں۔ بہرحال اس بات کا تو مجھے یقین ہے۔ اور میں قسم بھی کھا سکتا ہوں کہ آنکھیں میں نے کھول دی تھیں۔ پھر یہ بھی یاد ہے کہ ایک نیک اور سچے مسلمان کی طرح کلمۂ شہادت بھی پڑھا۔ پھر یہ بھی یاد ہے کہ اُٹھنے سے پیشتر دیباچے کے طور پر ایک آدھ کروٹ بھی لی۔ پھر کا نہیں پتہ۔ شاید لحاف اوپر سے اتار دیا۔ شاید سر اس میں لپیٹ دیا۔ یا شاید کھانسا یا خراٹا لیا۔ خیر یہ تو یقین امر ہے کہ دس بجے ہم بالکل جاگ رہے تھے۔ لیکن لالہ جی کے جگانے کے بعد اور دس بجے سے پیشتر خدا جانے ہم پڑھ رہے تھے یا شاید سو رہے تھے۔ نہیں ہمارا خیال ہے پڑھ رہے تھے یا شاید سو رہے تھے۔ بہرصورت یہ نفسیات کا مسئلہ ہے جس میں نہ آپ ماہر ہیں نہ میں۔ کیا پتہ، لالہ جی نے جگایا ہی دس بجے ہو۔ یا اس دن چھ دیر میں بجے ہوں۔ خدا کے کاموں میں ہم آپ کیا دخل دے سکتے ہیں۔ لیکن ہمارے دل میں دن بھر یہ شبہ رہا کہ قصور کچھ اپنا ہی معلوم ہوتا ہے۔ جناب شرافت ملاحظہ ہو، کہ محض اس شبہ کی بناء پر صبح سے شام تک ضمیر کی ملامت سنتا رہا۔ اور اپنے آپ کو کوستا رہا۔ مگر لالہ جی سے ہنس ہنس کر باتیں کیں ان کا شکریہ ادا کیا۔ اور اس خیال سے کہ ان کی دل شکنی نہ ہو، حد درجے کی طمانیت ظاہر کی کہ آپ کی نوازش سے میں نے صبح کا سہانا اور روح افزا وقت بہت اچھی طرح صرف کیا ورنہ اور دنوں کی طرح آج بھی دس بجے اُٹھتا۔ "لالہ جی صبح کے وقت دماغ کیا صاف ہوتا ہے، جو پڑھو خدا کی قسم فوراً یاد ہو جاتا ہے۔ بھئی خدا نے صبح بھی کیا عجیب چیز پیدا کی ہے یعنی اگر صبح کے بجائے صبح صبح شام ہوا کرتی تو دن کیا بری طرح کٹا کرتا۔"
    لالہ جی نے ہماری اس جادو بیانی کی داد یوں دی کہ آپ پوچھنے لگے۔ "تو میں آپ کو چھ بجے جگا دیا کروں نا؟"
    میں نے کہا۔ "ہاں ہاں، واہ یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔ بےشک۔"
    شام کے وقت آنے والی صبح کے مطالعہ کے لیے دو کتابیں چھانٹ کر میزپر علیحدہ جوڑ دیں۔ کرسی کو چارپائی کے قریب سرکا لیا۔ اوور کوٹ اور گلو بند کو کرسی کی پشت پر آویزاں کر لیا۔ کنٹوپ اور دستانے پاس ہی رکھ لیے۔ دیا سلائی کو تکئے کے نیچے ٹٹولا۔ تین دفعہ آیت الکرسی پڑھی، اور دل میں نہایت ہی نیک منصوبے باندھ کر سو گیا۔
    صبح لالہ جی کی پہلی دستک کے ساتھ ہی جھٹ آنکھ کھل گئی، نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ لحاف کی ایک کھڑکی میں سے ان کو "گڈ مارننگ" کیا، اور نہایت بیدارانہ لہجے میں کھانسا، لالہ جی مطمئن ہو کر واپس چلے گئے۔
    ہم نے اپنی ہمت اور اولوالعزمی کو بہت سراہا کہ آج ہم فوراً ہی جاگ اُٹھے۔ دل سے کہا کہ "دل بھیا، صبح اُٹھنا تو محض ذرا سی بات ہے ہم یوں ہی اس سے ڈرا کرتے تھے"۔ دل نے کہا "اور کیا؟ تمہارے تو یوں ہی اوسان خطا ہو جایا کرتے ہیں"۔ ہم نے کہا "سچ کہتے ہو یار، یعنی اگر ہم سستی اور کسالت کو خود اپنے قریب نہ آنے دیں تو ان کی کیا مجال ہے کہ ہماری باقاعدگی میں خلل انداز ہوں۔ اس وقت لاہور شہر میں ہزاروں ایسے کاہل لوگ ہوں گے جو دنیا و مافیہا سے بےخبر نیند کے مزے اُڑاتے ہوں گے۔ اور ایک ہم ہیں کہ ادائے فرض کی خاطر نہایت شگفتہ طبعی اور غنچہ دہنی سے جاگ رہے ہیں۔ "بھئی کیا برخوردار سعادت آثار واقع ہوئے ہیں۔" ناک کو سردی سی محسوس ہونے لگی تو اسے ذرا یو ں ہی سا لحاف اوٹ میں کر لیا اور پھر سوچنے لگے۔۔۔ "خوب۔ تو ہم آج کیا وقت پر جاگے ہیں بس ذرا اس کی عادت ہو جائے تو باقاعدہ قرآن مجید کی تلاوت اور فجر کی نماز بھی شروع کر دیں گے۔ آخر مذہب سب سے مقدم ہے ہم بھی کیا روزبروز الحاد کی طرف مائل ہوتے جاتے ہیں نہ خدا کا ڈر اور نہ رسول کا خوف۔ سمجھتے ہیں کہ بس اپنی محنت سے امتحان پاس کر لیں گے۔ اکبر بیچارا یہی کہتا کہتا مرگیا لیکن ہمارے کان پر جوں تک نہ چلی۔۔۔ (لحاف کانوں پر سرک آیا)۔۔۔ تو گویا آج ہم اور لوگوں سے پہلے جاگے ہیں۔۔۔ بہت ہی پہلے۔۔۔ یعنی کالج شروع ہونے سے بھی چار گھنٹے پہلے۔ کیا بات ہے! خداوندان کالج بھی کس قدر سست ہیں ایک مستعد انسان کو چھ بجے تک قطعی جاگ اُٹھنا چاہئے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کالج سات بجے کیوں نہ شروع ہوا کرے۔۔۔ (لحاف سر پر)۔۔۔ بات یہ ہے کہ تہذیب جدید ہماری تمام اعلیٰ قوتوں کی بیخ کنی کر رہی ہے۔ عیش پسندی روزبروز بڑھتی جاتی ہے۔۔۔ (آنکھیں بند)۔۔۔ تو اب چھ بجے ہیں تو گویا تین گھنٹے تو متواتر مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ پہلے کون سی کتابیں پڑھیں۔ شیکسپیئر یا ورڈزورتھ؟ میں جانوں شیکسپیئر بہتر ہو گا۔ اس کی عظیم الشان تصانیف میں خدا کی عظمت کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔ اور صبح کے وقت اللہ میاں کی یاد سے بہتر چیز کیا ہو سکتی ہے؟ پھر خیال آیا کہ دن کو جذبات کے محشرستان سے شروع کرنا ٹھیک فلسفہ نہیں۔ ورڈزورتھ پڑھیں۔ اس کے اوراق میں فطرت کو سکون و اطمینان میسر ہو گا اور دل اور دماغ نیچر کی خاموش دلآویزیوں سے ہلکے ہلکے لطف اندوز ہوں گے۔۔۔ لیکن ٹھیک ہی رہے گا شیکسپیئر۔۔۔ نہیں ورڈزورتھ۔۔۔ لیڈی میکبتھ۔۔۔ دیوانگی۔۔۔ سبزہ زار۔۔۔ سنجر سنجر۔۔۔ باد بہاری۔۔۔ صید ہوس۔۔۔ کشمیر۔۔۔ میں آفت کا پرکالہ ہوں۔۔۔
    یہ معمہ اب مابعد الطبیعات ہی سے تعلق رکھتا ہے کہ پھر جو ہم نے لحاف سے سر باہر نکالا اور ورڈزورتھ پڑھنے کا ارادہ کیا تو وہی دس بج رہے تھے۔ اس میں نہ معلوم کیا بھید ہے!
    کالج ہال میں لالہ جی ملے۔ "مسٹر! صبح میں نے آپ کو پھر آواز دی تھی، آپ نے جواب نہ دیا؟"
    میں نے زور کا قہقہہ لگا کر کہا۔ "اوہو۔ لالہ جی یاد نہیں۔ میں نے آپ کو گڈ مارننگ کہا تھا؟ میں تو پہلے ہی سے جاگ رہا تھا"۔
    بولے "وہ تو ٹھیک ہے لیکن بعد میں۔۔۔ اس کے بعد!۔۔۔ کوئی سات بجے کے قریب میں نے آپ سے تاریخ پوچھی تھی، آپ بولے ہی نہیں۔"
    ہم نے نہایت تعجب کی نظروں سے ان کو دیکھا۔ گویا وہ پاگل ہو گئے ہیں۔ اور پھر ذرا متین چہرہ بنا کر ماتھے پر تیوریاں چڑھائے غور و فکر میں مصروف ہو گئے۔ ایک آدھ منٹ تک ہم اس تعمق میں رہے۔ پھر یکایک ایک محجوبانہ اور معشوقانہ انداز سے مسکرا کے کہا۔ "ہاں ٹھیک ہے، ٹھیک ہے، میں اس وقت۔۔۔ اے۔۔۔ اے، نماز پڑھ رہا تھا۔"
    لالہ جی مرعوب سے ہو کر چل دئے۔ اور ہم اپنے زہد و اتقا کی مسکینی میں سر نیچا کئے کمرے کی طرف چلے آئے۔ اب یہی ہمارا روزمرہ کا معمول ہو گیا ہے۔ جاگنا نمبر ایک چھ بجے۔ جاگنا نمبر دو دس بجے۔ اس دوران لالہ جی آواز دیں تو نماز۔
    جب دل مرحوم ایک جہان آرزو تھا تو یوں جاگنے کی تمنا کیا کرتے تھے کہ "ہمارا فرق ناز محو بالش کمخواب" ہو اور سورج کی پہلی کرنیں ہمارے سیاہ پُر پیچ بالوں پر پڑ رہی ہیں۔ کمرے میں پھولوں کی بوئے سحری روح افزائیاں کر رہی ہو۔ نازک اور حسین ہاتھ اپنی انگلیوں سے بربط کے تاروں کو ہلکے ہلکے چھیڑ رہے ہوں۔ اور عشق میں ڈوبی ہوئی سریلی اور نازک آواز مسکراتی ہوئی گا رہی ہو!
    تم جاگو موہن پیارے
    خواب کی سنہری دھند آہستہ آہستہ موسیقی کی لہروں میں تحلیل ہو جائے اور بیداری ایک خوشگوار طلسم کی طرح تاریکی کے باریک نقاب کو خاموشی سے پارہ پارہ کر دے چہرہ کسی کی نگاہ اشتیاق کی گرمی محسوس کر رہا ہو۔ آنکھیں مسحور ہو کر کھلیں اور چار ہو جائیں۔ دلآویز تبسم صبح کو اور بھی درخشندہ کر دے۔ اور گیت "سانوری صورت توری من کو بھائی" کے ساتھ ہی شرم و حجاب میں ڈوب جائے۔
    نصیب یہ ہے کہ پہلے "مسٹر! مسٹر!" کی آواز اور دروازے کی دنادن سامعہ نوازی کرتی ہے، اور پھر چار گھنٹے بعد کالج کا گھڑیال دماغ کے ریشے ریشے میں دس بجانا شروع کر دیتا ہے۔ اور اس چار گھنٹے کے عرصہ میں گڑویوں کے گرنے۔ دیگچیوں کے اُلٹ جانے، دروازوں کے بند ہونے، کتابوں کے جھاڑنے، کرسیوں کے گھسیٹنے، کُلیاں اور غرغرے کرنے، کھنکھارنے اور کھانسنے کی آوازیں تو گویا فی البدیہہ ٹھمریاں ہیں۔ اندازہ کر لیجئے کہ ان سازوں میں سُر تال کی کس قدر گنجائش ہے!
    موت مجھ کو دکھائی دیتی ہے
    جب طبعیت کو دیکھتا ہوں میں

    ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے۔۔ بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا






    Comment


    • #3
      Re: پطرس کے مضامین

      meny dono pehlay b parhi hein...
      میں نعرہ مستانہ، میں شوخی رندانہ

      Comment


      • #4
        Re: پطرس کے مضامین

        Originally posted by crystal_thinking View Post
        meny dono pehlay b parhi hein...
        parhy tou mene bhi hein par aik bar phir parh kr bhot enjoy kiya





        Comment


        • #5
          Re: پطرس کے مضامین

          no doubt aisa he hy....
          میں نعرہ مستانہ، میں شوخی رندانہ

          Comment


          • #6
            Re: پطرس کے مضامین

            کالج لائف میں پڑھے تھے
            شاہ حسین جیہناں سچ پچھاتا' کامل عِشق تیہناں دا جاتا

            Comment


            • #7
              Re: پطرس کے مضامین

              Originally posted by saraah View Post
              کالج لائف میں پڑھے تھے

              پڑھے تھے یا ڈائیرکٹ پطرس صاحب سے سنے تھے
              :lol





              Comment


              • #8
                Re: پطرس کے مضامین

                yeh mazameen aisay hain keh bar bar perh kar bhi bore nahin ho sakta koi....
                For New Designers
                وَ بَارِکْ لِيْ فِيْمَا أَعْطَيْتَ

                Comment


                • #9
                  Re: پطرس کے مضامین

                  Originally posted by *Rida* View Post
                  yeh mazameen aisay hain keh bar bar perh kar bhi bore nahin ho sakta koi....
                  durust farmaya aap ne :)





                  Comment


                  • #10
                    Re: پطرس کے مضامین

                    buhat khoob...

                    Comment


                    • #11
                      Re: پطرس کے مضامین

                      Originally posted by life. View Post
                      buhat khoob...
                      thanks :)





                      Comment

                      Working...
                      X