ادب کر اس خراباتی کا جسے جوش کہتے ہی
کہ یہ اپنی صدی کا حافظ و خیام ہے ساقی
پروفیسر بےتاب تابانی
ایک خواب از جوش ملیح آبادی
بیوی کی باتیں سن کرمیں سناٹے میں آگیا۔دل نے کہا یہ ٹھیک کہتی ہیں اور وہ پہلا دن تھا کہ عقل ِ معاش میرے سینے میں جاگی اور میں سوچنے لگا کیونکر رزق کا سامان ہو کچھ سمجھ میں نہ ایا تو دلا داس ہو گیا اور چہرے پہ بری بے کسی بسنے لگی بیوی نے مجھے اداس دیکھا تو اس کے دل پہ چھری چل گئی انکھو ں میں انسو بھر کر کہنے لگیں تم گھبراو نہیں تم جانتے کہ میں اچھا کھانا بنا لیتی ہم لکھنو میں ہوٹل کھول لیں گے آپ کے داداایک تلوار لیکت ہندوستان آءے تھے اور اس کے زور پر اتنے محل بنا لیے تو اللہ نے چاہا تو تو ہم کگ گیر سے سونا اگلوا لیں گے۔۔
بیوی نے ڈاھارس بندھائی میرا دل اور بھی مغموم ہو گیا اور دوسرے کمرے میں اکر اپنےپچوں کے مستقبل کے بارے میں سوچنے لگا اتنے میں جانے کیا لہر آئی کہ میں بستر پر درازہو کر لحاف اوڑھ لیا اور دو چار کروٹیں بدل کر سو گیا
سو گیا۔۔۔۔۔ تو پچھلے پہر ایک انوکھا خواب دیکھا۔۔۔۔۔۔ سچا خواب یا میرے تصوارت
کا گرداب ۔۔۔ میں کیا فیصلہ کروں۔۔یہ دنیا بڑی حیرت ناک اور پر اسرار ہے
یہ سن کر میری دل کی دھڑکن بڑھ نگئی اور میری آنکھ کھل گئی خوف سے روتے روتے میری ہچکیاں بندھ گئیں
جی بھر کے روچکا تو بستر ست اٹھ کر منہ ہاتھ دھویا لیکن ایک انوکھی خوشبو میرا احاطہ کئے ہوئے تھی اور خوشبو
بھی ایسی کے کوئی اس کا مقابلہ نہ کر سکے۔۔۔۔
rose
Comment