ہاتھ سے جنت بھی گئی
اْسکے چیتھڑے اڑ چکے تھے ، سردھڑسے جدا ہوچکا تھا، عجیب سا دھماکا ہوا تھا بہت زور کی آواز ہوئی تھی، اسکے تن کے خون کا رنگ بھی سیاہ ہوگیا تھا جیسے خون میٖں آکسیجن کی آمیزیش بند ہوگئ ہو، پھر بھی اْسکا جسم کانپ رہا تھا جیسے ابھی کوئی رمق باقی ہو ۔ ہر طرف اندھیرا چھا چکا تھا ایسے میں اْسے لگ رہا تھا جیسے کوئی اْس سے کچھ پوچھ رہا ہو ۔
اْسنے اْس انجانی آواز سے پوچھا۔
موت کے فرشتے نے بات ختم کی ہی تھی کہ اْسے ایسا لگا جیسے وہ بڑی تیزی سے کسی اونچائی سے نیچے کی جانب جارہا ہو۔
اس کو کیا ہوا ہے ؟ یہ بستر سے کیوں لگ گئی ہے ؟ اتنی بیمار لگ رہی ہے۔ ارے یہ تو درد سے تڑپ رہی ہے اس کو کوئی دوا کیوں نہیں دیتا؟
اچانک سے اْسکے جسم میں حرارت پیدا ہوئی۔۔۔خون کا رنگ پھر سے سرخ ہونے لگا، جیسے کہ آکسیجن کی ملاوٹ پھر سے شروع ہوگئی ہو۔۔لیکن جسم کی کپکپی میں کوئی کمی نہیں آرہی تھی۔۔اْس نے اپنے آپ کو چھونا شروع کیا۔۔ارے میرے ہاتھ پاؤں، سر سبھی سا لم ہیں۔۔۔میں تو شایدسانس بھی لے رہا ہوں۔۔۔او میرے اللہ ۔۔۔یہ میں کیا کوئی خواب دیکھ رہا تھا؟ ۔۔۔او ہاں یہ اک خواب ہی تھا کتنا بھیانک خواب۔۔۔ او میرے اللہ یہ میں کیا کرنے جارہا تھا۔۔۔؟
پھر عامر جان اپنے خاندان کو لے کر نہ جانے کونسی بستی میں چلاگیا ۔۔۔کسی کو کچھ بتائے بغیر۔۔۔شاید تنظیم کے ڈرسے۔۔
تحریر: سید انورظہیر
Comment