السلام علیكم پیغام كے دوستو!۔
یہاں آپ كی خدمت میں میرے لكھے ہوئے اس افسانے كا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے(جوہانز كپلر صاحب كی فرمائش پر) جو كہ میں نے پشتو سیكشن میں پوسٹ كیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔اوریجنل افسانہ چونكہ میں نے پشتو میں لكھا تھا اور میری ٹرانسلیشن سكِل پلس اردو اتنی اچھی نہیں اس لئے زبان كی غلطیوں كو نظر انداز كركے تھیم اور افسانے كے متعلق ضرور كمنٹ كیجئے گا
یہاں آپ كی خدمت میں میرے لكھے ہوئے اس افسانے كا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے(جوہانز كپلر صاحب كی فرمائش پر) جو كہ میں نے پشتو سیكشن میں پوسٹ كیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔اوریجنل افسانہ چونكہ میں نے پشتو میں لكھا تھا اور میری ٹرانسلیشن سكِل پلس اردو اتنی اچھی نہیں اس لئے زبان كی غلطیوں كو نظر انداز كركے تھیم اور افسانے كے متعلق ضرور كمنٹ كیجئے گا
شكریہ
توقیر احمد یوسفزئی
پشیماں
میں اپنے دوستوں كے ساتھ یونیورسٹی كے كینٹین میں بیٹھا چائے پی رہا تھا كہ اچانك میری نظر اس بلا پر پڑی۔ كیا دیكھتا ہوں كہ "تازہ دین استاد" پیچھے پیچھے اور اس كی توند آگے آگے ہماری جانب آگے بڑھ رہی ہے۔ تھوڑی دیر كے لئے مجھے یقین نہیں آیا لیكن بغور دیكھنے پر معلوم ہوا كہ یہ كوئی خواب نہیں او نہ ہی میرا وهم هے.سوچ میں پڑ گیا كہ یہ كہاں سے آٹپكے۔ پہلے تو خیال آیا كہ جا بیٹا كہیں چھپ جا كیونكہ یہ آدمی مجھے ایك آنكھ نہیں بھاتا تھا۔ ایك آدمی كو اگر اللہ نے شكل و صورت اچھی نہیں دی هوتو كم سے كم اسے باتیں تو اچھی اور میٹھی كرنی چاہئیے لیكن یہ صاحب ان دونوں اوصاف سے عاری تھے۔
تازہ دین استاد ہمارے گاؤں كے ایك مسجد میں امام تھے جنہیں بعد میں اپنے عادات و اطوار ٬ كم ظرفی اور خباثت كی وجہ سے اس منصب سے ہٹایا گیا تھا كیونكہ گاؤں كے لوگ امام كو بڑی عزت كی نگاہ سے دیكھتے ہیں اور اسے اپنا رول ماڈل گردانتے ہیں۔ موصوف میرا قریبی پڑوسی تھا۔ میں جب بھی چھٹیوں میں گاؤں جاتا تو صبح سویرے میری آنكھ ان كے گھر سے آنے والی چینخ و پكار اور شور شرابے سے كھلتی۔ روزانہ ان كی اپنے گھر والی كے ساتھ بدمزگی ہوتی تھی اور بعد میں نوبت ہاتھا پائی تك آپہنچتی۔ سمجھ میں نہیں آتا كہ اس كی گھروالی كو اس كے ماں باپ كونسی سزا دینا چاہتے تھے كہ اسے اس حیوان كے سپرد كركے خود چل بسے تھے۔
تازہ دین استاد ایك ادھیڑ عمر آدمی تھا۔ بڑی توند٬ چوڑی ناك٬ بڑی بڑی سرمے سے لدی ہوئی آنكھیں٬ كالی رنگت٬ كشادہ چہرہ اور اس پر ہلكی سی بے رونق داڑھی ٬ باچھیں ہر وقت كھلی ہوئی٬ گردن گینڈے جیسی اور ہر وقت سفید كپڑے زیب تن كئے ہوئے جو كہ اكثر زیادہ استعمال كی وجہ سےایسے دكھائی دیتے تھے كہ دیكھنے والا شش و پنج میں پڑ جاتا كہ اسے سفید كہا جائے یا زرد۔ اس كے اوپر ایك میلی سی واسكٹ جس كے جیب ہر وقت آسمان كی طرف منہ كئے ہوتے اور دیكھنے والے كو دور ہی سے ان میں پڑی چیزوں جن میں كنگھی٬ مسواك٬ دو تین گز لمبی تسبیح اور نسوار كی ڈبیا دكھائی دیتی تھی۔
اس كی گھر والی عمر كے اس حصے میں تھی كہ نہ تو زیادہ بدصورت دكھائی دیتی تھی اور نہ زیادہ خوش شكل۔ لیكن گھر كے كاموں ٬ بے جا ڈانٹ ڈپٹ اور درجن بھر بچوں كی دیكھ بھال نے اس كی شكل و صورت بگاڑ دی تھی۔ وہ اكثر ہمارے ہاں روزمرہ كی چیزیں لینے آجاتیں كیونكہ سب سے نزدیك ہماراہی گھر پڑتا تھا۔
تازہ دین استاد خاندانی منصوبہ بندی كا تو بالكل قائل نہ تھا اور منصوبہ بندی كے حوالے سے سركار كے اقدامات كو سخت تنقید كا نشانہ بناتا۔ اور شاید یہی وجہ تھی كہ آج وہ دس بچوں كا باپ تھا لیكن بچوں سے محبت كا یہ عالم تھا كہ جہاں كہیں اسے راستے میں اسكے بچے دكھائی دیئے تو اس كے ہاتھوں میں خارش پیدا ہوئی اور یوں ہی دو تین تھپڑ رسید كردیئے۔
بچوں كی مثال نرم و نازك پھولوں كی سی ہوتی ہے ۔ جس طرح پھول نرم ہوا كے تپھیڑوں سے بڑھتے ہیں نہ كہ تیز ہوا كے جھونكوں سے اسی طرح اگر بچوں كی پرورش بھی شفقت اور محبت سے كی جائے تو نتیجہ اچھا نكلتا ہے۔
باپ كے بے جا مار پیٹ اور ترش طبیعت كی بدولت بچے نہایت سخت جان اور شریر ہوگئے تھے۔ سارا دن كبھی ایكدوسرے كے ساتھ تو كبھی محلے كے دوسرے بچوں كے ساتھ لڑتے جھگڑتے۔ جب محلے كے دوسرے لوگ ان كے آئے روز شرارتوں سے تنگ آگئے تو انہوں نے كوششیں شروع كیں كہ كسی طرح تازہ دین استاد كو قائل كرلیں كہ بچوں كو سكول بھیجنا شروع كردیں۔ اخر لاكھ منت سماجت كے بعد تازہ دین نے فیصلہ كیا كہ وہ اپنے بڑے بیٹے كو سكول میں داخل كرائے گا۔ خدا بھلا كرے سركار كا كہ كتابیں انہوں نے مفت دیں اوركپڑوں كے پیسے میرے والد صاحب نے تازہ دین استاد كو دئیے تب جا كے محلے والوں كی جان چھوٹی۔
بڑے بیٹے كے بعد تین بیٹیاں تھی اور پھر لڑكوں كی قطار۔ لیكن تازہ دین استاد كو بیٹیوں كی كوئی پرواہ نہ تھی۔ وہ اكثر كہتا تھا كہ بیٹیاں تو پرائی ہوتی ہیں ۔ اكثر كسی نہ كسی بات پہ وہ انہیں مارتا پیٹتا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے كہ ایك دن سویرے جب كچھ لوگ بڑے حجرے كے سامنے كھڑے محلے میں نكاسی آب كے مسئلے پر بحث كررہے تھے كہ اتنے میں تازہ دین استاد كی بڑی بیٹی "گلالئی" ڈرتے ڈرتے باپ كے نزدیك آئی اور رونی سی صورت بنا كر بولی كہ "بابا میں بھی سكول جاؤں گی۔۔۔۔۔كتابیں سكول والے دے دیں گے اور كپڑے مجھے زرینہ بی بی كی بیٹی نے دئیے ہیں"۔۔۔۔۔اس نے یہ سب ایك ہی سانس میں كہہ ڈالا
اُس كا یہ كہنا تھا كہ تازہ دین استاد كا چہرہ سرخ ہوگیا٬ منہ سے جھاگ اڑنے لگا اور جب تك ہم اسے روكتے اس نے بچی كو دو تین تھپڑ رسید كردیئے تھے۔
"۔۔۔۔۔ كی اولاد میں تیری ناك كٹوانے كی فكر میں ہوں تو نتھ مانگ رہی ہے۔۔۔میں سوچ رہا ہوں كہ زندہ گھاڑ دوں تمھیں زمیں میں اور تو كہہ رہی ہے مجھے سكول بھیج دے صبر میں ابھی تیرا وہ حال كروں گا كہ تُو سدا ركھے گی۔"
پاس میں كھڑے لوگوں نے بچی كو اس كے چنگل سے چھڑایا اور بڑے بوڑھوں نے تازہ دین پر غصہ كیا٬ بچی روتے چینختے گھر كو چلی تب جا كے موصوف كا غصہ ٹھنڈا ہوا۔ مجھے اس وقت ان پر جتنا غصہ آیا تھا اتنا زندگی بھر كسی پہ نہیں آیا تھا اگر عمر كا لحاظ نہ ہوتا توشاید اس كا گلا دبوچ لیتا۔
بعد میں گاؤں كے ایك بزرگ نے انہیں نصیحت كی چند باتیں كی كہ دیكھو بیٹیاں اللہ كی طرف سے ہوتی ہیں جس طرح بیٹوں كے تم پر حقوق ہیں اسی طرح بیٹیاں بھی مستحق ہیں كہ تم ان كے ساتھ ویسا ہی برتاؤ كرو جس طرح لڑكوں كے ساتھ كرتے ہو۔ اور آج اگر لڑكیاں پڑھ لكھ لیں اور كل ڈاكٹریا استاد بن جائیں تو اس میں تمہارا اورتمام قوم اور وطن كا فائدہ ہے۔
لیكن تازہ دین استاد كہاں ماننے والے تھے یكدم بولے جو لوگ لڑكیوں سے نوكریاں كراتے ہیں وہ بزدل ہوتے ہیں۔ ہمارے قوم كو لڑكیوں كی خدمت نہیں چاہئیے ۔
آج جب میں نے انہیں یہاں شہر میں دیكھا تو پہلے تو خیال آیا كہ آنكھ چرا كر كہیں روپوش ہوجاؤں لیكن پھر خیال آیا كہ ایسا نہ ہو اس كے ساتھ كوئی حادثہ پیش آیا ہو یا ایمرجنسی ہو اور یونیورسٹی سے باہر شہر كے بڑے ہسپتال میں آیا ہو اور اب اسے تمہاری مدد دركار ہو كیونكہ اس منحوس كو شہر میں میرے علاوہ كتنے لوگ جانتے ہونگے؟ اور اگر كوئی جاننے والا ہوا بھی تو بھلا كون اس جیسے آدمی كی مدد كے لئے تیار ہوتا۔ خیر میں نے دوستوں سے اجازت لی اٹھا اور تازہ دین استاد كو ریسیو كیا۔ تازہ دین استاد نے اپنے دونوں ہاتھوں كو پھیلایا اور گلے ملا لیكن ساتھ ساتھ اس كے جسم میں جتنی طاقت تھی اسے یكجا كر كے مجھے زور سے سینے سے لگایا مجھے اپنا سانس ركتا ہوا محسوس ہوا اور جلدی اس بلا سے جان چھڑائی۔ خیر ہم كینٹین آگئے اور چائے كا آرڈر دیا۔ تازہ دین استاد نے بیٹھتے ہی اردگرد بیٹھے رنگ برنگ لباس پہنے فیشن ایبل طالبات پر ایك نظر غائر ڈالی اور زور سے "استغفراللہ" كا ورد كیا۔ پھر زیر لب بڑبڑانے لگا۔ پھر میری طرف منہ كركے كانوں كو ہاتھ لگائے اور بولا توبہ توبہ! اتنی بے شرمی؟ سمجھ میں نہیں آتا گاؤں كے عزت دار لوگوں كو كیا ہوا ہے كہ اپنے لڑكوں كو یہاں اس ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں بھیجتے ہیں٬ شرم نام كی تو یہاں كوئی چیز ہی نہیں توبہ توبہ! ۔۔۔۔۔۔ اور ایك لمبا چوڑا لیكچر دے مارا۔ یہ تو اچھا ہوا كہ ہم ذرا كونے میں بیٹھے ہوئے تھے اور دور بیٹھے لوگوں كو اواز ٹھیك سے نہیں پہنچ رہی تھی ورنہ تماشہ كھڑا ہوجاتا۔
چائے پینے كے بعد جب ان سے شہر آنے كی وجہ پوچھی تو یكدم رونی صورت بنا كر پیشانی پر لكیریں ڈال دیں خاموش بیٹھے رہے۔ میں نے پوچھا استاد جی! كیا بات ہے "كاكی" تو ٹھیك ہے نا؟ خدا نہ كرے۔۔۔۔۔ تازہ دین استاد یہ سنتے ہی بول پڑے :
"بیٹا! تیری كاكی سامنے اسپتال میں پڑی ہے۔ اسے خون كی اشد ضرورت ہے۔ ڈاكٹر كہہ رہا تھا كہ آج جلد سے جلد خون كا بندوبست كرلو نہیں تو مریض كا بچنا مشكل ہوجائے گا"
"كیوں كیا ہوا كاكی كو؟" میں چونكا
"یرہ ! یہ درد تو اسے اكثر رہتا تھا پر میں نے كوئی خاص توجہ نہیں دی سوچا یونہی گیس میس ہوگی لیكن اس دن جب اسپتال میں بڑے ڈاكٹر كو دكھایا تو پتہ چلا كہ پیٹ میں رسولی ہے جس كے لئے جلد سے جلد اپریشن كرنا پڑے گا نہیں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
"اسپتال میں كسی نے بتایا كہ سامنے یونیورسٹی میں اس گروپ والا خون تمہیں بہ آسانی مل جائے گا۔ تبھی تیرا خیال آیا تو یہاں چلا آیا"
اس نے ایك سانس میں پوری سٹوری بیان كی۔
میں نے كہاں اچھا كیا جو آپ یہاں آئے فكر نہ كرو ابھی خون كا بندوبست ہوجائے گا۔
عام طور كالجوں اور یونیورسٹیوں میں روزانہ ایسے سینكڑوں لوگ آتے ہیں جن كو خون كی ضرورت ہوتی ہے اور یہاں طلباء بغیر كسی خوف كے خون عطیہ كرتے ہیں۔ میں نے فورًا اپنے دوستوں سے رابطہ كیا ۔ تھوڑی سی انتظار كے بعد متعلقہ گروپ ركھنے والے دو ساتھی ہمارے ساتھ خون دینے اسپتال كی طرف چل دیئے۔
راستے میں جہاں كہیں طالبہ دكھائی دیں تازہ دین استاد نے پہلے تو اپنی بڑی بڑی آنكھوں سے اس كا ایكسرے كرتا اور پھر اول پول بكنا شروع كردیتا۔ میرے دوست یہ دیكھ كر میری طرف دیكھتے اور مسكرا دیتے۔ دس منٹ كے بعد ہم اسپتال میں تھے ۔ میرے ساتھی خون دینے اندر كمرے میں گئے اور میں اور تازہ دین استاد باہر برآمدے میں میرے ایك دوست جو وہیں ایك ڈاكٹر كے ساتھ ڈیوٹی كرتے تھے ٬ كے ساتھ بیٹھ گئے۔ تازہ دین استاد سخت پریشان دكھائی دے رہے تھے اس كے ماتھے كی لكیریں یہ بتا رہی تھیں كہ وہ اس وقت سخت ٹینشن میں ہیں۔ میں اپنے دوست كے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھا كہ اچانك میری نظر تازہ دین استاد پر پڑی لیكن جب تك میں اسے روكتا اس نے منہ سے نسوار كا ایك بڑا گولہ اسپتال كے صاف و شفاف فرش پر لڑھكا دیا تھا۔ سامنے ہی دیوار پر جلی حروف میں لكھا تھا كہ "جگہ جگہ مت تھوكیں٬ صفائی كا خاص خیال ركھیں" لیكن استاد جی كو كہاں خبر تھی۔
نسوار كی گولی دور تك لڑھكتی چلی جارہی تھی دوسری طرف سے ایك آدمی كمرے سے نكلا ۔ شكل و صورت سے وہ كوئی ڈاكٹر معلوم ہورہا تھا۔۔۔۔اُس نے پہلے لڑھكتے ہوئے نسوار كے گولے كو اور پھر ہماری طرف قہر آلود نگاہوں سے دیكھا لیكن زبان سے كچھ نہیں كہا۔ اس كے جانے كے بعد میرا دوست بولا كہ یہ آپ نے كیا كیا یہ صاحب تو ہمارے سینئر ڈاكٹر ہیں اور ہوسكتا ہے اب مجھے ڈانٹ بھی پڑ جائے۔
تھوڑی دیر بعد میں اور تازہ دین استاد وہاں سے نكل كر باہر آگئے میں نے ساتھیوں كا شكریہ ادا كیا اور وہ چلتے بنے۔ پھر میں نے استاد جی كو سمجھانا شروع كیا كہ اسپتال میں صفائی كا خیال ركھنا چاہئیے اور جگہ جگہ نسوار نہیں تھوكنا چاہئئے اس كے لئے خاص جگہوں پر ڈسٹ بن موجود ہیں۔۔۔۔۔۔۔لیكن میں سمجھ گیا كہ استاد جی سخت پریشان ہیں تبھی وہ بار بار نسوار منہ میں ڈال رہے ہیں اور میری باتوں كو ایك كان سے سن كر دوسرے سے نكال رہے ہیں۔
اپریشن كا وقت نزدیك ہوتا جا رہا تھا ہمیں ایك كاغذ جس پر ضروری ادویات كی لسٹ تھی تھما دی گئی كہ جلد سے جلد اس كا انتظام كیا جائے۔ میں نے جب تازہ دین استاد كے پریشان چہرے كو دیكھا تو مجھے اس پر ترس آیا میں نے اس سے كہا آپ یہاں ركئے میں دوائی لینے جاتا ہوں ۔۔
اسپتال سے نكل كر میں میڈیكل سٹورز كی لمبی قطار كی طرف گیا۔ ایك دكان میں رش تھوڑا كم تھا میں نے كاغذ دكاندار كو تھماد دی۔ اس نے دوائیاں وغیرہ شاپنگ بیگ میں ڈالی میں نے پیسے دئیے اور واپس اسپتال میں داخل ہوا۔
كیا دیكھتا ہوں كہ تازہ دین استاد اسپتال كے عملے كے ساتھ دست و گریباں ہیں۔ اس نے آستینیں چڑھا ركھی ہیں منہ سے جھاگ نكل رہا ہے اور آنكھوں میں غصے اور پریشانی كے ملے جلے آنسو تیر رہے ہیں۔ پتہ چلا كہ عملہ چاہتا تھا كہ اپریشن شروع ہونے سے پہلے قانون كے مطابق تازہ دین استاد سے انگوٹھا لگائے تا كہ بعد میں اگر خدانخواستہ كوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آجائے تو ڈاكٹر ذمہ دار نہیں ہونگے۔ لیكن تازہ دین استاد نے پہلے یہ پوچھ ڈالا كہ اپریشن كون كرے گا؟ انہوں نے ان ڈاكٹروں كے نام لئے جن كی ڈیوٹی تھی۔ تازہ دین استاد نے جلدی سے پوچھا كہ اسپتال میں زنانہ ڈاكٹر نہیں ہیں كیا؟ جواب ملا فی الحال ان صاحبان كی ڈیوتی ہے اور اپریشن یہی لوگ كریں گے۔
یہ سننا تھا كہ استاد جی پر غصے كا ایك اور دورہ پڑا اور لڑائی پر اتر آئے جو منہ میں آیا كہتے چلے گئے ایك تماشہ كھڑا ہوگیا۔ میں نے بھی دوسرے لوگوں كی طرح اسے سمجھانے كی بہت كوشش كی لیكن جناب كہاں سنتے تھے۔ سبھی اسے سمجھا رہے تھے كہ ٹائم نازك ہے اور اپریشن بہت ضروری مگر وہ بضد تھا ۔
اتنے میں وہی ڈاكٹر اس طرف آنكلا جس كے سامنے تازہ دین استاد نے فرش پر نسوار پھینكی تھی۔ ڈاكٹر صاحب كے پوچھنے پر عملے نے انہیں تمام قصے سے آگاہ كیا۔ اس نے ہماری طرف دیكھا اور شروع ہوگیا:
"آپ لوگوں كو نہ تو اپنی فكر ہے نہ دوسروں كی یہ اسپتال ہے كوئی پاگل خانہ نہیں۔ خدا جانے كہاں كہاں سے جنگلی آجاتے ہیں۔ موت اور زندگی كو آپ لوگوں نے كھیل سمجھا ہوا ہے ۔ انسانی جان كی آپ لوگوں كے پاس كوئی اہمیت ہی نہیں۔۔۔۔اپنی بے خبری اور جاہلیت و غفلت كی وجہ سے پہلے اپنے مریض كو موت كی وادی میں دھكیل دیتے ہو پھر واہیات اور فضول باتوں میں اپنا اور ہمارا قیمت وقت برباد كرتے ہو۔۔۔۔۔اگر آپ یہی چاہتے ہو كہ صرف فی میل ڈاكٹر آپ كے مریض كا آپریشن كرے تو اس كے لئے پہلے آپكو خود آگے آنا ہوگا اور اپنے لڑكیوں كو زیور تعلیم سے آراستہ كرنا ہوگا۔ آج اگر ہم پختون اپنی لڑكیوں كو گھروں تك محدود ركھتے ہیں تو كل فی میل ڈاكٹر ٬ استاد اور انجینئر كہاں سے آئیں گی؟ آپ لوگ خود اپنے پاؤں پر كلہاڑی مارتے ہو اور خود ہی گلہ بھی كرتے ہو عجیب بات ہے١۔۔۔
پھر وہ تازہ دین استاد سے مخاطف ہوا:
"ملا جی چاہئیے تو یہ تھا كہ آپ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم كا یہ فرمان كہ "تعلیم مرد اور عورت دونوں پر فرض ہے" لوگوں تك پہنچاتے۔ لیكن بجائے اس كے آپ لوگوں كو ڈسكریج كرتے ہو اور انہیں ڈراتے ہو كہ یہ نا كرو یہ شریعت كے خلاف ہے وہ نہ كرو وہ اسلام كے خلاف ہے۔ ذرا اپنی گریبانوں میں جھانك كر تو دیكھیں كہ ایسا كرنے سے نقصان كسے پہنچ رہا ہے كسی ایك طبقے یا فرد كو یا پورے سماج كو؟۔۔۔۔۔
لمبی چوڑی مگر ذہن كو جنجھوڑنے والی تقریر كے بعد ڈاكٹر تو چلتا بنا لیكن جب میں نے تازہ دین استاد كی طرف دیكھا تواس كی آنكھیں شرم سے جھكی ہوئی تھی چہرے پر پسینے كی ہلكی ہلكی بوندیں نمودار ہوگئیں تھیں اور پیشانی پر پشیمانی كی لكیریں اب واضح دكھائی دے رہی تھیں۔
Comment