شام كو كام سے تھكا ہارا گھر پہنچا او فریش ہو كے جب ٹی وی آن كیا تو سمجھ گئے كہ ہونہو دال میں كچھ كالا ہے كیونكہ ہر نیوز چینلز نے شور برپا كر ركھا تھا كہ ہنگامی پریس كانفرنس ہونے والی ہے۔ پہلے تو ہم سمجھے كہ شاید كوئی اہم سیاسی رہنما اللہ كو پیارے ہوگئے ہیں اور یا كوئی اہم سیاسی واقعہ رونما ہوا ہے جس كے دور رس اور خطرناك نتائج سامنے آنے والے ہیں لیكن جلد ہی معلوم ہوا كہ ایم كیو ایم كے روپوش رہنما جو لندن میں بیٹھے ہوئے ہیں اور جن كو پاكستان اور كراچی كا غم مسلسل كھاتا جا رہا ہے اور بیچارے سوكھ كر كانٹا بن گئے ہیں یہاں تك كہ انكی گردن تك نظر نہیں آرہی ٬وہ قوم سے ویڈیو كانفرنس كرنے والے ہیں۔ موصوف ہمیشہ لندن سیكرٹیرٹ سے ہی خطاب فرماتے ہیں اور آج وہ پاكستان كے مستقبل سے متعلق اہم انكشافات اور فیصلے كرنے والے تھے گو ہمیں اس پر تعجب نہیں تھا كیونكہ پاكستان كے مستقبل سے متعلق تمام تر فیصلے ہمیشہ سے لندن میں ہی ہوتے آرہے ہیں خواہ وہ اس كے قیام كا فیصلہ ہی كیوں نہ ہو۔
ویسے سچ بولیں تو ہم اس پاكستانی "راجنی كنت" كی پریس كانفرنس او خطابات عام طور پر سنتے نہیں كیونكہ ہم اسے صرف وقت كا ضیاع سمجھتے ہیں جتنی دیر میں یہ صرف "السلام علیكم میرے ساتھیو" بولتے ہیں اتنی دیر میں ایك ٹی 20 میچ لائیو دیكھا جاسكتا ہے۔ لیكن آج جس طرح ٹی وی چینلز انكو كوریج دے رہے تھے اور تجزئیے كر رہے تھے اس سے تو لگ رہا تھا كہ یہ پریس كانفرنس انتہائی اہمت كی حامل ہے اور یہ كہ الطاف بھائی اہم انكشافات كرنے والے ہیں۔ حالانكہ ہمیں محترم سے یہ امید تو بالكل نہیں تھی كیونكہ ان كی زیادہ تر خطابات میں مخالف پارٹیوں پر الزامات كی بھرمار اور اپنی تعریفیں ہوتی ہیں لیكن پھر بھی ہم تجسس كیوجہ سے بے صبری سے اس تاریخی پریس كانفرنس كا انتظار كرنے لگے۔ 7 بج گئے اور آخر كار خدا خدا كركے انتظار كے لمحے ختم ہوئے اور پریس كانفرنس شروع ہوئی۔الطاف بھائی نے پریس كانفرنس كا آغاز بسم اللہ سے كیا اور پھر اپنی سریلی اور میٹھی اواز میں عربی كلمات پڑھے۔ اور یوں ہمیں پتہ چلا كہ الطاف بھائی جیسے بھی ہوں ہمارے وزیر داخلہ رحمان ملك سے تو اچھے ہیں جنہیں سورہ اخلاص پڑھنی بھی نہیں آتی اور ایك میٹنگ میں اس كو پڑھنے كی ناكام كوشش كرچكے تھے۔ اور جب الطاف بھائی نے یہ كڑوا سچ اگل دیا كہ پاكستان میں پڑھائی جانے والی تاریخ جھوٹی اور فریب پر مبنی ہے تب ہم پر عیاں ہوا كہ الطاف بھائی كبھی كبھی سچ بھی بول لیتے ہیں۔ پھر انہوں نے قرآن پاك اٹھایا اور فرمایا كہ یہ سر پر ركھنے كی چیز نہیں اور قرآن پاك كو اپنے سر پر ركھ لیا گو اس حركت كی كوئی معقول وجہ ہمارے ذہن میں نہیں آئی۔
پریس كانفرنس حسب معمول طوالت اختیار كر گئی اور ہم الطاف بھائی كے عجیب و غریب حركات و سكنات سے خوب محفوظ ہوتے رہے۔ اتنے میں كیا دیكھتے ہیں كہ گھر كے سارے بچے كمرے میں آٹپكے اور ٹی وی دیكھنے لگے۔ ہمیں معلوم تھا كہ یہ كارٹون دیكھنے كا وقت نہیں تھآ اس لئے ہم نے انہیں فورًا باہر جانے كا كہا لیكن بھانجےمیاں نے ضد شروع كی كہ انكل مجھے بھی الطاف بھائی كا كامیڈی شو دیكھنا ہے۔ خیر ہم نے انہیں اجازت دے دی۔ اور جب الطاف بھائی كانفرنس كے دوران كوئی گانا اپنی نہایت سریلی اور مدھر اواز میں گاتے اورساتھ میں بیٹھے بیٹھے رقص كرنے لگتے تو بچے خوشی سے جھومنے لگتے اور خوب انجوائے كرتے۔
ہم سمجھ رہے تھے كہ یہ پریس كانفرنس ذوالفقار مرزا كے الزامات كے جوابات دینے اور اپنی صفائی كرنے كے لئے ہورہی ہے لیكن جلد پتہ چلا كہ الطاف بھائی اپنی صفائی دینے كے موڈ میں نہیں البتہ انہوں نے حسب معمول اپنی بے لگام توپوں كا رخ اے این پی اور شاہی سید كی طرف كردیا۔ اور یوں دیكھنے والوں پر یہ راز افشاں ہوگیا كہ ایم كیو ایم كی راہ میں اصل ركاوٹ كراچی میں رہنے والے 40 لاكھ پختون اور ان كی واحد نمائندہ جماعت اے این پی ہے۔ جذبات كی رو میں بہتے ہوئے قائد ایم كیوایم نے بغیر سوچے سمجھے اور بغیر ثبوت فراثم كئے شاہی سید اور اے این پی كو ایك بار پھر غدار اور ملك دشمن قرار دیا۔ یاد رہے كہ اس قسم كے فتوےاے این پی كے خلاف پاكستان كے قیام كے فورًا بعد ہی لگنے شروع ہوگئے تھے۔ موصوف نے جرنلسٹوں اور اینكرپرسن ز كو بھی نشانہ بنایا اس سے پہلے بھی ایم كیو ایم كے مصطفی كمال نے جرنلسٹس كو اپنی تنقید كا نشانہ بنایا تھا اور شاید یہی وجہ تھی كہ آج انكی اس بے ہودہ پریس كانفرنس كو اتنی كوریج مل رہی تھی جو شاید پاكستان كی تاریخ میں كسی بھی رہنما كو نصیب نہیں ہوئی تھی۔ الطاف بھائی نے ایك خفیہ نقشہ بھی صحافیوں كے سامنے پیش كیا جس میں بقول انكے پاكستان كو تقسیم كیا گیا تھا اور اگر كوئی اس كی راہ میں ركاوٹ تھا تو وھ تھے محترم الطاف حسین اور انكی جماعت ایم كیو ایم۔ اور یہ كہ وہ پاكستان بچانے كےلئے سر پر كفن باندھ كر نكلے ہیں۔ حریف جماعتوں اے این پی٬ جماعت اسلامی اور مسلم لیگ ن پر تنقید اور الزامات كے بھرمار كے بعد اخر كار پاكستان كی تاریخ میں سب سے لمبی اور طویل یہ پریس كانفرنس اختتام كو پہنچی۔
ویسے سچ بولیں تو ہم اس پاكستانی "راجنی كنت" كی پریس كانفرنس او خطابات عام طور پر سنتے نہیں كیونكہ ہم اسے صرف وقت كا ضیاع سمجھتے ہیں جتنی دیر میں یہ صرف "السلام علیكم میرے ساتھیو" بولتے ہیں اتنی دیر میں ایك ٹی 20 میچ لائیو دیكھا جاسكتا ہے۔ لیكن آج جس طرح ٹی وی چینلز انكو كوریج دے رہے تھے اور تجزئیے كر رہے تھے اس سے تو لگ رہا تھا كہ یہ پریس كانفرنس انتہائی اہمت كی حامل ہے اور یہ كہ الطاف بھائی اہم انكشافات كرنے والے ہیں۔ حالانكہ ہمیں محترم سے یہ امید تو بالكل نہیں تھی كیونكہ ان كی زیادہ تر خطابات میں مخالف پارٹیوں پر الزامات كی بھرمار اور اپنی تعریفیں ہوتی ہیں لیكن پھر بھی ہم تجسس كیوجہ سے بے صبری سے اس تاریخی پریس كانفرنس كا انتظار كرنے لگے۔ 7 بج گئے اور آخر كار خدا خدا كركے انتظار كے لمحے ختم ہوئے اور پریس كانفرنس شروع ہوئی۔الطاف بھائی نے پریس كانفرنس كا آغاز بسم اللہ سے كیا اور پھر اپنی سریلی اور میٹھی اواز میں عربی كلمات پڑھے۔ اور یوں ہمیں پتہ چلا كہ الطاف بھائی جیسے بھی ہوں ہمارے وزیر داخلہ رحمان ملك سے تو اچھے ہیں جنہیں سورہ اخلاص پڑھنی بھی نہیں آتی اور ایك میٹنگ میں اس كو پڑھنے كی ناكام كوشش كرچكے تھے۔ اور جب الطاف بھائی نے یہ كڑوا سچ اگل دیا كہ پاكستان میں پڑھائی جانے والی تاریخ جھوٹی اور فریب پر مبنی ہے تب ہم پر عیاں ہوا كہ الطاف بھائی كبھی كبھی سچ بھی بول لیتے ہیں۔ پھر انہوں نے قرآن پاك اٹھایا اور فرمایا كہ یہ سر پر ركھنے كی چیز نہیں اور قرآن پاك كو اپنے سر پر ركھ لیا گو اس حركت كی كوئی معقول وجہ ہمارے ذہن میں نہیں آئی۔
پریس كانفرنس حسب معمول طوالت اختیار كر گئی اور ہم الطاف بھائی كے عجیب و غریب حركات و سكنات سے خوب محفوظ ہوتے رہے۔ اتنے میں كیا دیكھتے ہیں كہ گھر كے سارے بچے كمرے میں آٹپكے اور ٹی وی دیكھنے لگے۔ ہمیں معلوم تھا كہ یہ كارٹون دیكھنے كا وقت نہیں تھآ اس لئے ہم نے انہیں فورًا باہر جانے كا كہا لیكن بھانجےمیاں نے ضد شروع كی كہ انكل مجھے بھی الطاف بھائی كا كامیڈی شو دیكھنا ہے۔ خیر ہم نے انہیں اجازت دے دی۔ اور جب الطاف بھائی كانفرنس كے دوران كوئی گانا اپنی نہایت سریلی اور مدھر اواز میں گاتے اورساتھ میں بیٹھے بیٹھے رقص كرنے لگتے تو بچے خوشی سے جھومنے لگتے اور خوب انجوائے كرتے۔
ہم سمجھ رہے تھے كہ یہ پریس كانفرنس ذوالفقار مرزا كے الزامات كے جوابات دینے اور اپنی صفائی كرنے كے لئے ہورہی ہے لیكن جلد پتہ چلا كہ الطاف بھائی اپنی صفائی دینے كے موڈ میں نہیں البتہ انہوں نے حسب معمول اپنی بے لگام توپوں كا رخ اے این پی اور شاہی سید كی طرف كردیا۔ اور یوں دیكھنے والوں پر یہ راز افشاں ہوگیا كہ ایم كیو ایم كی راہ میں اصل ركاوٹ كراچی میں رہنے والے 40 لاكھ پختون اور ان كی واحد نمائندہ جماعت اے این پی ہے۔ جذبات كی رو میں بہتے ہوئے قائد ایم كیوایم نے بغیر سوچے سمجھے اور بغیر ثبوت فراثم كئے شاہی سید اور اے این پی كو ایك بار پھر غدار اور ملك دشمن قرار دیا۔ یاد رہے كہ اس قسم كے فتوےاے این پی كے خلاف پاكستان كے قیام كے فورًا بعد ہی لگنے شروع ہوگئے تھے۔ موصوف نے جرنلسٹوں اور اینكرپرسن ز كو بھی نشانہ بنایا اس سے پہلے بھی ایم كیو ایم كے مصطفی كمال نے جرنلسٹس كو اپنی تنقید كا نشانہ بنایا تھا اور شاید یہی وجہ تھی كہ آج انكی اس بے ہودہ پریس كانفرنس كو اتنی كوریج مل رہی تھی جو شاید پاكستان كی تاریخ میں كسی بھی رہنما كو نصیب نہیں ہوئی تھی۔ الطاف بھائی نے ایك خفیہ نقشہ بھی صحافیوں كے سامنے پیش كیا جس میں بقول انكے پاكستان كو تقسیم كیا گیا تھا اور اگر كوئی اس كی راہ میں ركاوٹ تھا تو وھ تھے محترم الطاف حسین اور انكی جماعت ایم كیو ایم۔ اور یہ كہ وہ پاكستان بچانے كےلئے سر پر كفن باندھ كر نكلے ہیں۔ حریف جماعتوں اے این پی٬ جماعت اسلامی اور مسلم لیگ ن پر تنقید اور الزامات كے بھرمار كے بعد اخر كار پاكستان كی تاریخ میں سب سے لمبی اور طویل یہ پریس كانفرنس اختتام كو پہنچی۔
Comment