جل بن مچھلی
پنجابی کے مشہور شاعر استاد دامن کو غلام مصطفیٰ کھر کے دور گورنری
میں اسلحہ کیس کے تحت جیل کی ہوا کھانی پڑی
استاد دامن ٹکسالی گیت کے قریب مسجد شاہ حسین کے ایک تنگ و تاریک
سے حجرے میں رہتے تھے جہاں کتابوں کے سوا کوئی اسلحہ نہ تھا
لیکن بہر کیف حکمرانوں نے ان کو اس واہیات مقدمے کی آڑ میں پابند سلاسل
کر دیا
سزا کاٹنے کے بعد استاد دامن واپس ئے تو انہیں دلی مین منعقد
ایک مشاعرے میں مدعو کیا گیا۔مشاعرہ راج بھون کے قریب
وسیع و عریض پنڈال میں انعقاد پذیر ہوا استاد دامن کو سننے
والے جوق در جوق پنڈال میں آئے اور اہم بات یہ کہ پنڈت جی بھی چپکے
سے اکر سامعین میں شامل ہو گئے
استاد دامن نے اپنا کلام پیش کیا تو گویا مشاعرہ ہی لوٹ لیا انہوں نے
اپنے ایک نظم پیش کی جس کا ایک مصرعہ زبان زد عام ہو چکا
؎
لالی اکھیاں دی پئی دس دی اے
روئے تسی وی ہو روئے اس وی ہاں
یہ مصرع سن کر پنڈت جی اٹھ کر اسٹیج پر پہنچ گئے
اور استاد جی سے دست بدستہ کہنے لگے ، استاد جی یہ پاکتسانی
اپ کو تباہ کر رہے ہیں اس گھٹے ماحول میں اپ زندہ نہیں رہ سکتے
یہاں آ جائیں اور اپنے من پسند شہر میں بسیرا فرمائیں
اپ کو ہر سہولت بہم پہنچائی جائے گی، پاکستان کا ماحول تو گھٹن
کا شکار ہونے کی وجہ سے جوہڑ کے پانی کی طرح متعفن ہو چکا جبکہ
بھارت میں ہر مسلک کے لوگ سکون سے رہ رہے ہیں
پنڈت جی وہ تو سب ٹھیک ہے مگر یہ بھی تو سوچیں
کہ مچھلی پانی ہی میں خوش رہتی ہے خواہ وہ پانی
گندے جوہڑ کا ہی ہو۔ یہاں کے باغ و بہار ماحول
میں ہم تو ایک سانس بھی نہیں لے سکیں گے، اپ کا بہت شکریہ ہم
وہاں خوش ہیں
:rose
Comment